سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں نت نئی دریافتوں اور تحقیق کے لیے دنیابھر کے ماہرین ہمہ وقت کوشاںہیں ۔ان ماہرین کے ساتھ مختلف ممالک کے نوجوان بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور وہ بھی یہ کینوس وسیع کرنے کے لیے تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔
اس ضمن میں پاکستان کے نوجوان بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔این ای ڈی یونیورسٹی میں قائم اسمارٹ سٹی لیب نیشنل سینٹر آف آرٹی فیشل انٹیلی جینس میں کام کرنے والی ٹیم کے چند نوجوانوں نے چاول کا معیارجانچنے کے لیے مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جینس ) کا استعمال کرتے ہوئے ایک سافٹ وئیرتیّارکیا ہے ۔یہ پاکستان کا پہلا آرٹی فیشل انٹیلی جینس سا فٹ وئیر ہے ۔
چاول ہماری غذائی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ بر آمدات کے ذریعے زر مبادلہ کے حصول کا اہم ذریعہ بھی ہے ۔اس کی قیمت کا تعین درجہ بندی اور معیار کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔اب تک پاکستان میں یہ کام مینوئل طر یقوں سےکیا جاتا ہے،جو خاصا وقت طلب اور مشکل کام ہے ۔لیکن جدید اور تیز رفتار دور میں سائنس دان اور انجینئرز نے ٹیکنالوجی کے ذریعے ہر مشکل اور وقت طلب کام کو آسان بنا دیا ہے۔
اس سلسلے میں باصلاحیت نوجوانوں نے چاول کے کاشت کاروں ،مِلرز ، تاجروںاوربرآمد کنندگان کی مشکل جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آسان کردی ہے ۔یہ سافٹ وئیر کس طرح چاول کا معیار جانچتاہے اور مستقبل میں یہ کس طر ح رائس انڈسٹری کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا؟اس سلسلے میں ہم نے اسمارٹ سٹی لیب ،نیشنل سینٹر آف آرٹی فیشل انٹیلی جینس کے رکن اور ریسرچ ایسوسی ایٹ حافظ احسن الرحمان سے گفتگو کی ، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے ۔
س:اپنی تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیں ؟
ج:ایک نجی یونیورسٹی سے الیکٹرونکس اور کمپیوٹر سسٹم انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا ہے۔اب این ای ڈی یونیورسٹی میں قائم اسمارٹ سٹی لیب نیشنل سینٹر آف آرٹی فیشل انٹیلی جینس میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہوں ۔
اس لیب میں تقریبا ً آٹھ لوگ کام کررہے ہیں جن کا تعلق مختلف انجینئرنگ یونیورسٹیزسے ہے ۔ہم ایسے آئیڈیاز پر کام کرتے ہیں جن کی زندگی میں کوئی اہمیت ہو، یعنی جو مستقبل میں ہمارے کام آئے اور ہمارے لیے کسی مشکل کام کو آسان بنا سکیں ۔
س:چاول کا معیار جانچنے کے لیے جوسافٹ ویئر تیّار کیا ہے ،اس کے بارے میں کچھ بتا ئیں ؟
ج:یہ سافٹ وئیر ڈیزائن کرنے کے بارے میں ہم نے 2018 ء میںمنصوبہ بنایا تھا،کیوں کہ پاکستان چاول پیدا کرنے والا دنیا کا دسواں بڑا ملک ہے۔ابتدا میں اس پروجیکٹ کا آئیڈیا چار طلبا کے ایک گروپ کو دیا اور ان سے کہا کہ اس پرپروٹو ٹائپنگ کریںاوراسے ایم وی پی(minimum viable product ) کی شکل میں لے کر آئیں ۔ایک سال تک اس منصوبے پر کام کرنے کے بعد جب نتائج کا مشاہدہ کیا تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ ہم اس سا فٹ وئیر کومارکیٹ میں متعارف کراکےتجارتی بنیاد پرپیش کرسکتے ہیں ۔اس کے بعد اس منصوبے پر گریجویشن اور ماسٹرز کے کئی طلبا نے کام کیا ۔اس سافٹ وئیر کے چار اہم حصے ہیں ۔سب سے اہم حصہ اسکینر ہے ،سافٹ وئیر ہے ،جس پر پورا پروگرام انحصار کرتا ہے ۔ کمپیوٹر سسٹم ،جس پرچاول کے معیار کی جانچ کی جاسکے۔
سب سے پہلے اسیکنر پردس گرا م چاول کے دانے ڈال کر انہیں پھیلا دیا جاتا ہے ،تا کہ ان کی صحیح سےاسکیننگ کی جاسکے۔پھر اسکینر کو بند کردیا جاتا ہے۔یہ بالکل عام پیپر اسکینر کی طرح کام کرتاہے۔ پھر سافٹ وئیر کی مدد سے ایک امیج بنتی ہے۔امیج بننے کے بعد سافٹ وئیر اس کی پروسیسنگ کرکے نتائج پیش کرتا ہے کہ کتنے چاول خراب ہیں،کتنے ٹوٹے ہوئے ہیں ،کتنے ثابت دانے ہیں اور ان کا وزن کتنا ہے ۔ اصل امیج بھی نظر آتی ہے کہ آپ نے کس طر ح کے چاول رکھے تھےاورجہاں جہاں چاول خراب ہوتے ہیں، اس کی نشان دہی کردی جاتی ہے ۔
ان مراحل کے بعد سافٹ وئیر دو رپورٹ دیتا ہے جو رائس انڈسٹری، مِلرز، تاجروں اور بر آمد کنندگان کے لیے بہت اہم ہیں ،کیوںکہ ان میں چاول کے معیارکے بارے میں مکمل معلومات ہوتی ہے ۔اس سافٹ وئیر کی خاص بات یہ ہے کہ ہم اس میں وزن کے حساب سے فی صد بتا رہے ہیں ۔یعنی چاول کے جتنے دانے ثابت اور ٹوٹے ہوئے ہیں ان کا وز ن کتناہے ۔اور یہ کام وزن چیک کرنے والی مشین کے بغیر بتارہے ہیں جو تھوڑا مشکل کام ہے ۔
لیکن یہ انڈسٹری کےلیے بہت اہمیت رکھتا ہے ،کیوں کہ جب چاول ایکسپورٹ ہو رہا ہوتا ہے تو اس میں یہ نکتہ بہت اہمیت رکھتا ہے کہ ٹوٹے ہوئے چاولوں کا وزن کتنا ہے ۔پھرا سی حساب سے اس کی قیمت مقرر کی جاتی ہے ۔اگر آپ یہ کام مینوئل کریں تو اس میں کافی وقت لگتا ہے ۔لیکن ہماراسافٹ وئیر یہ کام چند منٹوں میں کر دیتا ہے ۔
س:اس سافٹ ویئر کے ڈیزائن کے بنیادی نکات کیا ہیں؟
ج:اس میںستّر فی صد آرٹی فیشل ا نٹیلی جینس (اے آئی) کا استعمال کیا گیاہے ۔کچھ عرصے بعد ہم اس میں ایڈوانس آرٹی فیشل انٹیلی جینس کا استعمال کریں گے ،کیوں کہ ابھی اس سافٹ وئیر میںرنگ کو پہچاننے کا فیچر نہیں ہے۔مثال کے طور پر چاول لال،پیلا یا کسی اور رنگ کا ہے ۔لیکن اے آئی کو استعمال کرتے ہوئے ہم بہت جلد اس میں یہ فیچر بھی شامل کریں گے ۔
مستقبل میں ہم اس میں چاول کی قسم کو پہچانے کا فیچر بھی شامل کریں گے ۔فی الحال اے آئی صرف ٹوٹے ہوئے چاول اور وزن کو جانچنے کا کام کرتا ہے ۔ یہ سافٹ وئیر چاول کی لمبائی، موٹائی، ٹوٹے ہوئے دانوں کا تناسب، اوسط وزن اور دیگر اہم خصوصیات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ہر قسم کے چاولوں کا معیار با آسانی جانچ لیتا ہے اور ان میں جو بھی خرابی ہوتی ہے وہ رپورٹ کے ذریعے بتا دیتا ہے ۔
س:آپ کی ٹیم کتنے لوگوں پر مشتمل ہے ؟
ج: دو سال کے دوران مختلف لوگوںنے اس منصوبے پرکام کیا۔ابتدا میں چارافراد کا ایک گروپ تھا جنہوں نے اس پر کام کیا تھا۔پھر ماسٹرز کے طلبانےاس پر کام کیا اور اب میں اس پر کام کررہا ہوں ۔اس طر ح اب تک اس پر چھ لوگ کام کرچکے ہیںاور سب کا تعلق انجینئرنگ کے مختلف شعبوںسے ہے۔
س:اس سافٹ وئیر کو کیا نام دیا گیا ہے ؟
ج:اس کا نام رائس کوالٹی اینالائرز ( آر کیو اے) رکھا گیا ۔
س:اس کے ذریعےچاول کا معیار جانچنے میں کُل کتنا وقت لگتا ہے ؟
ج:دس گرام چاول جانچنے میں ایک منٹ لگتاہے ۔ یہ ہم نے اس لیے کیاہے کہ یہ چاول کی صنعت کا اصول ہے کہ ایک مرتبہ میں صرف دس گرام چاول ہی جانچے جاتے ہیں ۔اگر اس میں اس سے زیادہ چاول ڈال دیے جائیںتب بھی یہ سافٹ وئیر اسی طر ح کام کرے گا ۔ وزن زیادہ ہونے سے اس کے پراسیس میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔
یہاں یہ بات بتاناضروری ہے کہ دس گرام رکھنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اب تک چاول کی صنعت میں یہ کام ہاتھوں سے کیا جاتا ہے اور دس گرام کو جانچنے میں تقریبا ً ایک گھنٹہ لگتا ہے ۔لیکن اس سافٹ وئیر کے ذریعے یہی کام ایک منٹ میں ہو جاتا ہے ۔لیکن اگر دس گرام سےزیادہ وزن کی بھی جانچ کی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔
س:اب تک اس کی جو آزمائش کی گئی ہے ،اس کے نتائج کیسے آئے ہیں ؟
ج:اب تک ٹوٹے چاول ،ثابت،لمبائی اور چوڑائی کے حساب سے جتنی دفعہ بھی ٹیسٹنگ کی گئی اس کے نتائج 99 فی صد در ست آئے ہیں ۔
س:اسے تیار کرنے میں کتنا وقت لگا ہے؟
ج:اسے مکمل طور پر تیار کرنے میں دوسا ل لگے ہیں ۔ اس دوران اس پر کوئی ٹیسٹنگ نہیں کی گئی تھی ۔
س:ا س کی تیاری پر کتنی لاگت آئی ہے اور یہ لاگت آپ لوگوں نے خود بر داشت کی یا کہیں سے فنڈنگ ہوئی تھی ؟
ج: 2018ء میں جب یہ پر وجیکٹ چار طلبا کررہے تھے تواس کے لیے ایچ ای سی نے فنڈفراہم کیا تھا۔اُس وقت اس کے جو بھی اخراجات تھے وہ ایچ ای سی نے برداشت کیے تھے ،کیوں کہ ان طلبا نے ایچ ای سی کو پروپوزل لکھا تھا، جس میں اپنے اس پروجیکٹ کے بارے میں بتا یا تھا کہ ہم چاول کی ٹیسٹنگ کے لیے ایک سافٹ وئیر ڈیزائن کرنا چاہتے ہیں۔ تو ایچ ای سی کو یہ پروپوزل پسند آیااوروہ فوری طور پر اس کے لیے فنڈ دینے کے لیے راضی ہوگیا تھا۔لیکن یہ فنڈ نگ ایک سال کے لیے کی گئی تھی ۔بعدا زاں اس کے اخراجات اسمارٹ سٹی لیب ہی اُٹھا رہی ہے۔اس کی تیاری پر دس لاکھ روپے لاگت آئی ہے ۔
س:کیا آ پ نے اس کی قیمت کا تعیّن کرلیا ہے ؟
ج:ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ جب یہ سافٹ وئیر تجارتی بنیادوں پر کام کرنے لگے گا تو ہم چاول کی صنعت کو ایک سال کےمعاہدے پریہ سافٹ وئیر فراہم کریں گے ،جس کی قیمت ایک لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے ۔ایک سال بعد کمپنی چاہے تو اسے دوبارہ خرید سکتی ہے ۔
ایک سال کے معاہدے میں ہم کمپنی کو اسکینر اور سافٹ وئیر دیں گے ۔کمپیوٹر سسٹم اسے اپنا استعمال کرنا ہوگا ۔ اب تک پورے پاکستان سے متعددکمپینز نےاسے خریدنے کے لیے ہم سے رابط کیا ہے ۔اس کے علاوہ بیرونی ممالک سے بھی کالز آئی ہیں ۔
س:کیا مستقبل میں اسے مزید بہتر بنانے کا کام کیا جائے گا ؟
ج: مستقبل میں اسےتجارتی سطح پر لانے کا ارداہ رکھتےہے ،جس کے لیے ہمیں تقر یباً بیس لاکھ روپوں کی ضرورت ہے ۔اب تک اس کی زیادہ تر ڈیمانڈ صوبہ پنجاب سے آئی ہے ۔آگے چل کر ہم اس میں چاول کی قسم اور رنگ پہچاننے کا فیچر بھی شامل کریںگے۔اُمید ہے کہ چھ مہینوں میں یہ فیچر بھی شامل کردیا جائے گا ۔ دوسری اہم چیز ہم نے یہ کرنے کا سوچا ہے کہ اگر کوئی رائس کمپنی اپنی مر ضی کا کوئی سافٹ وئیر ڈیزائن کرانا چاہتی ہو تو ہم وہ بھی تیار کرکے دے سکتے ہیں ۔