• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو درپیش پہاڑ جیسے مسائل پر نظر ڈالی جائے تو ہمارے پاس لمحہ بھر کے لئے بھی غیرسنجیدہ کھیل تماشے کا وقت کا نہیں۔ بلاشبہ اولین ذمہ داری نومنتخب حکومت کی ہے کہ وہ ملک کو ہمہ رنگ بحرانوں سے نکالنے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کرے۔ پاکستان، بالخصوص پنجاب کے عوام نے مسلم لیگ (ن) پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ پنجاب کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اسے موقع دیا گیا ہے کہ اب وہ پورے ملک کے مسائل کی بخیہ گری ہے۔ یقینا نواز شریف کو ان مسائل کے حجم، ان کی حدت اور شدت کا اندازہ ہے اور میری معلومات کے مطابق انہوں نے ابھی سے مختلف شعبوں کے ماہرین کو متحرک کردیا ہے۔ صنعتی و تجارتی حلقوں نے نواز شریف کی آمد کو نئے روشن امکانات کا دریچہ قرار دیا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج صرف اس خبر سے بلند ترین سطح کو چھونے لگا ہے۔ گمان کیا جارہا ہے کہ توانائی کے بحران کو اولین ترجیح خیال کیا جائے گا جس نے نہ صرف عام آدمی کی زندگی اجیرن بنادی ہے بلکہ ملکی معیشت کو بھی مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ پندرہ ہزار ارب روپے کے قرضوں کا ہمالیہ ہمارے سروں پہ لدا ہے، ادائیگیاں شروع ہونے کو ہیں۔ حکومت کو وجود میں آتے ہی بجٹ دینا ہے۔ تجوری میں صرف گیارہ ارب ڈالر پڑے ہیں اور دہشت گردی کا اژدھا بدستور پھنکار رہا ہے۔
نواز شریف حکومت سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ پورے عزم کے ساتھ قومی تاریخ کے شدید ترین بحرانوں سے نبٹنے کے لئے سنجیدہ اور پُرعزم سفر کا آغاز کرے گی لیکن کیا سب کچھ حکومت پر چھوڑ دیا جائے؟ کیا یہ پارلیمینٹ کا حصہ بننے والے تمام سیاستدانوں کی اجتماعی ذمہ داری نہیں؟ کیا یہ معاشرے کے تمام طبقات پر لازم نہیں آتا کہ وہ اپنا کردار ادا کریں؟ کیا میڈیا کو اسی طرح چونچال پن، تماشا گری اور سرکس بازی میں لگا رہنا چاہئے یا پاکستان کو اس دلدل سے نکالنے کے لئے ایک سنجیدہ ، مثبت اور تعمیری فضا تخلیق کرنے میں مدد دینی چاہئے؟ علامہ اقبال نے ایسی قوم کو ”زیاں کار“ اور ”سود فراموش“ قرار دیا ہے۔ وہ جو خود اپنے زیاں پہ تلی رہتی ہے اور جو بھول جاتی ہے کہ اس کے مفاد کا تقاضا کیا ہے۔
انتخابات کا انعقاد کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔ پاکستانی قوم نے جمہوریت کے ساتھ گہری وابستگی ہی کا نہیں ،شعور کی پختگی کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔دہشت گردی کی لہر نے براہ راست انتخابی مہم کو نشانہ بنایا۔ کینیڈا کے شیخ الاسلام نے ایسا اودھم مچایا کہ جمہوریت کی بساط لپٹتی دکھائی دینے لگی۔ خوف و ہراس کی ایسی فضا پیدا کردی گئی کہ انتخابات کا انعقاد ناممکن دکھائی دینے لگا، بے یقینی کی تلوار آخری دن تک لٹکتی رہی لیکن سلطانیٴ جمہور نے پوری قوت سے انگڑائی لی،ساٹھ فیصد کے قریب عوام گھروں سے نکلے اور دو ٹوک انداز میں اپنا فیصلہ صادر کردیا۔ بلاشبہ 11مئی جمہوریت کی فتح عظیم کا دن تھا۔
کہنے کو کچھ بھی کہہ لیا جائے، دھاندلی یا فراڈ کی ٹھوس شکایات صرف کراچی سے سامنے آئی ہیں جہاں علی الصبح ہی ہا ہا کار مچ گئی تھی کہ انتخابی عمل کو زور آوروں نے یرغمال بنا لیا ہے۔ باقی تینوں صوبوں میں بالعموم حالات پُرسکون رہے۔ اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان تھا۔ کسی ایک حلقے میں بھی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی کہ انتخابی عمل رک گیا ہو یا کسی ایک جماعت نے ”دھاندلی“ کو جواز بناکر بائیکاٹ کر دیا ہو۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ نئے میکانزم کے تحت جعلی ووٹنگ یا دھاندلی ممکن ہی نہیں اور اگر کوئی زور زبردستی کرے تو چھپا نہیں رہ سکتا۔ نتائج بھی مختلف معتبر اداروں کے جائزوں کے عین مطابق نکلے۔ میں کسی دن تفصیل سے ذکر کروں گا کہ آئی آر آئی اور گیلپ پاکستان کے جائزوں میں جو کچھ کہا گیا تھا، نتائج اس کے کس قدر قریب تر ہیں۔ خواب نگر میں خوش خرامیاں کرنے والے قلم کاروں سے قطع نظر، زمین سے ناتا رکھنے اور عام لوگوں میں رہنے والوں کا اندازہ بھی یہی تھا کہ اربوں روپے کی ریل پیل اور میڈیا کی زبردست سرپرستی کے باوجود ”صاف چلی شفاف چلی“ دو درجن کے لگ بھگ سیٹیں ہی لے سکے گی۔ تمام جائزے بتارہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کا اسکور ایک سو سے اوپر ہی رہے گا۔ سامنے کی دیوار پر لکھا دکھائی دے رہا تھا کہ پیپلز پارٹی الا ”ق“ لیگ تاریخ کے جبر کا لقمہ تر ہونے جارہی ہیں اور 12مئی ان کے لئے یوم مرگ بن کر طلوع ہوگا۔
سب کچھ توقع اور سائنسی بنیادوں پر کئے گئے جائزوں کے عین مطابق رہا۔ تحریک انصاف نے زبردست انگڑائی لی۔ خیبر پختونخوا کی اکثریتی جماعت بن جانے کے علاوہ اس نے پنجاب سے بھی بہت بڑی تعداد میں ووٹ لئے۔ اس بات کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ وہ ایک بڑی قومی جماعت کے طور پر ابھری ہے۔ عمران خان نے زبردست تحرک پیدا کیا اور انتخابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے کر جمہوری مشق کو معتبر بنایا۔ 10مئی کو کوئی درجن بھر دوستوں کے ہمراہ کھانا کھاتے ہوئے جب میں نے پنجاب کے انتخابات پر گہری نظر رکھنے اور ایک ایک حلقے کی انٹیلی جنس رپورٹوں، عوامی حلقوں اور عمومی جائزوں تک رسائی رکھنے والے ایک بیوروکریٹ سے پوچھا کہ ”پنجاب میں تحریک انصاف کتنی سیٹیں لے پائے گی؟“ اس نے کوئی لفظ چبائے بغیر یقین کامل سے کہا ”چھ سے آٹھ“۔ سو اگر پی ٹی آئی کے سات ارکان کامیاب ہوگئے ہیں تو اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔
میں نے انتخابات سے ہفتہ بھر قبل ابصار عالم کے ٹاک شو میں، جناب اعجاز شفیع گیلانی اور برادرعزیز رؤف کلاسرا کی موجودگی میں کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو شکست ہوگئی تو وہ مان لیں گی۔ خطرہ صرف یہ ہے کہ تحریک انصاف کے خوابوں کا شیش محل چکنا چور ہوگیا تو کیا ہوگا۔ میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا تھا کہ پی ٹی آئی نے جس طرح کا غیرسنجیدہ مزاج اپنا لیا ہے، اس کے پیش نظر مجھے یقین ہے کہ وہ طوفان سر پہ اٹھائے گی۔ ایسا ہی ہوا یہ یقینا پاکستان کی کم نصیبی ہے۔ خان صاحب نے بستر عالت سے دھاندلی اور وائٹ پیپر کی نوید سنائی تو نونہالانِ انقلاب کا لہو جوش مارنے لگا اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ رات ایک ٹی وی شو میں تحریک کے رہنما فاروق امجد میر نے کہا ”انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے نیشنل اسٹیبلشمنٹ سے مل کر جو منصوبہ تیار کیا تھا، الیکشن کمیشن نے اسے عملی جامہ پہنادیا۔ ”مجھے بہت دکھ ہوا۔ صرف اتنا کہہ پایا کہ خدارا قوم کے مینڈیٹ کی توہین نہ کیجئے۔
شہباز شریف جب خان صاحب کی عیادت کے لئے گئے تو کارکنوں نے مخالفانہ نعرے بازی کی اور خان صاحب نے بھی ملنے سے انکار کردیا۔ وہ ان کے اہل خانہ سے مل کر واپس آگئے۔ عین اس وقت خان صاحب نے جناب نجم سیٹھی اور رحمن ملک سے ملاقات فرمائی۔ اس کے باوجود نواز شریف نے خان صاحب کے ہاں جاکر مشرقی اقدار کی پاسداری ہی نہیں کی، تلخیوں کی اس آگ پر بھی پانی ڈالا ہے جو مسائل میں گھرے پاکستان کا الیمہ بن سکتی ہیں۔ نوازشریف نے مولانا فضل الرحمن، آفتاب شیر پاؤ اور متعدد آزاد ارکان کی واضح حمایت اور عددی اکثریت کے باوجود دو ٹوک فیصلہ سنا دیا کہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانا تحریک انصاف کا حق ہے۔
عمران خان کو خواب نگری کے طلسماتی ماحول سے نکل کر، خوئے تصادم یہ قابو پاتے اور اسلوب کلام کے کھردرے پن کو ہموار کرتے ہوئے، ایک بڑے قومی لیڈر کے طور پر اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ خیبرپختونخوا میں ایسی مثالی حکومت قائم کرنا ہوگی کہ پاکستانی عوام ان کی قیادت و سیادت کو تسلیم کرلیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ تبدیلی اور انقلاب کے سفر کا آغاز انہیں اپنے مزاج، افتاد طبع اور نونہالانِ انقلاب کی تربیت سے کرنا ہوگا؟
تازہ ترین