کرہ ارض کا ماحول طویل عرصے سے تیزی سے تباہی کا جانب گام زن تھا کہ کووِڈ۔اُنّیس کی وبا نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ نوول کورونا وائرس کی شکل میں قدرت نے ہمیں ایک موقع دیا ہے۔ ہماری زمین آلودگی کی وجہ سے ختم ہو رہی تھی۔
اس وائرس اور لاک ڈاؤن کے باعث اب اسے دوبارہ سانس لینے کا موقع مل رہا ہے۔اگرچہ اس عالمی وباکے نتیجے میں دنیا بھر کی معیشت متاثر ہے اور لاکھوں چھوٹے بڑے کارخانے بند ہیں، لیکن اسی وجہ سے عالمی فضائی آلودگی میں بھی ڈرامائی طور پرکمی دیکھنے میں آئی ہے ۔
آبادی اور صنعتی لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک چین کی فضاوں میں مضر نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج میں غیر معمولی کمی دیکھنے میں آئی۔صنعتی سرگرمیوں،موٹر کاروں، ٹرکوں اور پاور پلانٹس کی بندش کے نتیجے میں ماحول پربہت مثبت اثرات مرتب ہوئے اور فضا میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈگیس کی مقداراضح طور پر کم ہو گئی ۔
کرہ ارض نے سُکھ کا سانس لیا
اگرچہ یہ وائرس انسانوں کے لیے آزمائش بناہوا ہے،لیکن بے زبان جانوروں کے لیےیہ ایک حسین حقیقت ثابت ہو رہا ہے۔ اٹلی کے شہر وینس کی نہروں کا پانی طویل عرصے بعد صاف شفاف ہوا،جہاں ہزاروں کی تعداد میں انواع و اقسام کی مچھلیاں اور ڈولفنزخوش نظر آئیںاورجہاں کئی برس بعدموسمی پرندوں نے آکر ڈیرے ڈالے۔یورپ کے دیگر شہروں میں انسانوں سے خالی سڑکوں پر قریبی جنگلات کے خوب صورت ہرن اور انواع و اقسام کے خوب صورت جانور پہلی بار آزادی سے بنا کسی خوف و خطر کے ٹہلتے دکھائی دیے۔قدرت اپنے خوب صورت رنگ پھر سے بکھیرتی نظر آئی اورقوسِ قزح کے پھیکےپڑتے رنگ پھر سے گہرے ہوئے۔
دنیا بھرکے ماہرینِ ماحولیات اور ارضیات نے انکشاف کیا کہ فضا میں پھیلی کثافت اور آلودگی میں کمی آئی ہے، آسمان صاف نظر آنے لگاہے، تارے بھی گنے جا سکتے ہیں، ہوا میں تازگی محسوس ہوتی ہے اور کھلے ماحول میں طمانیت کا احساس ابھرتا ہے۔ دنیا کے بہت سے مقامات پر سڑکوں پر ٹریفک کم یانہ ہونے کے برابر ہونے کی وجہ سے دھواں کم یابالکل نظر نہیں آتا۔ کارخانوںکی چمنیوں سےاٹھتا کثیف دھواں کم یا نہ دارد ہے۔2020میںایک موقعے پر فضائی آلودگی میں پینتالیس فی صد تک کمی نوٹ کی گئی۔ماہرین کے بہ قول کورونا کی قیامت خیزیاں اپنی جگہ، مگر ماحول میں تبدیلیاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔دنیا بھر میںامراضِ قلب، پھیپھڑوں کی بیماریوں اور دمے کے مریضوں میں قدرے کمی آئی ہے۔
مارچ کے آخری ہفتے میں یہ پتا چلا کہ کراچی بھی ایئر کوالٹی انڈیکس میں بہتر پوزیشن یعنی،ستّائیس پر آچکاہے حالاں کہ دسمبر2019 میں کراچی کادرجہ ایک سو انسٹھ تھا ۔مئی2020میں پتا چلا کہ کئی دہائیوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی صنعتی سرگرمیوں کے بعد زمین پر انسانی اثرات میں ایک دم کمی آئی ہے۔ مارچ 2020 میں مارچ 2019 کے مقابلے میں فضائی ٹریفک تقریباً نصف رہ گیاتھا، برطانیہ میں روڈ ٹریفک میں تقریباًستّر فی صد کمی آئی اور ایسا ہی دوسرے ممالک میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔
انسانی سرگرمیوں میں کمی سے کرہ ارض نے سکون کا سانس لیا اور ماہرینِ ارضیات کے مطابق زمینی ارتعاش میں بھی کمی آئی۔ پہلے چین پھر اٹلی، برطانیہ، جرمنی اور درجنوں دیگر ممالک میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائڑوجن آکسائیڈ کی فضا میں مقدارچالیس فی صد تک کم ہوئی اورجنگلی حیات میں بڑھوتری کے آثارپیدا ہوئے۔یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ فضائی آلودگی کم ہونے کی وجہ سے اوزون کی تہہ کا شگاف خود بہ خود بھرنا شروع ہوگیا ہے۔
اِک خبر تشویش کی
ماحول کے بارے میں اچھی خبروں کے بعداگست کے پہلے ہفتے میں یہ تشویش ناک خبر سامنے آئی کہ برطانوی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کورونا سے بچاؤ کے لیےاستعمال ہونے والے ماسک اور دستانے سنگین ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہے ہیں۔
یاد رہے کہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کا آغاز مارچ سے ہوا تھا ، لیکن اگست کے مہینے تک تقریباً تمام ہی ممالک نے لاک ڈاؤن میں نرمی کردی تھی جس کے بعد معمولاتِ زندگی بحال ہوگئے اور کرہ ارض پھر سے آلودہ ہونا شروع ہوگیا ۔
مذکورہ خبر میں کہا گیا تھا کہ ماحولیاتی سائنس اور ٹیکنالوجی کے مطالعے کے مطابق کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ہر ماہ دنیا بھر میںایک سو چورانوے ارب ڈسپوز ایبل ماسک اور دستانے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایک بار استعمال ہونے والے پی پی ای کو پلاسٹک سے تیار کیا جارہا ہے جس میں پولی پروپیلین ، پولی تھیلین اور وینائل شامل ہیں۔عام طورپر پی پی ای کو ایک بار استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے دریا، ندیاں اور سمندر آلودہ ہورہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پی پی ای کی تیاری میں بوتلوں اور پیکیجنگ کا پلاسٹک استعمال کیا جاتا ہے۔ فرینڈز آف دی ارتھ کے مطابق برطانیہ بھرکے رضاکاروں نےاستعمال شدہ ڈسپوزایبل ماسک کو گلیوں، ساحلوں اور نہروں اور ندیوں میں بڑے پیمانے پر پڑے ہوئے دیکھا۔ برطانیہ کی سڑکوں اور پارکوںمیںبڑی تعداد میں پی پی ای استعمال کے بعد پھینکا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں پھینکے جانے والے ڈسپوز ایبل ماسک کو گلنے میںساڑھے چار سو برس لگ سکتے ہیں جو سمندری ماحولیاتی نظام کو مکمل طور پر تباہ کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وبا سے قبل سمندر سے سالانہ تیرہ ملین ٹن کچرا نکالا جاتا تھا، فیس ماسک اور دستانوں کے بعد کچرے کا حجم بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ فرانس میں ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں مہم چلانے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ اگر اسی طرح ایک بار استعمال ہونے والے ماسک کا استعمال جاری رہا تو بحیرہ روم میں جلد جیلی فش سے زیادہ ماسک تیرتے نظر آئیں گے۔
اقوامِ متّحدہ کے سیکریٹری جنرل کا انتباہ
پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے ہوئے اقوامِ متّحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس نےسولہ فروری کواسلام آباد میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے کوئی ملک محفوظ نہیں، عالمی کوششیں مقاصد کے حصول کے لیے ابھی ناکافی ہیں۔
پاکستان میں ترقیاتی اہداف کو موسمیاتی تبدیلیوں سے خطرات کا سامنا ہے ۔ ہمارا مشترکہ وژن موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا اور پائے دار ترقی ہے۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں قدرتی آفات کے باعث پاکستان میںدس ہزار اموات ہوئیں۔ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے معاملے میں ہم ابھی ٹریک پر نہیں اور ہمیں ہنگامی صورت حال کا سامناہے۔پاکستان کو صحت سمیت مختلف شعبوں میں چیلنجز درپیش ہیں۔
اہم معاہدے پر دست خط
پاکستان نےعالمی بینک کے ساتھ جنگلات کی بحالی اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے منصوبوں کےتحت جون کےمہینے میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے 188ملین ڈالرز کے معاہدے پر دست خط کیےاورتباہی کے خطرے سے متعلق انتظام کے ذریعے ملک کی آب و ہوا میں لچک کو فروغ دینے کا اہتمام کیا۔اس معاہدے کے تحت ، عالمی بینک پاکستان کے ساتھ ہاتھ ملائے گا اور قدرتی اور بر وقت موسم کی پیش گوئی کے ذریعے تباہی سے نمٹنے اور ماحولیاتی نظام کی بحالی کے اقدامات کے لیے مالی اعانت اورتیکنیکی مدد فراہم کرے گا۔ اس سے تباہی کےخطرات کی انتظام کاری کی بہتر خدمات کے ساتھ ماحولیاتی استحکام میں بھی مدد ملے گی۔
اس معاہدے کے ضمن میںوزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان نے پانچ سالہ منصوبے کے لیے 188ملین ڈالرز کی بھاری رقم حاصل کرنے میں کام یابی حاصل کی ہے جس کا مقصد ملک میں ماحولیاتی تباہی ، جنگلات کی کٹائی ، آب و ہوا کی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے تباہی کے خطرات سے نمٹنے کے لیےکام کرناہے۔
ہم فطرت پر مبنی حل استعمال کریں گے جیسے جنگلات کے رقبے میں اضافہ ، آفت کے خطرے سے متعلق انتظامی خدمات کی موثر فراہمی کے لیے ہائیڈرو۔ میٹیورولوجیکل پیشن گوئی کا نظام مستحکم بنانا۔گرین اکنامک اسٹیمولس کے بارے میں ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ اس معاہدے نےدس ارب درخت، سونامی اے فوریسٹیشن منصوبے کے مقاصد کی تائید کی ہے۔اس کا مقصد پاکستان میں شجرکاری کو بڑھانا ، نرسریوں کا قیام ، قدرتی جنگلات، شہد ، پھلوں اور زیتون کے باغات کو فروغ دینا ہے۔ پیکیج کے تحت،پودوں کی مہم کا ایک حصہ بنا کر پہلے مرحلے میں نوجوانوں کو روزگار کے مواقعے فراہم کرنے کےلیے ’’گرین نگہبان‘‘منصوبہ شروع کیا جائے گا۔
محافظ ہی مارخور کے دشمن بن گئے
اکتوبر کے مہینے میں ایک رپورٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے اپنے گرین اسٹیمولس پیکج کے تحت محفوظ علاقوں میں اضافہ کرنےکےعہدکا اظہار کیاہے،لیکن کلیدی قومی پارکوں میں نگرانوں کی تن خواہوں کی ادائیگی میں اس کی ناکامی نے ماحولیاتی تحفظ سے متعلق ناقص حکمت عملی کو بے نقاب کردیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چترال گول نیشنل پارک میں ناقابل تصور واقعہ پیش آیا۔ حالیہ مہینوں میں کشمیری مارخور کے شکار کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے قبل علاقے میں غیر قانونی شکار کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ سب سے بری بات یہ ہے کہ مجرم کوئی اور نہیں بلکہ قریبی دیہات کے لوگ ہیں۔ اسی برادری کےرکن، جنہوں نے اس خطرے سے دوچار پہاڑی بکری کی حفاظت کرنا تھی، جو 2015 سےبقائے فطرت کی عالمی تنظیم IUCN کی سرخ فہرست میں شامل ہے۔
یاد رہے کہ 1984میں محفوظ قرار دیا گیا یہ علاقہ صوبہ خیبر پختون خوا میں 77.5 مربع کلو میٹرز پر محیط ہےاور برفانی چیتے اور کشمیری مارخوروں کی سب سے بڑی آبادی کامسکن ہے۔یہ پارک،جو پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے ، وہاںملک کی چار قومی علامتیں دیکھی جا سکتی ہیں،یعنی مارخور (قومی جانور) ، دیودار (قومی درخت) ، چکور (قومی پرندہ) اورچنبیلی کا پھول (قومی پھول)۔
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ہنگول نیشنل پارک میں اکتّیس سرکاری افراد کے ساتھ مل کر کمیونٹی کےسولہ نگرانوں کو بغیرتن خواہ کے کام جاری رکھنے کےلیے راضی کرنا مشکل ہو رہا ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ڈیڑھ سال سے ، پارک کےتیرہ کمیونٹی چوکی داروں کو ماہانہ تنخواہ ،پندرہ ہزار روپے ادا نہیں کی گئی ہے۔پہلے یہاں دگنے نگراں ہوتے تھے ، لیکن فنڈز کم ہونے کے نتیجے میں گزشتہ سالوں میں ان کی تعداد کم ہوگئی ہے۔
موسموں کی شدّت اور تباہی
بدلتے ہوئے موسمی حالات نے ساری دنیا کو متاثر کر رکھا ہے،لیکن پاکستان چوں کہ ان سرِ فہرست مماک میں سے ایک ہے جو ان تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں لہذا یہاں موسمیاتی تبدیلیاں لوگوں کو بری طرح متاثر کررہی ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ2020کے آغاز پر پاکستان میں موسمِ سرما کی شدت معمول سے کہیں زیادہ نظر آ ئی۔
جنوری کے مہینے میں ملک کے مختلف حصوں میں بارشوں اور برف باری سے کافی تباہی ہوئی۔ آزادکشمیر میں برفانی تودہ گرنے اور دیگر مقامات پر برف باری اور بارش سے ہونے والے حادثات کے نتیجے میں سو سے زاید افراد جاں بہ حق ہوگئے۔ آزاد کشمیر میں نیلم سرگن میں برفانی تودے گرنے سے سیری اور دبکوالی گاوں پورے دب گئے ، 130مکانات تباہ ہوئے، 67 افراد جاں بہ حق ہوئےاوردرجنوں زخمی ہوگئے۔ بلوچستان میں بارش اور برف باری کا 30سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ،وہاں مختلف حادثات میں21افراد جاں بہ حق ہوئے۔
جنوری میں بلوچستان میں بھی موسمِ سرما کی معمول سے زیادہ شدت نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ۔ پی ڈی ایم اے بلوچستان کے مطابق بارش کے دوران ژوب ، پشین اور خانوزئی میں چھتیں گرنے کے واقعات میںپانچ بچوں سمیت بیس افراد جاں بہ حق ہوئےتھے۔ وزیراعلی بلوچستان جام کمال کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی تاریخ میں شاید اتنی شدید برف باری پہلےکبھی نہیں ہوئی تھی،اس لیے مشکل صورت حال کا سامنا ہے ۔
ادہر گلگت بلتستان میںجنوری کے تیسرے ہفتے میں کئی فیٹ تک برف کی تہہ جم چکی تھی جس کی وجہ سےبالائی علاقوں کی رابطہ سڑکیں بند ہوگئی تھیں ، دیامر اور استور میں شدید برف باری کے بعد اسنوایمرجنسی نافذ کی جاچکی تھی ۔ گلگت بلتستان میں برف باری کا پچاس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیاتھا۔ چھتیس گھنٹے تک ہونے والی مسلسل بارش اور برف باری کی وجہ سے ہنزہ اور نگر میں ایمرجنسی نافذ اور تمام سرکاری اداروں کو الرٹ کردیا گیاتھا۔وہاں بھی جانی اور مالی نقصانات ہوئے۔چترال میں ڈھائی فیٹ برف پڑنے کے بعد لواری ٹنل بند ہوگئی تھی۔
یکم جون کو گلگت سے خبر آئی تھی کہ شسپر گلیشیئر ایک مرتبہ پھر پگھلنا شروع ہونے سے ہنزہ کے گاؤں حسن آباد میں دریا کے بہاؤ میں طغیانی آگئی جس کے باعث متعدد افراد دربدر اور ایک زیر تعمیر بجلی گھر کو نقصان پہنچا۔حسن آباد نالے میں پانی کی سطح میں اضافے سے نہروں کو نقصان پہنچا اور شاہراہ قراقرم کا ایک ٹکڑا بہہ گیا۔سیلاب نے دو میگا واٹ کے بجلی گھر، خالی اور کاشت شدہ زمین، نالے کے ساتھ ،موجود درختوں اور وسطی ہنزہ کے مختلف دیہات میں پینے اور آب پاشی کےپانی کی لائنوں اور نہروں کو نقصان پہنچایاتھا۔
جولائی کی اُنّیس تاریخ کو خبر آئی کہ چترال کی وادی گولن گول میں گلشیئر پھٹنے سے سیلاب نے تباہی مچا دی۔ چترال میں واقع گولن گول ہائیڈل پاور پلانٹ کو بھی نقصان پہنچا جس کے بعد پاور پلانٹ کو ہنگامی طور پر بند کرنا پڑاتھا۔ چترال شہر سے تقریباً 80 کلومیٹر دور گولن ویلی میں واقع گلیشیئر اچانک پھٹ گیا جس کے نتیجے میں سیلاب کا ایک بہت بڑا ریلا نیچے گولین گائوں کی طرف آیا اوراٹھارہ مکانات، کھڑی فصلوں ،باغات پینے کے پانی کی لائن اور تین مقامات پر پلوں کو بہا کر لے گیا ۔
پندرہ اگست کو چترال کے علاقے اپر یار خون لشٹ کے مقام پر گلیشیئرپھٹ جانے سے ندی نالوں میں سیلاب آگیا تھا۔اس واقعے میںایک لڑکی جاں بہ حق ہوئی اورپچّیس گھروں کو نقصان پہنچاتھا۔ سیلابی ریلے میںسترہ گھر مکمل طور پر بہہ گئے اورآٹھ کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔
مئی کے مہینے میں پاکستان کے میدانی علاقے بالخصوص بالائی سندھ اور جنوبی پنجاب کے علاقےشدید گرمی کی لپیٹ میں رہےاور سندھ کے شہروں جیکب آباد اور موئن جو دڑو میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا۔پھرملک میں جون کے علاوہ اکتوبر کے مہینے میں بھی خوب گرمی پڑی۔اگست میں ہمیں شدید بارشوں نے آلیا۔ابتدا میں محکمہ موسمیات نے درمیانے درجے کی بارشوں کی پیشں گوئیاں کیں۔ تاہم اگست کے تیسرے ہفتے میں بارشوں کے سلسلوں میں شدت آنے لگی اور ملک بھر میں ریکارڈ بارش ہوئی۔تقریباً پورا ملک شدید بارشوں کی لپیٹ میں آیا اور کم از کم دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں بارش برسنے کے سو سالہ ریکارڈ ٹوٹے ۔
آسمان برسا اور خوب برسا اور زمین پر رہنے والوں کے لیے مشکلات، مسائل اور نقصانات کی وجہ بنا۔ شہری علاقوں ، خصوصاً بڑے شہروں میں نقصانات کا حجم زیادہ رہا ۔پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ سے اموات ہوئیں اوررہائشی مکانات اور دوسری عمارتوں کو نقصان پہنچا ۔ ملک کے میدانی حصوں میں کئی نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔بارش کا پانی گھروں میں گھس گیا۔ سڑکیں نہربن گئیں۔ گاڑیاں ڈوب کر بے کار ہو گئیں۔
قیمتی انسانی جانوں کا ناقابل تلافی نقصان بھی ہوا۔کراچی میں اربن فلڈنگ نے کا فی نقصان کیابلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کراچی کو ڈبودیا۔یہ بارشیں شروع ہونے سے پہلے پاکستان کے طول و عرض میں شدید گرمی پڑ رہی تھی ۔ جولائی اور اگست کے شروع تک ملک بھر میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت چالیس ڈگری سیلسیس کو چھوتا رہا۔ کئی علاقوں میں پارہ پچاس کے ہندسے کے قریب بھی پہنچا تھا ۔بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث مختلف مقامات پرکئی دیہات زیر آب آگئے تھے۔
کراچی میں طوفانی بارش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے کے لیے فوج اور سندھ رینجرز نے امدادی کارروائیوں کے لیے شہری انتظامیہ کی مدد کی۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شدید بارشوں کے بعد سیلابی صورت حال سے نمٹنے کے لیے صوبے میں رین ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔
نومبر کے پہلے ہفتے سے پنجاب کے دیگر شہروں کی طرح لاہور اور اس کے گردو نواح میں بھی کہیں ہلکی اور کہیں گہری اسموگ کا سلسلہ شروع ہوگیا تھاجس کے باعث شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔حکومت پنجاب نے چودہ اکتوبر کو اسموگ کو آفت قرار دے دیاتھا۔
جنگلات میں آگ
اگست کےمہینے میں خوف ناک آگ نے ایمزون کے جنگل میں تباہی مچادی۔بائیس اگست کو برازیل کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسپیس ریسرچ (آئی این پی ای) نے بتایا کہ جنوری تا اگست 2020 ایمزون کے جنگلات میں 72 ہزار مرتبہ آگ کے شعلے بھڑکے۔ دنیا کے سب سے بڑے بارانی جنگل میں آتش زدگی پر دنیا چیخ اٹھی اور فرانس میں جی سیون کے اجلاس میں یہ اہم موضوع زیر بحث آیا۔
امریکا کی مغربی ریاستوں کے جنگلات میں لگنے والی آگ نےبھی بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔آتش زدگی سے تینتیس افراد ہلاک اور درجنوں لاپتا ہو گئے۔ اوریگون،کیلی فورنیا اور واشنگٹن کے جنگلات میںلگنے والی آگ بے قابو ہوئی تو ہزاروں ایکڑ پر مشتمل جنگلات اور زرعی اراضی جل کر راکھ ہو گئی۔سب سےزیادہ یعنی چوبیس مقامات پر آگ کیلی فورنیا میں لگی۔ اس کے علاوہ واشنگٹن میںپندرہ مقامات ، اوریگون میں چودہ اور ایداہو میںبارہ مقامات پر آگ لگی۔الاسکا، کولوراڈو، نیواڈا، نیو میکسیکو، اتاہ اور وائیو مینگ میں بھی مختلف مقامات پر آگ لگی۔
ستمبر میںدشت کے جنگلات میں آگ لگنے سے ہزاروں درخت جل گئے۔بلوچستان کے حکام کا کہنا تھا کہ ضلع کیچ کے علاقے دشت کے جنگلات میں ہونے والی آتش زدگی کے باعث ہزاروں قیمتی اور پھل دار درخت جل کر راکھ ہوگئے پرندے بھی جل کر مرے ۔یہ آگ چالیس کلومیٹرز تک پھیلی۔
شجرکاری کا منصوبہ اور تنازعات
اگست کے مہینے میں وزیر اعظم پاکستان، عمران خان نے اسلام آباد میںپودا لگاکرملک میں ایک ہی دن میں پینتیس لاکھ پودے لگانے کی شجرکاری مہم کا آغاز کیا۔اس موقعے پر انہوں نے کہا کہ اگر شجر کاری نہ کی گئی اور یہی صورت حال رہی تو ملک ریگستان بن جائے گا۔واضح رہے کہ ورلڈ بینک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں ایسے چھ اضلاع کی نشان دہی کی ہے جہاں اگر شجرکاری نہ کی گئی تو وہ 2050تک ریگستان بن جائیں گے۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کے مطابق حکومت نے جو دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ بنایا ہے اس کے لیے ہدف پانچ برس کا ہے۔منصوبے کے مطابق پہلے تین سال میں 3.2 ارب درخت لگائے جائیں گے۔ اس وقت ملک میں کل 30 کروڑ پودے نرسریوں میں موجود ہیں۔جتنا اسٹاک ہو گا اس حساب سے یہ شجر کاری مہم آگے بڑھے گی۔ ہدف کے مطابق اگلے سال جون تک ایک ارب درخت لگا دیے جائیں گے۔ یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے دسمبر تک 20 کروڑ درخت لگائے جائیں گے اور پھر مزید 30 کروڑ درخت جون تک لگا دیے جائیں گے۔ملک امین اسلم کے مطابق اس وقت تک پاکستان پچاس کروڑ درخت لگا چکا ہے۔جو درخت لگائے جائیں گے ان میں سےکم از کم دس فی صد پھل دار ہوں گے۔
یہ منصوبہ بلاشبہ بہت اعلی کہا جاسکتا ہے، لیکن ماضی میں وزیر اعظم عمران خان کے بلین ٹری سونامی منصوبے پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ جن میں سے ایک بڑا سوال یہ تھا کہ ملک میںایک ارب درخت نہیں لگائےگئے، مگر حکومت یہ دعوے کر رہی ہے۔یاد رہے کہ پاکستان کے صوبے خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے اور مجموعی طورپر جنگلات کا رقبہ بڑھانے کے لیے پہلی دفعہ شروع کیے گئے 'بلین ٹری سونامی منصوبے کی آڈٹ رپورٹ میں وسیع پیمانے پر بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کے انکشافات سامنے آئے تھے۔
اب حکومت تسلیم کرتی ہے کہ اس حوالے سے شفافیت کا نظام وضح کرنے کی ضرورت تھی اور اس وقت صوبے میں کم درخت لگائے گئے تھے۔اسی ضمن میں آٹھ اکتوبر کو یہ خبر آئی کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی خصوصی آڈٹ رپورٹ میں خیبر پختون خوا کے بلین ٹری سونامی منصوبے میںاکتالیس کروڑ روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
پھر یکم دسمبر کو سپریم کورٹ نے بلین ٹری سونامی منصوبے کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا تھا۔ سپریم کورٹ نے دریاؤں، نہروں کے کناروں پر شجر کاری سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران بلین ٹری سونامی منصوبے کا نوٹس لیتے ہوئے اس حوالے سے تمام ریکارڈ طلب کرلیاہے۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے دریاؤں، نہروں کے کناروں پر شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
برقی گاڑیاں،بڈو،بنڈال اور سویا ڈسٹ
جون میں پاکستان میں مقامی سطح پر برقی گاڑیاں بنانے سے متعلق سینیٹ میں پہلی مرتبہ الیکٹریکل وہیکل پالیسی منظور کی گئی۔قومی اقتصای کونسل نے بھی پہلی قومی الیکٹرک وہیکل پالیسی کی منظوری دی۔جولائی میں کراچی کے قریب واقع دو جزائر، بڈّو اور بنڈل کی ملکیت کا تنازع کھڑا ہوا اور وفاقی اور سندھ کی حکومت کے درمیان اس معاملے پر رسّہ کشی جاری رہی۔لیکن ان جزائر کا معاملہ پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا تھا،بلکہ ایسا تیسری مرتبہ ہوا ۔ اس مرتبہ بھی یہاں جدید شہر بسانے کا منصوبہ سامنے آیا تھا ۔
اطلاعات کےمطابق موجودہ وفاقی حکومت کا منصوبہ ہے کہ ان جزائر پر بیس ارب ڈالرز مالیت کی میگا سٹی اسکیمز شروع کی جائیں گی۔یہ ایک اہم ماحولیاتی مسئلہ بھی تھا۔قدرتی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم ،ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر کی پاکستان شاخ کی جانب سے 2008میں کیے جانے والے سروے کے مطابق یہاں مچھلیوں کی چھیانوے، پرندوں کی چوّن اور سمندری ڈولفن اور کچھووں کی تین انواع پائی جاتی ہیں اورتین ہزارتین سو اننچاس ایکڑ رقبے پر تمر کے جنگلات ہیں۔ماہرینِ ماحولیات کے مطابق بڑھتی ہوئی آلودگی کے دباؤ سے اس جگہ کاماحولیاتی نظام پہلے ہی بہت خراب ہے جو کنکریٹ کی تعمیرات کی وجہ سے شدت اختیار کر جائے گا ۔
فروری کے اواخر میں کیماڑی کے علاقے میں پُر اسرار انداز میں چودہ افراد جاں بہ حق اور سیکڑوں کےمتاثر ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ سامنے آنے والے حقائق کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ کیماڑی میں پیش آنے والی صورتِ حال کی ذمّے دار سویا ڈسٹ تھی۔ اطلاعات کے مطابق سویا بین سے لدا جہازجب برتھ پر آیا تو اس کی ڈسچارچنگ مناسب طریقے سے نہیں ہوئی ۔
لہذا سویا ڈسٹ اڑی جس کی وجہ سے لوگوں کا نظامِ تنفّس متاثر ہوا۔یہ ایک ماحولیاتی مسئلہ تھا،لیکن تادمِ تحریر اس بارے میں کوئی حتمی سرکاری موقف سامنے نہیں آیا تھا۔
ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی اورگریٹ بیریئر ریف
دسمبر کی آٹھ تاریخ کو یہ خبر آئی کہ نیپال اور چین نے مشترکہ طور پر اعلان کیا ہے کہ دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی میں، پہلے کے مقابلے میں 0.86 میٹر کا اضافہ ہوا ہے۔
اکتوبر کی چودہ تاریخ کو یہ خبر آئی کہ آسٹریلیا میں کی جانے والی تحقیق سےپتا چلا ہے کہ 1995 کے بعد سے آب و ہوا میں تبدیلی اور سمندر کے درجۂ حرارت میں اضافے کے باعث گریٹ بیریئر ریف میں آدھے مونگے ختم ہوگئے ہیں۔سائنس دانوں کے مطابق اس ماحولیاتی نظام میں ہر قسم کے مونگے ختم ہو رہے ہیں ۔