• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں امدادی کارروائی کے ضمن میں ابتدائی اوقات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔آتش زدگی، بم پھٹنے، عمارت گرنے، زلزلہ، طوفان یا سیلاب آنے، سڑک پر پیش آنے والے کسی حادثے یا کسی اور ناگہانی صورتِ حال میں متاثرہ افراد کو جس قدر جلد طِبّی یا دیگر امداد فراہم کی جاتی ہے ان کی جان بچنے کے امکانات اسی قدر زیادہ ہوتے ہیں۔

لیکن ظاہر ہے کہ اس کےلیے امدادی کارکنان اور متعلقہ عملے کا متاثرہ مقام تک پہنچنا اوّلین شرط ہے۔کسی بھی ممکنہ ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر میں کچھ قاعدو ں ، قوانین اورضابطوں پر عمل درآمد کیا اور کرایا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں سب سے اہم نکتے،یعنی ہنگامی انخلا کے راستوں اور امدادی کارکنان کے متاثرہ مقام تک پہنچنے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔لیکن ہمارے ہاں اس ضمن میں کیا صورتِ حال ہے،اس کا اندازہ لگانے کے لیے مشتِ از خروارے کے مصداق صرف ایک خبر ملاحظہ فرمائیں:

یہ تین نومبر 2020کی بات ہے۔اس روز سندھ ہائی کورٹ میں عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات اور آتش زدگی سےمتعلق قوانین پرعمل درآمد نہ ہونے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی تھی ۔اس موقعے پر عدالتِ عالیہ کے روبہ رو سِوِل ڈیفنس کےحکام نے سنسنی خیز بیان میں کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے عمارتوں کے منظور شدہ نقشے اسے فراہم نہیں کیے جاتے جس کے نتیجے میں اسّی فی صد بلند عمارتوں میں ہنگامی انخلاکے لیے راستے تک نہیں ہوتے اور داخلی راستے اس قدر تنگ ہیں کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں اندر نہیں جاسکتیں۔ 

بالخصوص بازاروں میں قائم شاپنگ پلازوں کے پارکنگ ایریاز میں چائنا کٹنگ کر کے دکانیں بنادی گئی ہیں جس کی وجہ سے سارے نظام میں بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔آگ بجھانے کے آلات کے لیے مخصوص مقامات پر بھی قبضے کرلیے گئے ہیں اوربلند عمارتوں کے مرکزی راستوں سے فائر بریگیڈ تک داخل نہیں ہوسکتا۔

عدالت عالیہ نے عمارتوں میں آگ بجھانے سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی ہونےپر سیکریٹری بلدیات اور چیئرمین ٹاسک فورس کو طلب کرلیا اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی،سِوِل ڈیفنس اور دیگراداروں سے اس ضمن میںتحریری جواب طلب کرلیاتھا۔ عدالت نے ہنگامی صورت حال کے لیے مخصوص ہیلپ لائن نمبر 16 اور 1219 فعال کرنے کا حکم بھی دیاتھا۔

زمانے کی ضرورت اور ہم

جنگِ عظیم دوم کے بعد دنیا بھر میں ہنگامی حالات میں امدادی کارروائیاں کرنے والے اداروں کے کردار‘ ان کے مقاصد اور تنظیم میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں ۔ زمانوںکی ضرورتوںکے مطابق یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد دنیا بھر میں شہری دفاع کے محکمے قائم ہوئے، تاکہ زمانۂ جنگ میں سویلین آبادی کو جنگ کی تباہ کاریوں سے زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بعد اس نئے خطرے سے نمٹنے کے لیے بھی تیاریاں کی گئیں اور ان ہتھیاروں سے تحفّظ کے لیے پناہ گاہیں تعمیرکی گئیں۔1970ء کے بعدکے برسوں میں بہت سے ممالک میں ایسے بہت سے واقعات رُونما ہوئے جن میں بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیوںکی ضرورت پڑی۔ چناںچہ ان اداروںکی کارکردگی کے بارے میں بہت سے نئے سوالات نے جنم لیا۔1980ء کے بعدکے برسوں میں سرد جنگ ختم ہونے سے دنیا کو لاحق جوہری خطرات میں کمی آئی‘ لیکن جدید طرزِ زندگی کے تیزی سے فروغ کے باعث بہت سے دیگر خطرات میں اضافہ ہونے لگا۔

اگرچہ پہلے کے مقابلے میں اب دنیا میں بڑی جنگوںکی تعداد کم ہے‘ لیکن قدرتی آفات‘ انسانوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہونے والے حادثات اور دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں اور مؤخرالذّکر دو خطرات پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگئے ہیں۔امدادی کارروائیاںکرنے والے اداروں کے کردار کے حوالے سے گیارہ ستمبر2001ء کے بعد بہت سے نئے سوالات نے سر اُٹھایا اور ماہرین نے اس ضمن میں بہت کچھ کیا۔ چناںچہ بہت سے ممالک میں ان اداروں میں ضرورت کے مطابق بہت سی تبدیلیاں کی گئیں اور بعض ممالک میں نئے نئے شعبے اور ادارے قائم کیے گئے۔مگر ہم نے کیا کِیا؟صورتِ حال عیاں ہے۔

قوانین میں سقم

کراچی کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ یہاں تعمیراتی قوانین میں بہت سے سقم ہیں اور جو قوانین موجود ہیں، اُن پر مؤثر انداز میں عمل درآمد نہیں کرایا جاتا۔ لہٰذا رہایشی اور تجارتی عمارتوں میں آتش زدگی پر قابو پانے کے انتظامات اور اُن کے نقشوں کے بارے میں سٹی فائر سروس کی کوئی اطلاع نہیں ہوتی۔ کثیر المنزلہ عمارتوں میں کسی ہنگامی صورتِ حال میں لوگوں کے انخلا کے لیے راستے نہیں بنائے جاتے اور جہاں بنائے جاتے ہیں، انہیں قوانین کے برخلاف استعمال کیا جاتا ہے، چناں چہ ایسی صورت میں نہ صرف فائر بریگیڈ کے عملے کو امدادی کارروائیاں کرنے میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں، بلکہ اُن کی جان کو لاحق خطرات میں کئی گُنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

بلڈنگ اینڈ ٹائون پلاننگ ریگولیشنز مجریہ2002ء میں آتش زدگی کے بارے میں دو ابواب شامل کیےگئے تھے۔ اس کا تیرہواں باب فائر ریزسٹنس اینڈ فائرپری کاشنز اور چَودہواں باب فائر ریسکیو اسٹرکچرل ریکوائر منٹ کے عنوان سے ہے۔ اُن میں یہ کہاگیا ہے کہ اس حوالے سے فلاں فلاں اقدامات کیے جانے چاہییں، لیکن یہ ذکر نہیں ہے کہ اُن پر کون سی اتھارٹی عمل درآمد کرائے گی اور اسے کیا کیا سہولتیں حاصل ہوں گی۔ صرف یہ کہہ دیا گیا تھا کہ یہ کام شہری حکومت کی ذمّے داری ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شہر میں تعمیر ہونے والی ہر نئی عمارت کا نقشہ سٹی فائر سروس سے بھی منظور کرایا جائے۔

کالعدم کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے 2002ء کے ضابطوں کے مطابق شہر کی کوئی بھی تین منزلہ یا اُس سے زاید بلندی والی عمارت آگ سے تحفّظ کے اطمینان بخش انتظامات کے بارے میں این او سی حاصل کرنے کے بعد ہی تعمیر کی جا سکتی تھی، لیکن سب جانتے ہیں کہ اس پابندی پر کس حد تک عمل درآمد ہوا۔ 

دوسری خرابی یہ ہے کہ شہر کے مختلف علاقوں میں کسی تخصیص کے بغیر رہایشی، تجارتی، صنعتی اور کم اور بہت زیادہ بلندی والی تعمیرات موجود ہیں، لہٰذا جب فائر بریگیڈ کو کہیں سے آتش زدگی کی اطلاع ملتی ہے، تو اُسے کم وقت میں بہت زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اگر انہیں یہ معلوم ہو کہ جس علاقے میں آگ لگی ہے، وہاں کس قسم کی سرگرمیاں ہوتی ہیں، تعمیرات کیسی ہیں، گلیوں اور سڑکوں کی چوڑائی کتنی ہے، جس عمارت میں آگ لگی ہے، اُس کا نقشہ کیسا ہے اور وہاں کس قسم کے امدادی سامان، کتنی گاڑیوں اور عملے کی ضرورت ہو گی، وہاں پہنچنے کے لیے کن کن مقامات سے گزرنا ہو گا، وہاں ٹریفک کی کیا صورتِ حال ہو گی اور وہاں پہنچنے میں کتنا وقت صرف ہوگا، تو اُن کی بہت سی مشکلات کم ہو سکتی ہیں اور کارکردگی زیادہ بہتر ہو سکتی ہے۔ 

یہ معلومات اُسی وقت حاصل ہو سکتی ہیں، جب تمام متعلقہ ادارے فائر بریگیڈ کوا یک مربوط نظام کے ذریعے مسلسل یہ معلومات اور نقشے فراہم کریں اور متعلقہ معاملات میں اُس سے اجازت نامہ حاصل کریں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے شہر دہلی کی آبادی تقریبا ایک کروڑ بتائی جاتی ہے، وہاں سینتیس مکمل فائر اسٹیشن ہیں اور وہاں کوئی بھی عمارت فائر بریگیڈ سے این او سی حاصل کیے بغیر تعمیر نہیں کی جا سکتی۔دوسری جانب ترقی یافتہ ممالک میں فائر سروس کا عملہ اتنا با اختیار ہوتا ہے کہ اگر کسی مقام پر فائر سروس سے اجازت حاصل کیے بغیر تعمیراتی کام ہو رہا ہو، تو وہ اطلاع ملتے ہی وہاں پہنچ جاتا ہے اور سرخ ٹیپ لگا کر کام رُکوا دیتا ہے اور جرمانہ وصول کر سکتا ہے۔

فائر بریگیڈ یا محکمہ شہری دفاع؟

کراچی فائر بریگیڈ کی کہانی افسر شاہی کے نامناسب رویوں، سرکاری محکموں کی بُھول بُھلیّوں، تضادات اور بہت سی حیران کن باتوں سے بھری پڑی ہے۔ اس کے ساتھ ابتداء ہی سے سوتیلی ماں کا سا سلوک ہوتا آرہا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد یہ میونسپل ایکٹ کے تحت کام کر رہا تھا۔ 1951ء میں سرکاری حکام کو اچانک خیال آیا کہ زمانۂ جنگ میں شہروں کی حفاظت کے لیے کوئی محکمہ قائم ہو نا چاہیے۔ چناںچہ محکمۂ شہری دفاع قائم کیا گیا اور زمانۂ جنگ میں آتش زدگی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے اس محکمے نے اپنی فائر سروس کا آغاز کیا۔ پھر حکام کو یہ خیال آیا کہ یہ کام تو فائربریگیڈ کا ہے۔ لہٰذا محکمۂ شہری دفاع کی فائر سروس 1960ء میں میونسپل فائر سروس میں ضم کردی گئی۔ 2001ء میں شہری حکومت کے قیام سے قبل یہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تحت تھا ،پھر شہری حکومت کے تحت آیا اور اب کے ایم سی کے تحت ہے۔ محکمہ شہری دفاع نےتقریبا پانچ دہائیوں قبل شہر بچانے کی کُل ذمے داری میونسپل فائر سروس پر ڈال دی تھی۔ 

چناںچہ ہونا یہ چاہیے کہ آتش زدگی کے امکانات، ان سے تحفظ اور آگ لگنے کی صورت میں امدادی کارروائیاں کرنے کی تمام ذمے داریاں میونسپل سروس کے تحت ہونی چاہئیں۔ تاہم اس ضمن میں کراچی فائر بریگیڈ کے ساتھ افسر شاہی نے ’’آدھا تیتر، آدھا بٹیر‘‘والا پرانا کھیل کھیلا اور بجائے اسے مستحکم کرنے کے محکمہ جاتی بھول بھلیوں میں الجھا دیا گیا۔ نئے نظریات سامنے آنے کے بعد دنیابھر میں شہری دفاع کے محکمے ختم کردیئے گئے ہیں، لیکن پاکستان میں یہ محکمہ نہ صرف موجود ہے، بلکہ آتش زدگی کے امکانات اور ان سے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے اور ہر طرح کی عمارتوں اور حدود میں آتش زدگی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے تیاری کو اطمینان بخش قرار دینے کے بارے میں این او سی (اعتراضات سے مبرّا ہونے کا اجازت نامہ) دینے کا ذمّے دار ہے۔ 

چناںچہ اس محکمے کے اہل کارآج بھی مختلف مقامات پرآگ سے تحفّظ کے لیے بالٹیاں اور آگ بُجھانے والا آلہ (فائر ایکس ٹنگشر) لگاتے نظر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کام کے لیے محکمے کے لوگ معاوضہ لیتے ہیں۔ بعض افراد الزام لگاتے ہیں کہ یہ لوگ بالٹیاں اورآلہ لگاکر وہاں اپنی تختیاں لگادیتے ہیں اور بس۔ بعض حلقوںکا کہنا ہے کہ اس محکمے کی ذمّے داری زمانۂ جنگ میں آگ سے تحفّظ اور آتش زدگی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے کی تھی‘ لیکن طویل عرصے سے یہ محکمہ زمانۂ امن میں بھی اس کے لیے ذمّے دار تصوّر کیا جارہا ہے جو غلط بات ہے۔ 

دوسری جانب یہ کہا جاتا ہے کہ اگر حکومت محکمۂ شہری دفاع کو قائم رکھنا چاہتی ہے تو اس محکمے کے اہل کاروں کو ان کا اصل کام یاد دلایاجائے اور آگ سے تحفّظ کے اقدامات کرنے اورکسی عمارت یا حدودکو آگ سے محفوظ قرار دینے کے لیے این او سی جاری کرنے کا اختیار واپس لے کر فوری طورپرمیونسپل فائر سروس کے حوالے کردینا چاہیے۔اس محکمے کا اصل کام یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ جنگ کی صورت میں آتش زدگی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے عوام کو مؤثر تربیت دے اور دس ہزار افرادکی آبادی پر ایک وارڈن پوسٹ قائم کرے ، جن میں بیلچے‘ رسیّاں اور آگ بُجھانے کے لیے درکار بعض ضروری اوربنیادی نوعیت کی اشیا موجود ہونی چاہییں۔ تاہم یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ لوگوں کو تربیت دینے اور وارڈن پوسٹوںکے قیام کے معاملات صرف کاغذوں میں موجود ہیں۔

محکمۂ شہری دفاع اور فائربریگیڈکے انتظام اور کارکردگی پرگہری نظر رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ محکمۂ شہری دفاع فوری طورپر ختم کردینا چاہیے اور اس پر صرف ہونے والا بجٹ میونسپل فائر سروس کے حوالے کردینا چاہیے ۔ اس طرح میونسپل فائرسروس کو زیادہ بجٹ ملنے سے اس کی کارکردگی بہتر ہوسکے گی اور وہ آتش زدگی کے امکانات‘آتش زدگی سے تحفّظ اور آگ لگنے کی صورت میں امدادی کارروائی کرنے والا واحد ادارہ بن جائے گا ۔ ان حلقوںکا کہنا ہے کہ آج محکمۂ شہری دفاع اوّل الذّکر دو معاملات کا ذمّے دار ہے اور وہ ہی این او سی جاری کرتا ہے۔ 

لیکن میونسپل فائر سروس کو اس سے نہ توکوئی معلومات ملتی ہیں اور نہ ہی کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ یہ محکمہ جس ادارے‘ عمارت کو این او سی جاری کرتا ہے،اس میں جب آگ لگتی ہے تو اسے بجھانے کی ذمّے داری میونسپل فائر سروس پر ڈال دی جاتی ہے۔ دوم یہ کہ جب ایسی کسی عمارت یا مقام پر آگ لگتی ہے تو حفاظتی اقدامات اور محفوظ راستوںکے بارے میں میونسپل فائر سروس کوکچھ علم نہیں ہوتا‘ لہٰذا اسے آگ بجھانے کے دوران بہت سے خطرات اور مشکلات کا سامناکرنا پڑتا ہے۔

نوّے فی صد سے زاید رہایشی اور تجارتی عمارتوں میں ہنگامی راستے نہیں ہیں

پروفیسر نعمان احمد،چیئرمین آر کی ٹیکچر اینڈ پلاننگ ڈپارٹمنٹ، این ای ڈی یونیورسٹی

کراچی میں عمارتوں کی تعمیر اور تحفظ کے ضمن میں موجود مسائل کے تین پہلو ہیں۔ بیش تر عمارتوں میں ہنگامی صورت حال میں انخلا کے راستے نہیں ہیں اور نہ ان کے بارے میں منصوبہ بندی کی گئی۔ عمارتوں کے اندر اور میونسپل فائر سروس کے پاس آ گ بجھانے کی مناسب سہولتیں نہیں ہیں۔ بدعنوانیوں کی وجہ سے متعلقہ سرکاری ادارے مناسب طور پر کام نہیں کرپاتے۔ عمارتوں کی تعمیر سے متعلق تمام متعلقہ اداروں کے قوانین اور قواعد و ضوابط بہت اچھے ہیں اور ان میںیہ تفصیلات تک موجود ہیں کہ کتنے فاصلے پر کون سی سہولت ہوگی، کس قسم کا مٹیریل استعمال ہونا چاہیے۔ 

ان قوانین اور قواعد و ضوابط میں ترامیم کی گنجائش ہے، لیکن اگر موجود قوانین اور قواعد و ضوابط پر ہی ان کی روح کے مطابق عمل درآمد ہوجائے تو صورت حال میں بہت بہتری آسکتی ہے لیکن یہ تمام نکات کراچی میں صرف کاغذوں کی سطح پر موجود ہیں ان پر عمل درآمد کی صورت حال بہت خراب ہے۔ قواعد و ضوابط یہ بتاتے ہیں کہ عمارتوں میں آگ سے حفاظت کے لیے اسپرنکلر نصب ہونے چاہئیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ وہ قسم کے ہونے چاہئیں۔ اسپرنکلر کئی اقسام کے ہوتے ہیں۔ بعض عمارتوں میں آگ سے تحفّظ کے انتظامات ہیں، لیکن ان کی کبھی آزمائش نہیں کی گئی۔ پی این ایس سی بلڈنگ میں بھی ایسا ہی ہواتھا۔

عمارتیں تعمیر ہونے کے بعد تیسرے فریق سے مانیٹرنگ کرانے کا کوئی نظام نہیں ہے، لہٰذا یہ پتا نہیں چل پاتا کہ قواعد و ضوابط کے مطابق کام ہوا ہےیا نہیں۔ البتہ کاغذ کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے۔ بلڈر کے لیے ایمرجنسی یا فائر اسکیپ ختم کرنا بہت آسان ہوتاہے اور کثیر المنزلہ عمارتوں میں وہ اسے بلاوجہ کا خرچ تصوّر کرتے ہیں۔ اس ضمن میں بہت بدعنوانی ہوتی ہے، حالاں کہ کتنی ہی بلند عمارت ہو، معیار کے مطابق یہ ضروری ہوتا ہے کہ ہنگامی راستہ آخری منزل سے بہ راہِ راست زمینی منزل تک آتا ہو،کیوں کہ ہنگامی صورت حال کسی بھی منزل پر پیدا ہوسکتی ہے۔

جو عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں، معکوس منصوبہ بندی (بیک ورڈ پلاننگ) کے تحت ان کا تجزیہ ضرور ہونا چاہیے ۔ اگر ان میں ایمرجنسی یا فائر اسکیپ موجود نہ ہوں تو ان کا سرجیکل آپریشن کرکے یہ سہولت فراہم کی جائے۔ اس کے لیے عوامی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے لوگوں کو سمجھایا جائے کہ یہ سہولت کیوں ضروری ہے۔ 1990ء سے 2000ء تک شہر میں آتش زدگی کے بڑے واقعات کم ہوئے تھے لیکن اس کے بعد سے بڑے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اب آتش زدگی کا سبب بننے والے عوامل کا ہماری زندگی میں عمل دخل بڑھ گیا ہے، مثلاً اب گھروں اور دفاتر میں الیکٹرانک کے آلات پہلے کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں موجود ہیں، پہلے صرف بجلی کے تار ہوتے تھے، لیکن اب ٹیلی فون، کیبل ٹی وی،انٹرنیٹ اور دیگر اقسام کے تار بھی ہوتے ہیں، قالین، پردے اور فالس سیلنگ بھی ہیں۔

ہمیں ہر عمارت کا اس نقطہ نظر سے تفصیلی جائزہ لینا چاہیے کہ ہنگامی صورت حال میں لوگوں کے بہ حفاظت اور مکمل انخلا کی سہولت موجود ہے یا نہیں۔ اگر موجود ہے تو وہ کس حد تک موثر ہے۔ عمارت جتنی بلند ہوتی ہے، آتش زدگی اور دیگر ہنگامی حالات کے ضمن میں حفاظتی نظام کی اہمیت اسی قدر بڑھ جاتی ہے۔ ہر کثیر المنزلہ عمارت میں اپنا موثر حفاظتی نظام ہونا چاہیے۔ اسنارکل کی تعداد یا اس کی اونچائی کم ہونے کے ضمن میں کی جانے والی تنقید غلط ہے۔ 

دنیا بھر میں دست یاب بلند ترین اسنارکل بھی سو پچاس منازل تک نہیں جاسکتیں اور ترقی یافتہ ممالک میں بعض اوقات ہیلی کاپٹر کےفِلیٹ بھی کسی عمارت میں لگی ہوئی آگ بجھانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں کئی بڑی بڑی عمارتیں جل کر خاکستر ہوگئیں، ان کے سارے حفاظتی نظام بہت معیاری تھے، مگر آگ کی شدّت بہت زیادہ تھی، لیکن وہاں ایسے واقعات میں انسانی جانوں کا نقصان بہت کم ہوتا ہے،لیکن یہاںچند برس قبل سائٹ کی چھوٹی سی فیکٹری میں آتش زدگی کے واقعے میں کئی جانیں چلی گئی تھیں۔

سرکاری دفاترمیں آتش زدگی کے ضمن میں بدعنوانیوں، کسی معاملے کی تحقیقات شروع ہونے، آڈٹ کا آغاز ہونے اور تخریب کاری کے عوامل بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ حفاظتی انتظامات کے لیے پہلے سرکاری عمارتوں کا تجزیہ اور ضروری آپریشن کرانا چاہیے تاکہ مثال قائم ہوجائے۔ تغلق ہائوس، صوبہ سندھ کا انتظامی مرکزِ اعصاب ہے، جہاں ہزاروں افراد کام کرنے اور کرانے آتے ہیں اور مقتدر اور اعلیٰ شخصیات کے دفاتر ہیں، وہاں حفاظتی نقطۂ نظر سے بعض ایسے اقدامات اور تعمیرات کی گئی ہیں جو ہنگامی حالات میں خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ گھروں، فلیٹس اور دفاتر میں حفاظت کے لیے خطرناک انداز میں جنگلے نصب کردیے جاتے ہیں، جنہیں حرکت نہیں دی جاسکتی۔ یہ بھی خطرناک عمل ہے۔ شہر میں بہت سے مقامات پر آگ لگنے یا دیگر خطرناک اقسام کے چھوٹے موٹے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں، جن پر فوری طور پر قابو پالیا جاتا ہے اور وہ رپورٹ نہیں ہوتے۔ 

ان واقعات کو بھی مدّ نظر رکھنا چاہیے۔ کچی آبادیوں اور شہر کے پرانے علاقوں میں کسی ناگہانی آفت یا ہنگامی حالات کے حوالے سے صورت حال بہت خطرناک ہے۔ شہر میں بہت سے مقامات پر سڑکوں کی چوڑائی کم یا زیادہ نہیں کی جاسکتی لیکن امدادی کارروائیوںمیں حصہ لینے والی گاڑیوں کے گزرنے اور مڑنے کے لیے سہولت پیدا کر نے کی غرض سے سروے ہونا چاہیے۔ بعض علاقوں میں سڑکوں کے بعض کٹس بند کردیے گئے ہیں، ان کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔دینی اور مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی عمارتوں مثلاً مدارس اور مساجد کا بھی حفاظتی نقطۂ نظر سے جائزہ لینا چاہیے، کیوں کہ ان میں سے اکثر کثیر المنزلہ ہیں اور ان میں جنگلوں کی کافی تعداد ہے۔

شہر کے زیادہ تر رہائشی اور تجارتی منصوبوں میں ہنگامی راستے نہیں ہیں یا بہت ناقص حالت میں ہیں۔ نوّے فی صد سے زاید رہایشی اور تجارتی عمارتوں میں کوئی حفاظتی انتظام نہیں، جہاں گرائونڈ پلس فور کی عمارت تعمیر کرنے کی اجازت ہے، وہاں آٹھ نو منزلہ عمارتیں بنی ہوئی ہیں۔ شہر کے بہت سے علاقوں میں بلڈنگ کوڈ اور بائی لاز کے بنیادی نکات تک کی پاس داری نہیں کی گئی ہے۔

حفاظتی نقطۂ نظر سے کثیر المنزلہ عمارتوں میں اسموک الارم، اسپرنکلر، فائر ایکس ٹنگشر، ہنگامی انخلا کے راستے ہائیڈرنٹ وغیرہ ضرور ہونے چاہئیں۔ ہنگامی راستے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس میں لینڈنگ پلیٹ فارم ہر منزل پر کوریڈور سے ملا ہوا ہو۔ اس کا دروازہ خاص میٹریل کا بنا ہوتا ہے، اس کا تعمیراتی میٹریل اور پینٹ خاص قسم کا ہوتا ہے جو آگ سے محفوظ رہتا ہے۔ پلیٹ فارم سے سیڑھی زمینی منزل تک آتی ہے۔ سیڑھی کا ڈیزائن خاص نوعیت کا ہوتا ہے، جسے ڈائریکٹ اسٹیپ کہا جاتا ہے اور مڈ لینڈنگ کم سے کم ہوتی ہے تاکہ تیز رفتار سے لوگوں کا انخلا ممکن ہوسکے۔ پانی کے اخراج کے لیے آٹو مشین ڈیوائس ہوتی ہیں۔ آگ لگنے پر اس کے ہوز پائپ خود بہ خود باہر نکل کر پانی پھینکنا شروع کردیتے ہیں۔ فوم فائر ایکس ٹنگشر بھی لگائے جاتے ہیں۔

ان سہولتوں کی موجودگی کے علاوہ انہیں استعمال کرنے کی وقتاً فوقتاً مشق ہونا بھی ضروری ہے، ورنہ ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہوتا ہے۔ لوگوں کو ہنگامی حالات میں انخلا کی تربیت بھی دینی چاہیے۔ حصولِ علم کے لیے بیرون ملک قیام کے دوران ہم نے دیکھا کہ وہاں سال میں دو تین مرتبہ ہنگامی حالت کے فرضی اعلانات کرکے ادارے اپنی تیاریوں کا جائزہ لیتے اور سال میں کم از کم ایک مرتبہ متعلقہ آلات استعمال کرکے ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا۔

ہنگامی حالات میں سیڑھیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ عوامی استعمال میں آنے والی عمارتوں کی سیڑھیاں پاکستانی اور عالمی معیار کے مطابق کم از کم سات فیٹ چوڑی ہونی چاہئیں۔ کراچی میں بہت کم ایسی عوامی استعمال کی عمارتیں ہیں جن میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے۔سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی عمارتوںکے نقشے منظور کرنے کے لیے باقاعدہ فیس لیتی ہے، لیکن اس کا عملہ عمارت کے ڈھانچے کا تجزیہ کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے، لہٰذا عمارتوں کے ڈھانچے عموماً اچھے یا ٹھیک ہوتے ہیں اور عام حالات میں ان عمارتوںکے منہدم ہونے یا بیٹھنے کے خطرات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن ہنگامی راستے تعمیرات کے آخری مرحلے میں تعمیر ہوتے ہیں یا سرے سے تعمیر ہی نہیں کیے جاتے لہٰذا اس مرحلے پر بہت زیادہ گڑ بڑ ہوتی ہے۔

اس ساری صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد بہ خوبی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ہم کس حد تک تیّار ہیں۔

 ہم کتنے محفوظ ہیں؟

کراچی میں پیش آنے والے آتش زدگی کے بڑے بڑے واقعات، خصوصا بلدیہ ٹاون کی گارمنٹ فیکٹری میں آتش زدگی کا سانحہ،ان سے نمٹنے کے لیے متعلقہ سرکاری اداروں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں اور ان واقعات میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کے بعد لوگ طرح طرح کے سوالات کرتے نظر آتے ہیں۔اس ضمن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم کتنے محفوظ ہیں اوراگر شہر پر کوئی بڑی قدرتی آفت ٹوٹ پڑی یا کوئی بہت بڑا ناگہانی حادثہ ہوگیا تو شہریوں کی جان اور مال کس حد تک محفوظ ہوں گے؟

صدربازار،کراچی میں 14؍ جولائی 1987ء کو بوہرہ بازار اور مینس فیلڈ اسٹریٹ پر ہونے والے بموں کے دھماکے کراچی کی تاریخ کے سب سے تباہ کن دھماکے تھے۔ان میں سے بوہرہ بازار میں ہونے والے دھماکے سے سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔ ان واقعات کے بعد شہری حلقوں نے کسی بھی ناگہانی صورتِ حال میں امدادی کارروائیاں کرنے والے اداروں کی صورتِ حال بہتر بنانے اور انہیں جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے پر بہت زور دیا تھا، لیکن اربابِ حل و عقد نے وعدوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اس کا ثبوت دو جولائی 1997ء کو شمالی ناظم آباد کے سیکٹر فائیو آئی میں فائزہ ہائٹس نامی زیرِ تعمیر عمارت اچانک منہدم ہونے کا واقعہ ہے۔ 

یہ عمارت منہدم ہونے کے بعد اس وقت کی ضلع وسطی کی انتظامیہ امدادی کارروائی میں کوئی مدد نہیں کر سکی تھی اور ضلعےکے ڈپٹی کمشنر، محمد ارشد جائے وقوعہ پر پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر ٹہل رہے تھے، کیوں کہ مَلبے کے نیچے پینتیس افراد دبے ہوئے تھے اور متعلقہ سرکاری اداروں کے پاس کسی قِسم کا مطلوبہ امدادی ساز و سامان موجود نہیں تھا۔ 

اس موقعے پر پولیس کے اہل کاروں نے اتفاقاً قریب سے گزرنے والی ایک کرین کو روک کر ملبہ اٹھانے کے لیے استعمال کیا تھا۔ حادثہ ہونےکے دو گھنٹے بعد تک صرف ایک کرین اور دوکٹر کی مدد سے امدادی کارروائیاں کی جا رہی تھیں، لہٰذا ڈھائی گھنٹے کی جدوجہد کے بعد صرف ایک زخمی کو ملبے سے نکالا جا سکا تھا۔ 

سابق بلدیہ عظمٰی کراچی کے بلڈوزر ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے جائے وقوعہ پر پہنچے تھے۔اس کے بعد بلدیہ ٹاون کی گارمنٹ فیکٹری میں آتش زدگی کا سانحہ ہوا۔اس موقعے پر بھی شدّت سے یہ بات محسوس کی گئی تھی کہ اگر ہمارے امدادی کارروائیاں کرنے والے اداروں کے پاس جدید سازو سامان ہوتا اور عمارت کے بارے میں درست معلومات ہوتیں تو شایداس قدر جانی نقصان نہ ہوتا۔

یاد رہے کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون میں حب ریور روڈ کے قریب واقع ڈینم فیکٹری میں گیارہ ستمبر2012کو آگ بھڑک اٹھی تھی، جس میں جھلس کر259محنت کش ہلاک اورپچاس کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔

تازہ ترین