• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ: قومی اتحاد اور اتفاق رائے پیدا کرسکتا ہے

قومی سیا ست اب الزامات کے گرد گھوم رہی ہے۔حکومت اور اپوزیشن ہر موقع ایک دوسرے پر الزام تراشی کیلئے استعمال کرتے ہیں اور یہ کام با قاعدہ اب منظم انداز میں مہم جوئی کے طور پر کیا جا رہا ہے۔اسلوب سیا ست اب یہ ہوگیا ہے کہ کردار کشی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جا نے دیا جا ئے اور اب الزام لگانے کی کوئی حدود و قیود بھی نہیں رہ گئیں اسلئے غداری کے سر ٹیفیکیٹ بھی ایسے بانٹے جارہے ہیں گویا یہ کوئی عام سی بات ہو۔اس مہم جوئی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ فوج جیسے قومی ادارے کو بھی فریقین اپنے اپنے سیا سی مقاصد کیلئے تختہ مشق بنا رہے ہیں جس سے گریز کرنا چاہئے۔ سیا سی جماعتوں میں اختلاف رائے تو فطری بات ہے ۔ 

ماضی میں بھی ہمیشہ سے اپوزیشن حکومت پر تنقید کرتی رہی ہے۔یہ اپوزیشن کا سیا سی ، جمہوری اور آئینی حق ہے لیکن پہلے جوسیا سی اقدار تھیں وہ اب ناپید ہوتی جارہی ہیں ۔1977میں قومی اتحاد کی ملک گیر تحریک میں اموات کے با وجود اپو زیشن اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا در وازہ بند نہی ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہوسکے یا نہیں کرنے دیے گئے اور مارشل لاء لگا دیا گیا۔ 

اس وقت بد قسمتی سے جو سیا سی منظر نامہ ہے اس کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ حکو مت اور اپوزیشن نے اختلاف رائے کو دشمنی میں تبدیل کر دیا ہے اور فریقین پوائنٹ آف نو ر یٹرن پہنچ چکے ہیں ۔ مذاکرات کی ونڈو بند کردی گئی ہے جو جمہوریت کا لازمی جزو ہے۔قومی اسمبلی کا اجلاس 20نومبر سےبلانے کی تجویز ہے لیکن یہ اجلاس بھی گزشتہ سیشن کی طرح ہنگامہ آرائی کی میدان بنا رہا تو اس کو بلانے کا کیا فائدہ ۔صورتحال کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ اسپیکر نے قومی سلا متی پر دو بار بریفنگ کا اہتمام کیا لیکن اپوزیشن کے با ئیکاٹ کی وجہ سے پا ر لیمانی لیڈرز کا یہ اجلاس دو نوں بار ملتوی کر نا پڑا۔ جو اس وقت سر حدوں کی صورتحال ہے۔ انڈیا کی جانب سے نہ صرف مسلسل ایل او سی اور سیز فائر لائن کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے بلکہ اس میں اب شدت آ رہی ہے۔

آ زاد جموں و کشمیر کے سر حدی دیہاتوں کے مکین غیر محفوظ ہوگئے ہیں ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل با بر افتخار نے مشترکہ پریس کا نفرنس میں پاکستان میں دہشت گردی کرانے کا بھارتی منصوبہ بے نقاب کر دیا ہے۔ پاکستان نے الطاف حسین گروپ ، طالبان اور کالعدم بلو تنظیموں کو اسلحہ اور رقوم کی فراہمی کے ناقابل تردید ثبوت فراہم کردیے ہیں ۔ بھارت پا کستان میں قوم پرستی اور فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے۔ نو مبر اور دسمبر میں پا کستان میں دہشت گردی کا خطرہ ہے ۔ایسے حالات تو اس امر کے متقاضی ہیں کہ ملک کے اندر قومی اتحاد اور یگانگت کی فضا ہو۔ دشمن سے نمٹنے کیلئے قومی ا تفاق رائے کی ضرورت ہے جس کیلئے گرینڈ نیشنل ڈ ائیلاگ کی ضرورت ہے ۔ڈائیلاگ کے آ غاز کی ذمہ داری بہر حال حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ 

وزیر اعظم عمران خان کی اب تک کی پالیسی یہ ہے کہ وہ حکومت میں ہونے کے باوجو د اپوزیشن موڈ میں ہیں ۔ ان کا رویہ جا رحانہ اور بے لچک ہے ۔ان کا مسلہ یہ ہے کہ ان کا مزاج سیا سی نہیں ہے اور اپوزیشن سے ہاتھ ملانا انہیں گوارا نہیں ہے۔ وہ پارٹی اور حکومتی تر جمانوں کے اجلاس میں ہدایت دیتے ہیں کہ اپوزیشن کو ڈٹ کر مقابلہ کریں ۔ ایسے حالات میں قومی ڈائیلاگ یا قومی اتحاد اور اتفاق رائے کی فضا پیداہونا ممکن نہیں ہے۔اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے حال ہی میں وزیر اعظم سے ملاقات میں تجویز دی ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں ۔دراصل وزیر اعظم کے گرد جن مشیروں کا گھیرا ہے وہ سب مہم جو ہیں اسلئے صلح جو سیا ستدانوں کی نہیں سنی جارہی ۔ 

وزیر اعظم نے معیار یہ بنا لیا ہے کہ جو اپوزیشن کو جتنا لتاڑے گا اس کی قدر ومنزلت میں اتنا ہی اضافہ ہوگا ۔ ایسے میں سنجیدہ سیا سی ماحول کی توقع عبث ہے۔ مسلم لیگ ن کے اندر سے بھی آ وازیں آئیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے محاذ آ رائی نہ کی جا ئے بلکہ ڈائیلاگ کیا جا ئے ۔مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے بی بی سی کو دیے گئے انٹر ویو میں جب یہ اعتراف کیا کہ ان کی پارٹی کے کچھ لوگوں سے اسٹیبلشمنٹ کا رابطہ ہوا ہے اور وہ اس شرط پر بات چیت کیلئے تیار ہیں کہ مو جودہ حکومت کو گھر بھیجا جا ئے تو اس کے ساتھ ہی حکومتی وزرا ء کے تیور بدل گئے۔عمران حکومت کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور فوج کو آپس میں لڑا د یا جا ئے اور ان کے اختلا فات کو اتنی ہوا دی جا ئے کہ وہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر چلے جائیں لیکن بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف نے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی ونڈو اوپن کردی ۔ 

اس کارڈ نے حکو متی بنچوں میں ہلچل مچادی ۔ شیخ رشید احمد اور شبلی فراز کے ردعمل سے ان کی پریشانی اور بے چینی عیاں ہے۔ مریم نواز کو طعنے دیے جا رہے ہیں کہ پہلے ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کی سیا ست میں مداخلت کے خلاف تھی اور اب بات چیت کرنے پر آ مادہ ہے۔ اسے یوٹرن سے تعبیر کیاجا رہا ہے ۔وزراء دراصل بغلیں بجا رہے تھے کہ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ پر جو سیا سی حملہ کیا ہے اس کے بعد حکومت کے مستقبل کو لاحق خطرات دور ہوگئے ہیں ۔انہیں یہ معلوم ہے کہ حکومت کی بقاء اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان لڑائی میں ہے ۔

اپنے سیا سی مفادات کیلئے حکومت ملک وقوم کے عظیم تر مفاد کو بھی پش پست ڈال رہی ہے۔وزیر اعظم کامنصب یہ تقاضا کرتا ہے کہ معاملہ فہمی ، وسیع القلبی ، دور اندیشی اور لچک کا مظا ہرہ کیا جا ئے ۔اپوزیشن کیلئے بات چیت کیلئے پہل کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے لیکن کم از کم عمران خان خان کے ہوتے ہوئے تو یہ ممکن نظر نہیں آ تا۔ 

وہ یہ سوچ لیں کہ اگر وہ لچک کا مظا ہرہ نہیں کریں گے تو اس ضد کی قیمت بھی انہیں ہی ادا کرنا پڑے گی۔وزیر اعظم عمران خان کیلئے یہ شاید آخری چانس ہو کہ وہ ملک کو در پیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اپوزیشن سے ورکنگ ریلیشن شپ کا راستہ اپنائیں ۔اپوزیشن بھی ہارڈ لائن ترک کرے ۔سیا سی مفادات کیلئے قومی اداروں کو ایسے وقت میں متنازعہ نہ بنائے جب سر حدوں پر دشمن کی کاروائیوں کا سامنا ہے ۔ 

کرونا وائرس کی دوسری لہر کا سامنا ہے۔ ملک کے اندر دہشت گردی کے خطرات لاحق ہیں ۔ ریجن کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں ۔ان حالات میں قومی ڈ ائیلاگ کی ضرورت ہے۔ بنیادی اہمیت کے قومی ایشوز پر بات چیت کی جا ئے ۔سیا سی تناؤ کو کم کیا جا ئے۔

آئندہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنا نے کیلئے اتفاق رائے سے قانون سازی کی جا ئے ۔ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں نیب ایکٹ میں بھی مناسب تر امیم کی جا ئیں ۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ بحال نہ ہوا تو پھر نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ اپو زیشن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے نقصان بہر حال حکومت کا ہوگا۔ محا ز آ رائی کا نقصان جمہوری نظام کو بھی ہوسکتا ہے ۔

تازہ ترین
تازہ ترین