• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں بہت سے ایسے شہر ہیں، جنہیں دیکھ کراور وہاں گھوم پھر کر ایشیائی شہروں، بالخصوص پاکستان و بھارت کے شہروں اور وہاں کی تہذیبی و ثقافتی زندگی کا گمان ہوتا ہے۔ اُن میں برمنگھم، مانچسٹر، بریڈ فورڈ، ہائی ویکمب وغیرہ شامل ہیں۔ ان ہی شہروں میں لندن کا مغربی علاقہ ’’سائوتھ آل‘‘ بھی ہے، جو اپنی کثیر الثقافت آبادی کے لحاظ سے انفرادی حیثیت کا حامل ہے۔

سائوتھ آل میں ایشیائی آبادی کی شروعات کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں، تاہم قرآئن سے قریب تر روایت یہی ہے کہ 1955ء میں یہ لندن کے مضافات میں ایک چھوٹی سی آبادی پر مشتمل ایک گائوں تھا، جس میں انگریزوں کے گنے چنے گھر تھے، جو یا تو کھیتی باڑی کرتے تھے یا لندن اور قُرب و جوار کی فیکٹریز میں کام کیا کرتے تھے۔ اس گائوں کی کُل آبادی 32ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔

اُن دنوں سائوتھ آل، لندن شہر سے خاصا دُور تھا اور یہ لندن کا حصّہ بھی نہیں تھا۔ 1965ء میں یہاں آر ولف نامی ایک مقامی انگریز نے ربڑ کی فیکٹری قائم کی۔ ولف کو اپنی قائم کردہ اس فیکٹری کے لیے ہمہ وقت ورکرز کی ضرورت رہتی تھی، تاہم اس کی یہ ضرورت مقامی طور پر پوری نہیں ہوپاتی تھی، مزید یہ کہ لندن سے سفر کی طوالت اور بہتر سفری سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے عموماً لوگ سائوتھ آل میں کام کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔

یہاں مقیم ایک 72سالہ برطانوی مسٹر ولیم کے مطابق، جس نے اپنی پوری زندگی اسی علاقے میں گزار دی،1945ء تک لندن سے سائوتھ آل تک گھوڑوں کی ایک بگھی یا کوچ مسافروں کو لے کر آتی اور واپس شہر لے جاتی۔ آر ولف کی ربڑ فیکٹری افرادی قوت نہ ہونے کے باعث کبھی چلتی اور کبھی بند ہوتی رہی، کیوں کہ اسے چلانے کے لیے مستقل بنیاد پر افرادی قوت درکار تھی۔ آخرکار، 1958ء میں یہاں تارکینِ وطن کی آمد کے ساتھ ہی بھارتی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر نے اس فیکٹری میں ملازمت اختیار کی، تو اس نے اسے چلانے کے لیے خاص طور پر بھارت سے افرادی قوت یہاں لانا شروع کردی۔ رفتہ رفتہ بھارتی تارکین وطن کی آبادی روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ 

سائوتھ آل میں بھارتی باشندوں کی آبادی زیادہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہیتھرو ائرپورٹ بالکل نزدیک تھا اور یہ ایشیائیوں کے لیے نزدیک ترین آبادی تھی۔ پھر برطانیہ آنے والے ایشیائی باشندوں کے پاس اپنے کسی نہ کسی دوست یا رشتے دار کا پتا یا حوالہ ضرور ہوتا تھا، وہ دوست یا رشتے دار سائوتھ آل ہی میں رہتا تھا، چناں چہ جو بھی یہاں آتا، بعدازاں وہ اپنی فیملی کو بھی بلا لیتا۔ رفتہ رفتہ یہاں برصغیر سے آنے والے افراد کی تعداد بڑھتی چلی گئی، اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ مقامی انگریز ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا تھا۔ ہر طرف سکھ، مسلمان اور ہندو ہی نظر آتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب یہ حال ہے کہ یہاں تمام کاروبار بھی ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہاں مقیم پاکستانی سائوتھ آل کو لاہور کی ’’دوسری انار کلی‘‘ بھی کہتے ہیں۔

1955ء میں سائوتھ آل میں ایک سکھ، سوہن سنگھ سبزیاں فروخت کیا کرتا تھا، جویہاں سے کوئی 10میل دُور تک اپنا کاروبار کیا کرتا تھا۔ اُن دنوں اس جگہ سوہن سنگھ کے علاوہ کوئی دوسرا یہ کاروبار نہیں کرتا تھا۔ 1960ء میں پاکستانیوں کی آبادی صرف 12افراد پر مشتمل تھی۔ 1965ء تک سائوتھ آل کی انگریزآبادی پاکستانیوں، بھارتیوں اور بنگلا دیشیوں کو مزدور طبقہ گردانتی تھی۔ 1963 ءتک کُل آبادی ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی آباد تھی، جسے آج پُرانا سائوتھ آل کہا جاتا ہے۔ 

رفتہ رفتہ یہاں مقیم لوگوں نے اپنے کاروبار جمانا شروع کردیئے، چناں چہ اس کے ریلوے اسٹیشن کے دائیں طرف بھی کاروباری حصّہ بن گیا اور یہاں آبادی بھی بڑھنے لگی، اسے اب’’ براڈوے‘‘ یا ’’نیا سائوتھ آل‘‘ کہا جاتا ہے۔ شروع شروع میں پردیسی جان کر مقامی انگریزوں نے قلیل تعداد میں آباد ان ایشیائی باشندوں کے ساتھ زیادتیاں بھی کیں اور بعض اوقات لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی رونما ہوتے رہے۔ 

ان حالات کو دیکھے ہوئے ایک بھارتی شخص اجیت رائے نے یہاں مقیم ایشیائی باشندوں کو ان کے حقوق دلوانے اور ان کی فلاح وبہبود اور تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے۔ ان ہی کی کوششوں سے یہاں انڈین ورکرز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی۔ یہاں موجود بزرگوں کے مطابق، اجیت رائے، چوہدری خادم حسین، جسونت سنگھ، وی ڈی شرما اور ایچ ایس روپڑا نے سائوتھ آل کی تعمیر و ترقی میں اَن تھک کام کیا۔ 1960ء میں یہاں ایک بھارتی باشندے نے ایسٹرن ٹریڈنگ کمپنی قائم کی، جو آج کے کسی بھی بڑے سُپراسٹور مثلاً ٹیکسو، ایسڈا، مین بزی کے مقابلے کا اسٹور تھا۔ جس کی وجہ سے یہاں لوگوں کو روزگار بھی میسّر آیا اور کمپنی بھی روز افزوں ترقی کرتی رہی۔

1962ء کے درمیانی عرصے میں یہاں ’’پاکستان ویلفیئر ایسوسی ایشن‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ 1964ء تک یہاں پاکستانیوں اور بھارتیوں کی الگ الگ تنظیمیں قائم ہوچکی تھیں۔ سائوتھ روڈ پر واقع ہمالیہ پیلس سنیما جہاں اردو فلمیں لگتی ہیں، اُن دنوں اس سینما کا نام ڈومینین سینما تھا، اُس وقت بھی یہاں اردو فلمیں ہی لگا کرتی تھیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ برطانیہ کی تاریخ میں یہ پہلا ایسا سینما تھا، جہاں اردو فلمیں لگنا شروع ہوئیں، تو غلط نہ ہوگا۔ 1971ء کے قریب برطانیہ میں نسلی تعصّبات کا آغاز ہوا، اس کے نتیجے میں نسلی فسادات کے واقعات عام ہونا شروع ہوگئے، جس کے باعث کثیر تعداد میں مقامی انگریز آبادی دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا شروع ہوگئی۔

اُن ہی دنوں مقامی باشندوں یعنی انگریزوں کی ایک تنظیم’’ نیشنل فرنٹ اسکن ہیڈ‘‘ نے یہاں مقیم ایشیائی آبادی پر حملے شروع کردیئے، جس کے نتیجے میں یہاں مقیم ایشیائی باشندوں نے بھی اپنے تحفّظ کے لیے اُن کا مقابلہ کیا۔ یہاں امن و امان کے قیام کے لیے جانب دارانہ پولیس ایکشن پر ایشیائیوں کے ساتھ بعض انصاف پسند انگریزوں نے بھی احتجاج کیا۔ اُن میں ایک اسکول ٹیچر بلیئرپیچ بھی شامل تھا، وہ بھی پولیس ایکشن کا سخت مخالف تھا، جو اس احتجاجی مظاہرے کے دوران مارا گیا۔

یہاں پہلی بار ڈومینین سنیما کی وجہ سے بازار میں سموسے، پکوڑے اور دیگر ایشیائی کھانے ابتدائی طور پر فروخت ہونا شروع ہوئے۔ 1965-67ء تک معروف پاکستانی فلمی شخصیت عنایت حسین بھٹی بھی ڈومینین سنیما میں ٹافیاں وغیرہ فروخت کیا کرتے تھے۔ بہرکیف، 65ء اور 70ء کے عشرے میں ایشیائی باشندے، جن میں بڑی تعداد پاکستان اور بھارت کی تھی، سائوتھ آل ہی نہیں برطانیہ بھر کے مختلف شہروں میں آباد ہوچکی تھی۔ 1972ء میں براعظم افریقا کے کئی ممالک سے بھی تارکین وطن کثیر تعداد میں برطانیہ آئے، تو انہوں نے بھی اسےہی اپنا مسکن بنایا، لیکن بعد میں یہ لوگ یہاں مستقل طور پر آباد نہ ہوسکے۔

آج یہاں برطانیہ کے تمام بڑے بینکوں کے ساتھ ساتھ بھارتی بینکوں اور حبیب بینک کی برانچز بھی موجود ہیں۔ 1998ء میں اس کے ریلوے اسٹیشن کے مین گیٹ پر اردو زبان میں بھی ’’سائوتھ آل ریلوے اسٹیشن‘‘ لکھ دیا گیا، جویہاں ایشیائیوں کی مضبوط گرفت کی نشان دہی کرتا ہے۔ سائوتھ آل 18مقامی کائونسلز کے زیرانتظام ہے۔ یہاں ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء، خصوصاً برصغیر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں۔ یہ علاقہ لاہور، کراچی یا دہلی، ممبئی سے مختلف نظر نہیں آتا۔ آج صرف سائوتھ آل براڈوے ہی پر کم و بیش 15ایشیائی کھانوں کے ریستوران موجود ہیں اور کئی ایک پاکستانی اور انڈین مٹھائی کی دکانیں بھی ہیں۔ 

یہاں حلوہ پوری سے لے کر سری پائے، نہاری، نان چھولے، لسّی اور پراٹھے تک بہ کثرت فروخت ہوتے ہیں اورلوگ جُوق در جُوق خریدتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ملبوسات زیبِ تن کرنے کا انداز بھی وہی ہے، جو عموماً برصغیر میں نظر آتا ہے۔ مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، افریقی، امریکی، یورپی غرض یہ کہ دنیا کے ہر خطّے کے لوگ یہاں آزادانہ گھومتے پھرتے، شاپنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم، یہاں آباد، آبادی کا بیش تر حصّہ پھر بھی پاکستان اور بھارت کے تارکینِ وطن کا ہے۔

لندن کی اس کثیر الثقافتی و کثیر القومی آبادی میں ہر طرح کی مذہبی رسومات بھی پوری آزادی اورخشوع وخضوع سے ادا کی جاتی ہیں۔ یہاں دو مرکزی مساجد کے علاوہ کئی ایک گوردوارے اور مندر بھی موجود ہیں، جہاں مسلمان، سکھ اور ہندو مذہبی رسوم کے علاوہ برصغیر کے علاقائی اور قومی تہواروں پر جمع ہوتے ہیں۔ 

اس موقعے پر لوگوں کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستانیوں کے لیے سائوتھ آل کا علاقہ لاہور کے انارکلی بازار سے کم نہیں، جہاں لاہور کی ثقافت اور کھانوں کے رنگ پوری طرح نظر آتے ہیںاور اسی طرح یہاں آباد ایشیا کے دیگر ممالک کے لوگ اسے اپنے اپنے علاقوں سے تشبیہہ دیتے نظر آتے ہیں۔

تازہ ترین