• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ حقیقت ہر پاکستانی کے پیشِ نظر رہنی چاہیےکہ پاکستان ایک ایسا مُلک ہے ،جو مغربی استعمار سے آزادی کے نتیجے میں استوار ہونے والی تحریک کے سبب قائم ہوا، جو بظاہر چند دَہائیوں ہی کی کام یاب تحریک کا نتیجہ نہیں، جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی ہزارسالہ جدّوجہد کا ثمر ہے۔مسلمانوںمیں یہ احساس ابتدا ہی سے موجود تھا کہ وہ یہاں کی آبادی کی اکثریت، یعنی ہندوئوں کے مقابلے میں ہر اعتبار سے قطعی طور پرایک علیحدہ قوم ہیں۔ دو قومی نظریہ اپنا ایک طویل تاریخی پس منظر رکھتاہے کہ جب اس سرزمین پر پہلا مسلمان وارد ہوا تو اس نے اپنے آپ کو یہاں کی ہر قوم کے فرد سے بالکل علیحدہ محسوس کیا۔

چناں چہ قائدِاعظم محمّد علی جناح نے ایک بارصاف الفاظ میں کہا کہ’’ جب ہندوستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا ،تو وہ اپنی قوم کا فرد نہ رہا، وہ ایک دوسری قوم کا فرد بن گیا‘‘۔پاکستان کا قیام دراصل مسلمانوں کی اس ہزار سالہ طویل جدّوجہد کا نتیجہ ہے، جس کے تحت مسلمان، ہندوستان میں یہاں کی ہندو اکثریت یا ’’ہندوتوا‘‘کے مقابلے میں ہر زمانے میں اپنی جدا گانہ ہستی برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہے ۔ ان کی اس انفرادیت کو مٹانے اور انھیں اپنے اندر ضم کرنے کی غرض سے ہندوئوں نے ’’ہندوتوا‘‘ کے نام پربرّ صغیر کےمسلمانوں پر مختلف محاذوں سے حملہ کیا۔

مگر مسلمانانِ ہند نےہر موقعے پراس صورتِ حال کا پوری قوّت سے مقابلہ کیا ۔ ان کے لیے یہ مسئلہ نوآبادیاتی عہد میں زیادہ شدید صُورت اختیار کر گیا تھاکہ انگریز، مسلمانوں سے ان کا اقتدار چھیننے کے بعدیہاں کی اکثریت یا ہندوؤں کو اپنا بنانے کے لیے یہ ضروری سمجھتے تھے کہ مسلمان اپنے زوال کی انتہا تک پہنچ جائیں۔ چناں چہ ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ ہندوستان میں اسلام ایک مقتدر قوت نہ بن سکے۔

مسلمانوں کے سامنے ہندوئوں اور انگریزوں کے مشترکہ مقاصد پوری طرح عیاںتھے، وہ محض ہندوستان میں بسنے والی ایک قوم کی حیثیت سے نہیں، مسلمان ہونےکی حیثیت سے اپنے قومی وجود کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔اسی خیال کے تحت انھوں نے اوّلاً1857ء کی جنگِ آزادی میں بھر پور حصّہ لیا اور پھر وقتاً فوقتاً دیگر انگریز مخالف تحریکوں میں شرکت کی اور پھر مارچ 1940ء میں قرار دادِ پاکستان پیش کیے جانے تک، بلکہ 1949ء میں قراردادِ مقاصد کے متفقّہ طور پر منظور ہونے تک، ایک ہی رویّہ ،ایک ہی نظریہ مختلف صورتوں اور مختلف تحریکوں میں کار فرما رہا،لیکن جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے صرف ایک آزاداسلامی مملکت کا حصول ہی حتمی اور آخری مقصد نہیں تھا ،ان کا اصل مقصد ایسی سر زمین کا حصول تھا، جہاں ایک اسلامی معاشرے کا قیام، شریعتِ اسلامی کا نفاذ اور عدل و انصاف کی ترویج ممکن ہو ۔ 

پاکستان کی بنیادیں واضح اور ٹھوس نظریاتی اساس پر رکھی گئی تھیں۔ قرار دادِ پاکستان سے ان بنیادوں کی نشان دہی ہوتی ہے، لیکن قیام ِ پاکستان کے بعد پاکستان کی قومی سیاسیات کو ابتدا ہی میں بڑے دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے قوم کے دردمند طبقے نے ، قیامِ پاکستان کے صرف تین ہفتوں بعد ہی ،نظریۂ پاکستان اور عام قومی احساسات سے ہم آہنگ آئین مرتّب کرنے کے لیے فوری طور پر ایک نئی دستور ساز اسمبلی تشکیل دی،جس نے اپنا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا۔ اس دوران ایک تومُلک کے اندرونی مسائل اور بیرونی خطرات نے قومی جذبات کو مسلسل مضطرب اور منتشر کیے رکھا، تو دوسری جانب قوم کوقائدِاعظم کی رحلت کے شدید الم ناک سانحے سے بھی دو چار ہونا پڑا۔ چناں چہ آئین سازی کا کام پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے ذمّے آیا،جو قراردادِ پاکستان اور قراردادِ مقاصد کی روح کےعین مطابق بنایا گیا۔ 

لیکن ہندوتوا کے نظریے سے سرشار ، بھارت کو یہ سب کچھ پسند نہ تھا اور اس کے ہم نوا، اس سے فیض یافتہ اور سوشلزم کے نام لیواؤں نے قراردادِ مقاصد، قائد اعظم اور دیگر اکابر کے نظریات تسلیم نہ کرنا اور ان کی غلط تعبیر بتا کر قیامِ پاکستان کی بنیادوں کو رَد کرنا اپنا شعار بنالیا اور مخالفت میں طرح طرح کی تاویلیں گھڑنی شروع کردیں۔ بحالتِ مجبوری اور بادلِ ناخواستہ بھارت نے پاکستان کے قیام کو قبول تو کر لیا ،لیکن کبھی برداشت نہ کر سکا۔ چناں چہ روزِ اوّل ہی سےبھارت نےتمام اخلاقی اور بین الاقوامی اصول نظر انداز کر تے ہوئے کشمیر پر قبضہ کیا ، یہ پاکستان کے خلاف اس کی اوّلین سازش تھی۔ 

پھر سیاسی ریشہ دوانیوں، بیرونی اثرات اور خاموش دَراندازی کے ذریعے اس نے پاکستان کوسندھ طاس معاہدوں کے جال میں گرفتار کر کے معاشی طور پر کھوکھلا کرنے کی کوششوں میں بڑی حد تک کام یابی حاصل کر لی اور اس کی خاموش دَر اندازی نے ایسی صورت ِحال پیدا کردی کہ مشرقی پاکستان، ہم سے الگ ہوگیا۔ اب وہ چاہتا ہے کہ کراچی سے بلوچستان کے آخری شمال مغربی سرحدوں اور گوادر تک کا علاقہ بھی پاکستان سے الگ ہوجائے کہ جس کے بعد نہ پنجاب آزاد و خود مختار رہ سکتا ہے، نہ صوبۂ خیبر پختون خوا ۔یہاں کی ہر بد امنی کے پیچھے اصل ہاتھ بھارت ہی کا ہوتاہے۔

پاکستان کو ایک اسلامی مملکت کے قیام کے تصوّر اور مقصد سے مختلف سمجھنا اور خصوصاً قائدِاعظم کو سیکولر نظریات کا حامل سمجھنا محتاط سے محتاط الفاظ میں بھی شدید غلط فہمی، کم علمی یا ارادی طور پرہندوسیاسی نظریات کی پیروی ہی کہلائے گا۔ 

ایسی سوچ کے حامل افراد کو ان دستاویزات کو بغور پڑھ لینا چاہیے اور اس ضمن میں اگر کہیں قائداعظم کے تعلق سے ایسے بیانات نقل ہوئے ہوں ،جن میں ان کے سیکولر خیالات کا اظہار ہوتا یا ان کی جانب سے پاکستان کو ایک سیکولر مملکت بنائے جانے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہو ،تو ان بیانات کو ان کے سیاق و سباق میں رکھ کر اور ان کی پوری جدوجہد اور ان کے مجموعی افکارکی روشنی میںدیکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں مذکورہ دستاویزات نایاب یا کم یاب نہیں، بآسانی دست یاب ہیں۔

یہی صورت قائداعظم کے خیالات اور بیانات کی بھی ہے، جو ان کی تقاریر، بیانات اور فرمودات کے مجموعوں میں دست یاب ہیں، جن کے متعدّد مستند نسخے یا ایڈیشنز موجود ہیں، چوں کہ ان مجموعوں میں قائداعظم کے متعلقہ بیانات و خیالات مکمل طور پر یک جا صُورت میں کسی ایک عنوان کے تحت مرتّب نہیں ہیں، اس لیے یہ مناسب ہوگا کہ قارئین کے لیے یہاں چند ایسے اقتباسات پیش کر دئیے جائیں، جن سے قائداعظم کے وہ خیالات سامنے آئیں، جن سے قائد اعظم سے منسوب تمام ترغلط بیانیوں اور الزامات کی تردید ہوسکے۔ نظریۂ پاکستان سمجھنے اور متعیّن کرنے کے لیے قائداعظم کے یہ خیالات بنیادی مآخذ میں شمار ہوسکتے ہیں۔درج ذیل تمام خیالات، بانیٔ پاکستان کی تقاریر و بیانات کے مستند ترین مجموعے Speeches and writings of Mr. Muhammad Ali Jinnah. مرتّبہ: جمیل الدین احمد، جلد اوّل، لاہور،1960ءسے ماخوذ ہیں۔

اقوالِ قائد اعظم

’’ہمارے لیے بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی قوم کو منظّم کریں۔ یہ اُسی وقت ہو سکتاہے کہ جب ہم طاقت وَر ہوں اور اپنی قوم کی مدد کریں۔ نہ صرف استقلال و آزادی کے لیے،بلکہ اس کو برقرار رکھنے اور اسلامی تصوّرات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیےبھی ۔ پاکستان کا مقصد صرف آزادی و خود مختاری ہی نہیں، اسلامی نظریہ ہے، جو ایک بیش قیمت عطیے اور خزانے کی حیثیت میں ہم تک پہنچا ہے۔‘‘

’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اپنے ضابطۂ حیات، اپنی روایات اور اسلامی قوانین کے مطابق حکومت کر سکیں۔ ہمارا مذہب، ہمارا کلچر اور ہمارے اسلامی نظریات ہی وہ محرّکات ہیں، جو ہمیں خود مختاری حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھاتے ہیں۔‘‘

’’آل انڈیا مسلم لیگ کا مطالبہ ہے کہ ہندوستان کے ان علاقوں میں جہاں مسلمان تعداد کے لحاظ سے اکثریت میں ہیں، ایسی مملکت قائم کریں ،جہاں وہ اسلامی شریعت کے تحت حکومت کر سکیں۔‘‘

’’ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ آزادی، اخوّت اورمساوات کے اس تصوّر کو بروئے کار لائیں ،جو اسلام نے پیش کیا ہے۔‘‘

’’میرا یہ ایمان ہے کہ ہماری نجات اس میں مضمر ہے کہ ہم ان بیش بہا اصولوں کی پیروی کریں، جو ہمارے عظیم المرتبت قانون دہندہ، پیغمبرِ اسلام حضرت محمّد ﷺ نے ہمارے لیے واضح کر دئیے ہیں۔ آئیے ،ہم اپنی مملکت کی اساس سچّے اسلامی تصوّرات اور اصولوں پر قائم کریں۔‘‘

’’مَیں ان لوگوں کو نہیں سمجھ سکا ہوں، جو جان بوجھ کر فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کے مطابق نہیں بنایا جائے گا۔ اسلامی اصول بے مثال ہیں،یہ اصول آج بھی زندگی میں اسی طرح قابلِ عمل ہیں، جس طرح 14 سو سال پہلے تھے۔‘‘

قائدِ اعظم کے درج بالا فرمودات کی روشنی میں کم از کم کوئی ذی شعور تو ہر گز یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ سیکولر نظریات کے حامل تھےیا پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے۔ ان الفاظ میں وہ سب کچھ موجود ہے ،جو قیامِ پاکستان اور اس کے ایک اسلامی مملکت قرار دئیے جانے کے بارے میں کسی بھی قسم کی مخالفت کا جواب دینے کے لیے کافی ہے۔

افسوس کہ ہمارے متعلقہ قومی ادارے ایسی منظّم تدابیر اختیار کرنے سے قاصر رہے ہیں، جو اس منفی صورتِ حال اوربابائے قوم کے حوالےسے ناروا پروپیگنڈے کا مؤثر اور مناسب تدارک کر سکیں، چناں چہ نظریۂ پاکستان کی تعبیر و تشریح کی اب تک جو مناسب کوششیں ہوئی ہیں ،وہ بہت سرسری اور تشنہ ہیں یا غیر معیاری اور غیر صحت مند محرّکات و عوامل کی نشان دہی کرتی ہیں۔

تازہ ترین