• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج مجھے ایک ایسی قوم کے ادب کے بارے میں بات کرنی ہے جو پچھلے تہتر سال سے شدید ترین استحصال کا شکار ہے۔ تجزیہ کرنے سے پہلے لائٹنر کی رپورٹ دیکھئے اور سوچئے کہ اس زبان میں بڑا ادب کیسے تخلیق ہو سکتا تھا جس کی بہادری اور نفری اس کی دشمن ہو گئی۔ انگریز نے اپنے وسیع تر مقاصد کے لئے اسے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ دنیا سے لڑنے بلکہ جیتنے کے لئے اس کو بھرتی کیا۔ اس سے پہلے اس نے اس قوم کے شعور اور بغاوت کے جذبے کو گہری نیند کے انجکشن لگائے۔ اسے ثقافتی حوالوں سے بھی کمزور کرنا ضروری تھا۔ اس لئے زمین میں پیوست اس کی جڑیں کاٹ کر ایسے من پسند گملے میں لگایا جو اس کی منشا کے مطابق نشوونما کا چکر چلاتا تھا۔ بر صغیر کے ہر حصے میں مادری زبان کی اہمیت کو تسلیم کرنے والے نے پنجاب کی زبان سے خاص بیر رکھا گیا ۔ اجنبی زبان میں تعلیم کا آغاز ہوا تو مورال کے ساتھ شرح خواندگی بھی منہ کے بل گِر پڑی۔بات یہیں تک محدود ہوتی تو بھی خیر تھی مگر لوگوں کے ذہنوں میں خطرناک وائرس انجیکٹ کیا گیا کہ پنجابی ان پڑھ اور گنوار لوگوں کی زبان ہے۔ اسکول جانے والے واپسی پر اپنے ہی ماں باپ اور بزرگوں کا مذاق اڑانے لگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر آنے والے دن میں مادری زبان کے ساتھ کمتری کا احساس مضبوط کیا جاتا رہا۔ بلھے شاہ اور وارث شاہ کی آفاقی زبان کو تہہ خانے میں مقید کر دیا گیا۔ لکھنے والے وقت کی چال میں الجھ کر آفاقی زبان سے دور ہوتے رہے۔ اقبال، فیض، ندیم، منٹو، عبد اللہ حسین اور مستنصر حسین تارڑ مٹی سے محبت کے باوجود اس کی جانب مبذول نہ ہو سکے۔ سینتالیس کی تقسیمِ پنجاب کے وقت اس کے منہ میں گڑھتی کے وقت اس کے کان میں خوف کا یہ منتر بھی پھونک دیا گیا تھا کہ اسے سر اٹھا کر نہیں جینا، شناخت کے بھولے بسرے سِرے بالکل نہیں تلاشنے، تاریخ کی کسی کہانی میں نہیں الجھنا، بس محنت مزدوری کرنی ہے اور کمائی کے خانے میں شرمندگی بھی محفوظ کرنی ہے۔ ملک میں کسی جگہ کوئی مسئلہ ہوا پرویز الٰہی اور شہباز شریف نے فوراً مدد کا اعلان کیا۔ کبھی اپنا کوئی منصوبہ ادھورا چھوڑا، کبھی سرکاری ملازموں کی تنخواہ سے کٹوتی کی۔ بڑے بھائی کا خطاب خود ہی نام کے دَر پر نصب کیا اور خدائی خدمت گار بن گئے مگر اس طرح کی ہر کاوش کے جواب میں نفرت کی پوٹلی وصولی کہ پنجاب کے پاس تو بہت کچھ ہے۔ یہ بھول گئے کہ بڑا بھائی گھر کی بنیادوں کو بھی استوار کرتا ہے اور یہی پنجاب کی کوتاہی قرار دے دی گئی۔ ایک ایسا صوبہ جسے اپنی زبان، کلچر اور آرٹ کا احساس نہ ہو اس کی کوئی بھی کاوش کیسے معتبر ہو سکتی تھی۔ جب جب پنجاب کو گالی دی گئی، اس کی قربانیوں کی تضحیک کی گئی کسی پنجابی حکمران نے کبھی یہ پوچھنے کی زحمت نہ کی کہ آخر میرا کیا قصور ہے؟ اگر آبادی کے تناسب سے فوج میں میری بھرتی زیادہ ہے تو زیر بحث آٹھ دس جرنیلوں کے علاوہ ہر سال سینکڑوں جانیں قربان کرنے والے، سیلاب، زلزلے اور آفتوں میں حصار بن جانے والوں میں بھی تو میرا حصہ زیادہ ہوتا ہے۔ اگر میرے کھیت سونا اُگاتے ہیں، اگر میری مٹی سبزہ جنم دیتی ہے، اگر میرے دریا زندگی کا راگ سناتے ہیں تو یہ میں نے کسی پر قبضہ کر کے حاصل نہیں کئے، فطرت نے مجھے ودیعت کئے ہیں، میں نے تو ان کی کمائی تقسیم کی ہے۔ پاکستان ایک ریاست ہے جس میں کئی قومیں بستی ہیں، جن کے منفرد کلچر اور دانش سے بھری زبانیں ہیں، ذہنوں میں ہزار سال کا ورثہ ہے۔ پاکستان کا کوئی کلچر نہیں، تمام قوموں کا کلچر مل کر اس کا کلچر بنتا ہے۔ گزشتہ دس بارہ سال سے قومی اسمبلی میں دھکے کھانے والے قومی زبانوں کے بل کو وزیر اعظم پاس کریں اور تاریخ میں امر ہوں۔ احمد شاہ ادب کا سپہ سالار ہے۔ اس نے اُردو زبان کی کانفرنس میں مادری زبانوں کو اہمیت دے کر زمینی دانش، سماجی معاملات سے آگاہی اور آفاقی شعور کا ثبوت دیا ہے۔

اُردو جو رابطے کی زبان ہے وہ بہت سی زبانوں کے مرکب کا نام ہے۔ اب اس میں موجود عربی، فارسی اور دیگر بدیسی زبانوں کے لفظوں کی جگہ پاکستانی زبانوں کے لفظوں کو جگہ دینی چاہئے۔ اب قومی اور رابطے کی زبان کی بقا ایک دوسرے کے ساتھ مشروط ہو چکی ہے۔ پنجاب میں ابھی تک مادری زبان کو لازمی مضمون کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا۔ منصوبہ ساز اس کی وجہ سرائیکی اور پنجابی کامسئلہ بتا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ پنجاب کو صدیوں پرانی روش پر ہی چلانا چاہتے ہیں۔ اس پر سوچنا چاہئے اور کوئی رستہ نکالنا چاہئے ورنہ اگلی نسل کے لئے مادری زبان کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ منہ ٹیڑھا کر کے بدیسی زبانیں بولنے والے پنجابی کیسے بڑا ادب تخلیق کریں گے۔ وزیراعظم صاحب! مختلف قوموں نے مل کر پاکستان بنایا تھا۔ ہندوستان نے پچیس سے زائد زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دے رکھا ہے، آخر ہمارا کیا مسئلہ ہے؟ آپ بھی اس دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے صوبائی اکائیوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کے احکامات جاری کریں، تاریخ آپ کو سنہری حروف میں یاد رکھے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین