ایمان صغیر
سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں جدت سےبھر پور چیزوں کو منظر عام پر لانے کے لیے ماہرین جدوجہد میں لگے رہتے ہیں ۔جدت کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے جنون نے انقلابی چیزیں تیار کرنے پر مجبور کردیا ۔کہا جا تا ہے کہ ہم چوتھے صنعتی انقلا ب کے دور سے گز ر رہے ہیں ،جس میں’’ مصنوعی ذہانت‘‘ کا استعمال بہت زیادہ بڑھ جائے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہماری زندگیوں پر غالب آجا ئے گی ۔1960ء سے دنیا بھر کے سائنس دانوں اور تحقیق کاروں کے لیے یہ دل چسپ موضوع رہا ہے ۔
قریباً نصف صدی کے اس سفر کی محنت کی بدولت آج انسان نے مصنوعی انسانی دماغ ’’ایم مورٹیلیٹی ٹیکنالوجی ‘‘ کے منصوبے کا آغاز کردیاہے ۔مصنوعی ذہانت کے ذریعے سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے انسانی کاوش کو ’’آرٹیفیشل انٹیلیجنس ‘‘کہا جاتا ہے ۔یہ اصطلاح سائنس دان جان میک کا ر تھی نے استعمال کی تھی ۔انہوں نے اس کو ایسی مشینیں بنانے کی سائنس قرار دیا جو ذہانت کی حامل ہوں ۔
مستقبل میں ہمارے سامنے ایسی ہی مشینیں سامنے آئے گی ،جن کو چلانے کے لیے انسانوں کی ضرورت نہیںرہے گی ۔وہ خود سے سارے کام انجام دیں گی ۔اسی طر ح منصوعی ذہانت کی حامل گاڑیاں بھی جلد ہی سڑکوں پر دکھائی دیں گی جو خود چلا کریں گی ۔چند سال قبل این ویڈیا (Nvidia) نامی ایک ٹیکنالوجی فرم نے ایک پروگرامنگ الگورتھم تیار کیا تھاجو قریباً70 ہزار انسانی چہروںکی بنا وٹ اور تاثرات کو پروسیس کرکے مصنوعی پورٹریٹس بنا کر پیش کرتا ہے ۔جو دیکھنے میں بالکل انسان کی طر ح لگتی ہیں ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ایسےمصنوعی انسان بھی تیار کیے جائیں گے جو زندہ انسانوں کی طر ح ہر جگہ چلتے پھرتے نظر آئیں گے ۔لیکن فرق صرف اتنا ہوگا کہ ان مصنوعی انسانوں کو نیند ،تھکن ،بیماری اور موت سےکوئی سر وکار نہیں ہوگا ۔یہ ہر وہ کام کرسکیں گے جو آج انسان کررہے ہیں ۔بلکہ یہ وہ کام بھی کر سکیں گے جو آج انسان اپنی محدود ذہنی استعداد کی وجہ نہیں کر پارہے ہیں ۔اسی لیے مصنوعی ذہانت کو انسانی تاریخ کا دوسرا بڑا انقلاب اور سنگ میل قرار دیا جا تا ہے ۔ خصوصاََ صنعتوں، کمپیوٹرز اور روبوٹکس میں اے آئی کی جدید اور منفرد تکنیکوں کی بدولت جو انقلاب رونما ہوا ہے وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔اےآئی کا اصل مقصد ایسی مشینز تیار کرنا ہے جو بالکل انسانوں کی طر ح سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ مشینوں کو اتنا جدید بنا یا جائے کہ وہ ناصرف اردگرد ماحول کوسمجھتے ہوئے رد ِعمل کریں بلکہ چند سیکنڈوں میں انسان کی خواہش کے مطابق افعال بھی سر انجام دے سکے ،جس کی سب سے بڑی مثال تیار کردہ متعدد روبوٹس ہیں ۔علاوہ ازیں مشینوں کو اس قابل بنا یا جائے کہ یہ انسان سے کئی گنا بہتر نتائج دے سکے ۔ گزشتہ برسوں میں جتنی بھی ایجادات سامنے آئی ہیں وہ اے آئی کی کم ترین سطح ہے ،کیوں کہ اے آئی کا اصل پروگرام ٹیکنالوجی کو اس حد تک لے کر جانا ہے کہ مشین انسانی مداخلت کے بغیر ازخود کام سر انجام دینے کی اہلیت کی حامل ہو ۔اس ضمن میں بے شمار روبوٹس تیار کیے جا چکے ہیں ۔
مثال کے طور پر نرس روبوٹ ،سرجن روبوٹ ،گھر یلو کام سر اانجام دینے والا ،بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کرنے والا۔سوال یہ ہے کہ بالفرض اگلے بیس برس یا اس سے کچھ کم عرصے میں جدید ترین تکنیکس کی بدولت سائنس دان دماغ کے کام کرنے کے طریقہءِ کار کو سمجھ کر ایک مصنوعی دماغ بنانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں اور مشین انسان کے رویوں کو پڑھنے کے قابل ہوجاتی ہے، تو آیا یہ انسانیت کے لیے ترقی کی راہ پر ایک نیا سنگِ میل ثابت ہوگا یا پھر ہمیں تباہی کے دہانے پر لے جائے گا؟سا ئنس دانوں کو چاہیے کہ اپنی تمام تر توجہ ایسے ذہین سسٹمز بنانے پر مرکوز رکھیں جو انسانیت کی فلاح کے ضامن ہوں، مگر اس کے برخلاف ہماری زندگیاں ٹیکنالوجی کے جال میں روز بروز یوں جکڑتی جا رہی ہیں کہ انسانیت اور ٹیکنالوجی کا تصادم جلد یا بدیر وقوع پزیر ہونے والا ایک لازمی امر دکھائی دیتا ہے ۔
آکسفورڈ میں قائم کمپنی ایکسینٹیہ نے پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے دریافت ہونے والی دوائی کا تجربہ انسانوں پر کیا تھا ،کیلی فورنیا کے اسکر یپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں موجود 15 ہزار ادویات کی تحقیق میں مصروف ہیں۔ویاگرا کے شریک تخلیق کار ڈاکٹر ڈیوڈ براؤن کی قائم کردہ کیمبرج کمپنی ہیلکس نے غیر معمولی بیماریوں کے لیے ادویات تیار کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے نظام کا رخ موڑ دیا ہے۔ اب ان کا مقصد کورونا کا علاج دریافت کرنا ہے۔یکن ڈاکٹر براؤن کا کہنا ہے کہ اس بات کا قطعی امکان نہیں ہے کہ اس وبا کا علاج ایک ہی دوائی سے ممکن ہو سکے۔
امپیریل کالج میں انسٹیٹیوٹ آف گلوبل ہیلتھ اینوویشن کے ڈائریکٹر پروفیسر آرا درزی کے مطابق ایک قابلِ تصور دوا کے حصول کے لیے مصنوعی ذہانت ہمارے پاس موجود مضبوط ترین راستوں میں سے ایک ہے۔ لیکن اس کے لیے بنیادی ضرورت اعلی معیار اور بڑے اعداد و شمار کے سیٹ کی ہے۔آج تک اس میں سے زیادہ تر معلومات انفرادی کمپنیوں کو بھیج دی گئی ہیں جیسے بڑی فارما کمپنیاں یا یونیورسٹیوں کے اندر پرانی لیبارٹریوں میں گم ہو گئی ہیں۔اب پہلے سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان متناسب ادویات کی دریافت میں شامل اعداد و شمار کے ذرائع کو اکھٹا کیا جائے، تاکہ مصنوعی ذہانت کے محققین اپنی نئی مشین لرننگ تکنیک استعمال کرتے ہوئے جلد سے جلد کوروناکا علاج دریافت کر سکیں۔
امریکا میں موجود نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کی باراباسی لیبارٹری، ہارورڈ میڈیکل ا سکول،ا سٹینفورڈ نیٹ ورک سائنس انسٹیٹیوٹ اور بائیوٹیک اسٹارٹ اپ شیفر میڈیسن، یہ سب مل کر ایسی دوائی کی تلاش میں ہیں جو کووڈ 19 کے علاج کے طور پر جلد سے جلد دوبارہ تیار کی جا سکتی ہو۔روفیسر البرٹ لسزلو باراباسی کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت بہت بہتر کام کر سکتی ہے، ناصرف آرڈر کو بہتر بنانے کے لیے بلکہ ان آزاد معلومات کو دیکھتے ہوئے بھی جو شاید نیٹ ورک میڈیسن کی نظر سے نہ گزرے۔
لیکن مصنوعی ذہانت تنہا یہ کام نہیں کر سکتی، اس کے لیے ان تینوں طریقہ کار کی ضرورت ہے۔کچھ مصنوعی ذہانت کی کمپنیاں پہلے ہی دعویٰ کر رہی ہیں کہ انھوں نے کچھ ایسی دوائیوں کی نشاندہی کر لی ہے جو مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔پھیپھڑوں کے خلیوں کو متاثر کرنے والے وائرس سے بچنے کے لیے بینیولینٹ مصنوعی ذہانت نے ممکنہ علاج کے طور پر بیرسٹینب کی نشاندہی کی ہے، جو ہڈیوں کی سوزش (جس میں جوڑوں میں موجود پانی کی تھیلیوں میں سوزش پیدا ہو جاتی ہے) کے علاج کے لیے ہے۔اور اب امریکا کے الرجی اور متعدی بیماریوں سے نمٹنے والے انسٹیٹیوٹ میں اس پر کنٹرولڈ ٹرائلز کیے جا رہے ہیں۔جرمنی اور بر طانیہ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے پالیساں بھی تشکیل دے چکے ہیں۔اور اس پر کام کرکے لیے منصوبہ بند ی کی جارہی ہے ۔