• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشتگردوں سےروابط اور منصوبہ بندی کے شواہد پر بھارت پریشان

اقوام متحدہ ( تجزیہ:عظیم ایم میاں)اقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کوپیش کئے جانے والے پاکستانی ڈوزیئر کے بارےمیں بھارت بہت برہم ہے اوراس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کےخلاف بھارت کی دہشت گردی.

پاکستانی سرزمین پردہشت گردوں اور تخریب کاروں کی سرپرستی فنڈنگ اور تیسرے ملک میں بھارتی سفارتی مشنوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف دہشت گردوں سے رابطے اور منصوبہ بندی کے بارے جو شواہد پیش کئے ہیں وہ بھارت کے لئے حیرانی پریشانی اور ایک نئے چیلنج کا باعث ہیں۔

اسی لئے بھارت پاکستانی ڈوزیئر کاکوئی معقول اور مدلل جواب دینے کی بجائے صرف ایک سطری مؤقف کہ یہ سب غلط اور بے بنیاد ہے’’ دیکر جواب میں پاکستان پر الزامات لگانے تک محدود ہے

پاکستانی ڈوزیئر اصولوں، ثبوت اورحقائق کی بنیاد پر خاصاٹھوس اور بھارت کی اصل حقیقت کو بے نقاب کرنے کیلئے اور پاکستان کے خلاف ازلی دشمنی ثابت کیلئے ایک موثر ڈوزیئر ہے لیکن جنوبی ایشیا اور مشرقی وسطیٰ کے خطےمیں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال اور خلیجی ممالک کےابھرتے ہوئے اتحاد، امریکہ میں انتقال اقتدار، بھارت، امریکہ، فوجی، انٹیلی جنس شیئرنگ اور دیگر معاہدے، چین ،امریکہ کشیدگی اور پولرازیشن اورافغان صورتحال جیسے عالمی اور علاقائی زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر تجزیہ کیاجائے تو بھارتی دہشت گردی کے خلاف پاکستانی ثبوتوں پر مبنی ڈوزیئر کے اثرات یہ تو ضرور ہوں گےکہ بھارتی دہشت گردی اوربھارتی امن دشمن عزائم بے نقاب ہوں گے

لیکن اپنے اپنے مفادات کےتقاضوں اور مجبوری میں الجھی ہوئی عالمی برادری اور عالمی ادارے پاکستان کے ڈوزیئر اور اقوام متحدہ کےمنشور کا ساتھ دینے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتے۔

اس کیلئے پاکستان کو صرف خطے کےممالک، مسلم دنیا اوریورپی ممالک میں فعال سفارتکاری اوراصولی موقف کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش تک محدود رہنے کی بجائے ان ممالک سے موثر رابطے کرنا ہوں گے۔ جو خود بھی اپنے طاقتور /پڑوسی ممالک کےہاتھوں دھونس، مداخلت، عدم استحکام اوردہشت گردی کا سامنا کرتے رہے ہیں۔

لاطینی امریکہ، چھوٹے جزائر پرمشتمل ممالک سے رابطے کر کے اقوام متحدہ کےکسی رکن ملک کے خلاف دہشت گردی، مداخلت اور طاقت کے استعمال کےخلاف حمایت حاصل کر کے اس سفارتی مہم کا آغاز کیاجائے اور ساتھ ہی ویٹی کن سے پوپ، انسانی حقوق کی تنظیموں سے حمایت حاصل کرتے ہوئے مشرق بعید، یورپ اور امریکا کا رخ کیاجائے۔

ایک اصولی سفارتی مہم سے لاطینی امریکہ،افریقہ اورچھوٹے جزائر سے،سفارتی رابطوں کےذریعے ان ممالک کےقومی مفادات کو چیلنج کئے بغیرہمسایہ طاقتور ممالک کی مداخلت اور دہشت گردی کی اصولی مخالفت کےعنوان سے پاکستانی سفارتکاری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بہتر پوزیشن حاصل کرے گی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک ملک ایک ووٹ کے اصول پر فیصلے کرنے والی 193 ممالک کی جنرل اسمبلی میں امریکہ، روس، چین ، برطانیہ، فرانس سمیت سب کو ایک مساوی ووٹ کاحق حاصل ہے۔

یہ درست کہ جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل کی موجودگی میں بڑی حد تک عضو معطل بن چکی لیکن پاکستان کے علاقائی حالات اور اصولی موقف کے تناظر میں یہ کوشش کچھ فوائد لا سکتی ہے۔

پاکستان اب عملی اعتبار سے چین اور اس کے حامی ممالک کےبلاک کاحصہ اور اتحادی ہے لہٰذا چین کےذریعے افریقی اور دیگرممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی سودمند رہےگی۔

ورنہ عالمی برادری، پاکستانی ڈوزیئر پر اصولی زبانی ہمدردی کااظہار تو کرے گی لیکن زمینی عالمی حقائق کےمطابق پاکستان، ترکی، ایران اورچین کے بلاک کی حکمت عملی سمجھتے ہوئے، پاکسانی ڈوزیئر کو خلیجی اور مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک سمیت زبانی ہمدردی سے آگے جانے میں دشواریاں حائل ہوں گی۔

ماضی کے پاکستانی ڈوزیئر سے ہمیں سبق سیکھنا چاہئے۔ پاکستانی ڈوزیئر اقوام متحدہ کے اصولی منشور سے تو مکمل مطابقت رکھتاہے۔ لیکن علاقائی اور عالمی صورتحال کے تلخ زمینی حقائق اس کے موثر ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ 

تازہ ترین