• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس دشت میں اِک شہر تھا کراچی کے سُنہرے دِنوں کی داستان

مصنّف:اقبال اے رحمٰن مانڈویا

صفحات: 800،قیمت: 2000 روپے

ناشر:زیک بُکس۔

کوئی ایسا شخص، جس نے باقاعدہ طور پر کوئی کتاب مُرتّب نہ کی ہو، جس کی تعلیم آرٹس اور سائنس کی بجائے کامرس ہو، جس کا تعلق کاروباری میمن برادری سے ہو، وہ اچانک علمی و ادبی دُنیا میں داخل ہو اور پاکستان کے اوّلین دارالحکومت، کراچی کی تاریخ کے بارے میں ایک ایسی ضخیم دستاویز لوگوں کے سامنے پیش کردے کہ اُسے بلاشبہ حوالے کے طور پر جانا جائے تو یہ انتہائی حیران کُن امر ہے۔ تاہم، یہ اس بات کی عکّاسی بھی ہے کہ منزل پر پہنچنے کے لیے جس چیز کی موجودگی از حد ضروری ہے، وہ ہے ارادہ۔ اب گرچہ کراچی دارالحکومت نہیں، مگر اُس کی اہمیت آج بھی اُسی طرح برقرار ہے کہ مُلکی معیشت و تجارت کا پہیّہ اسی سے چلتا ہے۔گویا کراچی کی اقتصادیات پاکستان کی سماجیات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ 

مصنّف کی کراچی کے بارے میں مُرتّب کی گئی یہ دستاویز پڑھنے کے بعد جو خیال سب سے پہلے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’کراچی‘‘ اقبال اے رحمٰن مانڈویاکے جسم میں لہو بن کر گردش کرتا ہے۔ علاقے، سڑکیں، گلیاں، شخصیات، ناموں کی وجہِ تسمیہ، تاریخ، تہذیب، تمدّن، معاشرت اور ان سب کے بیان کے لیے تحریر میں موجود سادگی اس ضخیم دستاویز کو کسی بھی مقام پر بوجھل نہیں کرتے۔ یہی نہیں، کتاب میں موجود برمحل اشعار نے تحریر کی چاشنی کچھ اور بھی بڑھا دی ہے۔ 

بلاشبہ، مصنّف نے کتاب کے ذریعے کراچی کی جو تاریخ مُرتّب کی ہے ،اُسے کئی حوالوں سے ایک گہرے نقش کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ قطعہ نگاری کے بے تاج بادشاہ، حضرتِ رئیسؔ امروہوی نے بالکل دُرست دعویٰ کیا تھا؎’’جو ناسخِ آثارِ کُہن تھی، وہ کتاب…بے خطرۂ تنسیخ لکھی ہے مَیں نے…آئینۂ امروز ہیں، میرے اشعار…اس عہد کی تاریخ لکھی ہے مَیں نے‘‘۔تو اقبال اے رحمٰن مانڈویا بھی بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں’’اس شہر کی تاریخ لکھی ہے مَیں نے‘‘۔

تازہ ترین