• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی قوم کیلئے پہلے پچیس سال نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں پچیس سالہ سالگرہ سلور جوبلی کی صورت میں نہایت دھوم دھام سے منائی جاتی ہے، یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا پیارا وطن پاکستان اپنی سلور جوبلی منانے سے قبل ہی دولخت ہوگیا، یہ المناک سانحہ کیسے رونماء ہوا ، اس کے پس پردہ عوامل اور مبینہ ذمہ داران کے متعلق بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، ہر سال پاکستان سے بے لوث محبت کرنے والے مجھ جیسے محب وطن سانحہ مشرقی پاکستان کاسوگ مناتے ہیں۔قائداعظم کی زیرصدارت 23مارچ1940ء کو لاہور کے تاریخی جلسے کے دوران قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد تحریکِ پاکستان زور پکڑ چکی تھی، برصغیر کے مسلمانوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ انہیں آزاد ملک دیا جائے جسے وہ دنیا کے سامنے رول ماڈل کے طور پر پیش کرسکیں، قائداعظم کے شانہ بشانہ جوگندرناتھ منڈل جیسے بے شمار غیرمسلم ہندواور بہاری مسلمان تحریک پاکستان کے حامی تھے جنہیں یقین تھا کہ مسلمان اکثریتی ملک میں انہیں شہری، سماجی اور مذہبی آزادی میسر ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ 1946ء کے فیصلہ کن انتخابات میں بہار کے مسلمانوں کی آبادی اپنے صوبے میں دس فیصد سے زائد نہ تھی لیکن انہوں نے مسلم لیگ کو 34نشستوں پر کامیابی دلوائی، وہ اچھی طرح اس امر سے آگاہ تھے کہ ان کا صوبہ پاکستان کا حصہ نہیں بن سکے گا لیکن وہ اپنے ووٹ کے ذریعے قائداعظم کی آواز پر لبیک کہنا اپنا فرض سمجھتے تھے، قیام پاکستان کے موقع پر فسادات پھوٹ پڑے تو یہ بہاری نقل مکانی کرکے مشرقی پاکستان آگئے، یہ لوگ تعلیم یافتہ تھے اس لئے بہت جلد سرکاری عہدوںپر بھی جگہ بنانے میں قائم ہوگئے، پاکستان میں جب قومی زبان اردو کو قرار دینے کا فیصلہ ہوا تو مشرقی پاکستان میں بسنے والے بنگالیوں کی جانب سے مخالفت کی جانے لگی، تاہم بہاریوں نے اردو زبان کو دل و جاں سے اپنا لیا، مشرقی پاکستان میں برپاء ہونے والے لسانی جھگڑوں کی بناء پرقوم پرست بنگالیوں نے ہر اس باشندے کو بہاری قرار دے کر نفرت کا نشانہ بناناشروع کردیا جو بنگالی زبان نہ بولتا ہو، چاہے وہ پنجاب کا ہو یا پٹھان۔ صدر ایوب خان کا مارشل لاء بنگالیوں اور بہاریوں کے مابین فاصلے مزید گہرے کرنے کا باعث بنا، قومی انتخابات 1970ء میں بنگالیوں کی اکثریت نے شیخ مجیب الرحمان کی زیرقیادت عوامی لیگ کاساتھ دیا تو بہاری مسلم لیگ کنونشن اور جماعت اسلامی کے سپورٹر تھے۔بنگالی شدت پسندوں کی تنظیم مکتی باہنی کی جانب سے مشرقی پاکستان میں موجود ہر غیربنگالی کو بہاری قرار دے کر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جانے لگا تو محب وطن پاکستانی نوجوانوں نے پاک فوج کی حمایت میں سردھڑ کی بازی لگادی۔افسوس، پاکستان اپنی سلور جوبلی شان و شوکت سے منانے سے قبل ہی دوٹکڑے ہوگیا، ہماری قومی تاریخ کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ پاکستان کا وہ مشرقی حصہ جہاں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا، جہاں سے تعلق رکھنے والے شیربنگال مولوی اے کے فضل حق نے لاہور میں قراردادِ پاکستان پیش کی، جہاں کبھی پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجا کرتے تھے، اپنوں کی ہٹ دھری ، نادانیاں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کے باعث ہم سے جدا ہوگیا،وہاں پاکستان سے محبت کرنے والے بہاریوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جانے لگا، مشرقی پاکستان کے زمانے میں ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے والے بہاریوں کوزورزبردستی مہاجرکیمپس میں محدود کردیا گیا، قوم پرستی کی بنیاد پر قائم ہونے والے بنگلہ دیش میں ان پر زمین تنگ کردی گئی، آج بھی بہاری کیمپوں پر آویزاں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ان کے بنگلہ دیش کے شہری نہ ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ ان بہاری لوگوں کی زندگی سہولتوںسے عاری کیمپوں میں اجیرن بنادی گئی ہے،آئے دن وہاں آتشزدگی کے واقعات رونما ہوتے ہیں، بہاریوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے ہراساں کیاجاتا ہے، ملازمتوں سے محرومی کی بناء پر وہ فاقہ کشی او ر غربت کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں، نوجوان بچیوں کی کولکتہ اسمگلنگ کی خبریں منظرعام پر آتی ہیں۔ آج ان کی تیسری نسل بے یقینی کے عالم میں بہاری کیمپوں میں پاکستان کا پرچم سینے سے لگائے پریشان حال ہے، آج بھی ان کے بڑے اپنے کیمپوں میںاپنے دن کا آغاز پاکستان کے قومی ترانہ سے کرتے ہیں، پاکستان کے قومی دن مناتے ہیں، پاکستان میں چاہے کسی کی بھی حکومت ہو، ان کی توقعات پاکستان سے وابستہ ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہاری کیمپوں میں لگ بھگ پچاس برس گزارنے کے بعد و ہ شدید مایوسی کا شکار ہوکر حقیقت پسند بنتے جارہے ہیں، ایک طرف نئی نسل بنگلہ دیش کو اپنا نے کیلئے آمادہ نظر آتی ہے لیکن دوسری طرف بنگلہ دیشی قوم پرستوں کے نزدیک ان کی پاکستان سے محبت ناقابل معافی جرم ہے۔ اسی طرح ماضی میں بہاریوں کی پاکستان میں آبادکاری کے معاملے پریہاں بھی قوم پرستوں کی جانب سے پرتشدد مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے، سندھ میں بسنے والوں کو اندیشہ ہے کہ کراچی میں بہاریوں کی آبادی میں اضافہ اردو اسپیکنگ ووٹ بینک کو بڑھائے گا، اسی طرح دیگر صوبے بہاریوں کے معاملے سے مکمل لاتعلق نظر آتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بنگلہ دیش میں پھنسی محب وطن بہاری کمیونٹی نے قائداعظم کی یقین دہانی پر پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔افسوس، قائداعظم آزادی کے صرف ایک سال بعد اس فانی دنیا سے چلے گئے لیکن آج ان کے وعدوں پر عمل کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ ہمیں سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد مناتے ہوئے اپنے مظلوم بہاری بہن بھائیوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے جنہوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے موقع پر افواج پاکستان کا ساتھ دیا تھا،آج ہمیں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے تعاون سے بنگلہ دیش پرزور ڈالنا چاہئے کہ انسانی ہمدردیوں کی بنیاد پر بہاری کمیونٹی کے مسائل کا دیرپا حل نکالا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین