• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ نے27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی




سینیٹ نے 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی۔ چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ متعارف اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا گیا، آرمی چیف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے۔ وفاقی آئینی عدالت بنائی جائے گی، صدر مملکت کو تاحیات استثنیٰ حاصل ہوگا۔ 

پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے 2 سینیٹرز نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، باقی ارکان نے آئینی ترمیم کے خلاف احتجاج کیا اور اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ 

وزیر قانون اعظم نذیر تاررڑ نے آئینی ترمیم بل پیش کیا تو اس کی حمایت میں 64 ارکان نشستوں پر کھڑے ہوئے۔ ان میں پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور جے یو آئی کے احمد خان بھی شامل تھے، ن لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی علالت کے باعثووٹ کاسٹ کرنے ایوان میں نہیں آ سکے۔

پی ٹی آئی اور جے یو ائی ایف کے ارکان نے آئینی ترمیم کے خلاف چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کے سامنے شدید احتجاج کیا۔ ایجنڈے کی کاپی پھاڑ کر ہوا میں اڑا دی اور شدید نعرے بازی کی۔

ترمیم کی منظوری کے عمل میں تحریک انصاف کے ارکان نے چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کا گھیراؤ کیا، سیف اللّٰہ ابڑو احتجاج میں بھی شریک نہیں ہوئے، اپوزیشن نے ترمیم کے حق میں ووٹوں کی گنتی کا اعتراض اٹھایا۔

اپوزیشن اراکین کا کہنا تھا کہ ووٹوں کی گنتی کے بغیر کیسے ترمیم ہوسکتی ہے، جب ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے ارکان کھڑے ہوئے تو تحریک انصاف کے سیف اللّٰہ ابڑو بھی ان میں شامل تھے۔

اس سے قبل اپوزیشن نے سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی اجلاس میں بھی ووٹنگ کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔

پی ٹی آئی ارکان نے چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کے سامنے احتجاج کیا، سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو نشست پر بیٹھے رہے، احتجاج میں شریک نہیں ہوئے،  پی ٹی آئی سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک کے حق میں کھڑے ہوئے، جے یو آئی کے احمد خان بھی تحریک کے حق میں کھڑے ہو گئے۔

27 ویں ترمیم پر ووٹنگ کے بائیکاٹ کا فیصلہ اپوزیشن مشترکہ پارلیمانی پارٹی اجلاس میں کیا گیا، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ووٹنگ سے قبل احتجاج کیا جائے گا۔

اس سے قبل قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے رپورٹ سینیٹ میں پیش کی جس میں 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ بھی شامل ہے۔ رپورٹ فاروق ایچ نائیک نے پیش کی۔

اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ مسودہ میں کچھ ترامیم کی گئی ہیں، سپریم کورٹ کے پاس از خود نوٹس کا اختیار تھا، ازخود نوٹس کے لیے تجویز کیا ہے کہ آئینی عدالت تب اس پر کام کرے گی جب کوئی اس کے لیے درخواست دے۔

انہوں نے کہا کہ جج کی ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ ٹرانسفر جوڈیشنل کمیشن پاکستان کے ذریعے ہوگی، اگر جج ٹرانسفر سے انکار کرے تو سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ریفرنس فائل ہوگا، جج کو انکار کی وجوہات بتانے کا موقع دیا جائے گا، صدارتی استثنیٰ تب قابل عمل نہیں ہوگا جب وہ پبلک آفس ہولڈر ہو جائے۔

سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر آغا شاہزیب درانی نے کہا ہے کہ اپوزیشن والے اپنی ترامیم لاتے، کمیٹی میں جاتے، یہ ہمیں بتاتے کہ اس آئینی ترمیم میں مسئلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جرمنی، اٹلی، اسپین میں بھی آئینی عدالت ہیں، آئینی عدالت سے کیا مسئلہ ہے وہ تو بیان کریں، اپوزیشن نے یہ ترامیم پڑھی ہی نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ میں 50 ہزار کیسز زیر التوا ہیں وہ کیسے ختم کیے جائیں گے۔

سینیٹر آغا شاہزیب درانی کا کہنا ہے کہ 2022 میں انہوں نے خود قانون میں ترمیم کی اور خود اس کا نشانہ بنے، 52 منٹ میں 52 بل اسی ایوان سے پاس ہوئے، اس وقت جمہوریت کہاں تھی؟

قانون و انصاف کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے گزشتہ روز بنیادی مسودے کی منظوری دی تھی۔

اس سے قبل نائب وزیراعظم اسحاق ڈار سے صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا سینیٹ میں نمبر پورے ہیں؟ جس پر اسحاق ڈار نے کہا کہ جی انشاء اللّٰہ۔

صحافیوں نے پھر سوال کیا کہ کیا سینیٹر جان بلیدی صاحب مان گئے ہیں؟ اسحاق ڈار نے کہا کہ جب ووٹنگ ہوگی تو پتہ چل جائے گا۔

قومی خبریں سے مزید