• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
متواتر خبریں اڑ رہی ہیں پچھلے دو ہفتوں سے کبھی سچی، کبھی افواہی، کبھی کسی کی شادی کی سچی خبر اور کبھی کسی کی موت کی افواہ! خیر یہ تو ہے کہ ماحول کی گھٹن سے ہم لوگ فوراً نکل کر تفریحی ماحول کی طرف بڑھتے ہیں، یہ تفریحی ماحول آپ کو افواہوں کی گردش میں ملتا ہے۔ افواہوں کی ریشہ دوانیاں پاکستان میں تو کشمالہ طارق کی سچی شادی کی خبر کیساتھ ہی شروع ہوگئی تھیں جب ان کے چاہنے والوں نے خبر کو جھوٹ قرار دیکر کہا کہ وہ تو کسی شادی میں شریک ہیں کیونکہ کشمالہ کے چاہنے والے بھانپ گئے تھے کہ کشمالہ کی شادی سے زیادہ دلھا میاں کی منفرد شکل و شخصیت پر لوگوں کا اعتراض بھرپور ہے۔ بہرحال لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ بڑی بڑی حسین خواتین کو ہم نے اپنا معیار گراتے اور مستقبل دولت کی چھائوں میں محفوظ کرتے دیکھا اس میں آپ شوبز کی خواتین سے لیکر عام دولت کی پجاری حسین و جمیل خواتین تک اسکا دائرہ کار محدود مت سمجھئے بلکہ اب اس میں ایسی خواتین جو سیاسی ساکھ رکھتی ہیں وہ بھی شامل ہوگئی ہیں۔ میں ذاتی طور پر خواتین کو معیار گرانے پر اچھا نہیں سمجھتی کہ دولت کی وجہ سے اپنے مرتبے و معیار کو گرا لیا جائے لیکن یہ ضرور ہے کہ وہ حور کے پہلو میں لنگور، کی برمثال آخر کار نیک خواتین کی لسٹ میں شمار کی جائیں گی ورنہ ہمارے بہت سے سیاستدانوں کی زوجات یہ مقام پا چکی ہیں جیسے امیر مقام کی بیگم، سعد رفیق کی بیگم اور کہہ سکتے ہیں کہ عثمان بزدار کی بیگم بھی اور اب کشمالہ بھی اسی لسٹ میں شامل ہوگئی ہیں جو اپنے شوہر نامدار کی اپنے سرتاج کی شکل سے زیادہ گنوں پر یقین رکھتی ہیں یہ گن بھی کئی خواتین میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور بڑی شادی کا چرچا رہا لاہور میں، جسے تاریخ کی بڑی شادی کا نام دیا گیا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ نکاح خواں طارق جمیل صاحب تھے۔ جو حورُ مقصوداتُ فی الخیام کی کشش سے نوجوان نسل کی اصلاح کرتے رہے ہیں مگر انہوں نے اس افواہ کی تردید کردی کہ انہوں نے نکاح پڑھانے کی مد میں ہزاروں ڈالر نہیں لئے بلکہ مولانا کے شاگردوں کے بقول کہ وہ خود جدی پشتی رئیس ہیں اور گاڑی میں ہزاروں روپے لیکر گھومتے ہیں اور ضرورت مندوں میں بانٹتے ہیں۔ خیر یہ تو تھیں دو تین ہفتے پہلے کی سچی خبریں مگر مزہ تو تب آیا جب فرانس کے سرکاری ریڈیو نے ملکہ الزبتھ اور مشہور فٹ بالر پیلے کی موت کی خبریں بے حد وثوق سے نشر کردیں اور وہاں جب یہ خبریں چل رہی تھیں تو پاکستان میں بھی موت کی خبروں کا بازار گرم ہوگیا۔ ویسے تو بے چارے چاچا کرکٹ کو بہت مرتبہ مارا جاچکا ہے مگر اس دفعہ یہ وہی وقت تھا جب ملکہ برطانیہ اورپیلے کی خبر لگائی گئی۔ ادھر کسی منچلے نے بھارت سے بھی اڑا دی کہ شکتی کپور چل بسے۔ پھر کئی خبروں کی تردید آتو گئی مگر ایک خبر ایسی تھی جس کی تصدیق اور پھر تردید اور پھر تصدیق آہی گئی کہ وہ واقعی چلے گئے۔ یہ تھی مولانا خادم رضوی کی موت کی خبر، وہ خبر آئی تو لوگ حیران کہ وہ موت کے منہ میں جانے کے بعد واپس اپنی سانس بحال کرنے میں کامیاب ہوگئے مگر وہ تو واقعی چلے گئے، ان کے چاہنے والوں کیلئے یہ دکھ کی خبر ہے۔ یہ خبر بھی معلوم ہوئی ہے کہ RFI یعنی ریڈیو فرانس انٹرنیشنل نے اہم شخصیات کی موت کی خبریں پہلے سے تیار کررکھی ہیں تاکہ کوئی ایسی خبر آئے تو وقت ضائع کئے بغیر وہ یہ سب موقع کے مطابق نشر کر سکیں۔ یہ صرف فرانس ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے تمام الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا کام ہے۔ ابھی اپریل میں بی بی سی ورلڈ کے جعلی اکائونٹ سے بورس جانسن کی موت کی خبر نشر کی گئی تھی، بلکہ پاکستان کے مشہور چینل نے بھی اس خبر کو وثوق سے نشر کیا۔ سنا ہے کہ میڈیا والے بعض مرتبہ لوگوں کے تاثرات کسی شخصیت کیلئے ریکارڈ کرالیتے ہیں جب ان سے پوچھا جائے کہ شخصیت تو زندہ ہے تو وہ کہتے ہیں کوئی بات نہیں آپ یہ ریکارڈ کرادیں شخصیت کبھی نہ کبھی تو انتقال کرہی جائے گی۔ کسی نے ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ اداکار محبوب عالم کی موت کی خبر ان کی وفات سے ایک سال پہلے بھرپور طریقے سے شائع کی کسی اخبار نے تو محبوب عالم وہ اخبار لیکر پی ٹی وی سینٹر آئے اور پروڈیوسر کے روم میں بیٹھ کر کافی دیر تک روتے رہے پھر کہنے لگے کہ میں واحد آدمی ہوں جو اپنی موت پر رویا ہے اور بعد ازمرگ ساتھیوں کی بے حسی بھی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد مجھے کیسے یاد کیا جائے گا۔ بہت سے لوگوں کی ویسے یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی موت کے بعد کی تصویر ضرور دیکھیں کہ کیسے لوگوں کا رویہ اور سلوک ہوتا ہے، کیسے یاد کرتے ہیں اپنے اور غیر کن القابات سے نوازتے ہیں، ویسے ہے تو یہ نہایت دلچسپ بات کہ بعداز مرگ بھی یہ فکر کہ ہمارے ساتھ لوگ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ نہایت دلچسپ واقعات میں ماضی کا قصہ ہے کہ سعاد حسن منٹو نے ایک رسالے کے ایڈیٹر کو مجبور کیا کہ اسکی زندگی میں ہی ’’منٹو نمبر‘‘ نکالا جائے۔ ایڈیٹر نے کہا بھی کہ اتنی جلدی کیا ہے آرام سے نکال دیں گے تو منٹو بضد رہے کہ ’’میں اس کا انتظار نہیں کرسکتا کہ پہلے مر کر دکھائوں پھر نمبر چھپے‘‘۔ منٹو نے مزید کہا کہ ’’اب جی کر کیا کروں گا اب میں خود مرنے پر راضی ہوگیا ہوں‘‘۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے ہی ’’منٹو نمبر‘‘ کو کچھ یوں ترتیب دیا کہ ’’اب تک جتنی گالیاں ملی ہیں وہ سب سے پہلے چھپیں گی اور جتنے بےوقوف لوگوں نے میری تعریف کی ہے وہ سب سے آخر میں چھپے گی۔ درمیان میں میرے تین چار غیر مطبوعہ افسانے اور اسکیچ ہونگے۔ پھر منٹو نے ایڈیٹر کو مخاطب کرکے کہا کہ ’’بہرحال تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے یہ نمبر میں خود تمہیں مرتب کردوں گا‘‘، جو درگت منٹو کی مرنے کے بعد ہونا تھی اسکے خیال میں یہ پہلے ہی ہو جاتی۔ حالانکہ منٹو کو شائد اندازہ نہ ہوسکا کہ انہیں آج بھی شدت سے یاد کیا جاتا ہے پھر جب یاد کیا جائے تو کسی کی اچھائی ہی بیان ہوتی ہے برائی نہیں۔ ویسے ملکہ برطانیہ اور دیگر اہم شخصیات تو پہلے سے جانتے ہونگے کہ ان کی موت کے بعد لوگ انہیں بہت اچھے سے یاد کرینگے اور کئی دنوں کا سوگ اور سرکاری طور پر انہیں اعزاز بھی پیش کیا جانا ہے تو افواہوں کی ریشہ دوانیاں زندگی لطافت سے بھر دیتی ہیں۔  
تازہ ترین