جیسے جیسے دنیا کووِڈ-19وبائی مرض کے اثرات سے نکلی تو دنیا بھر کی معیشتیں دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئیں لیکن اس وبا سے پیدا ہونے والے خلا کے اثرات اب تک دیکھے جارہے ہیں۔ کووڈ-19کے باعث سفری پابندیاں، کاروبار کی بندش، کنٹینر شپنگ، سپلائی چین میں رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ روس۔ یوکرین تنازعہ سے پیدا ہونے والے مسائل دنیا نے عشروں میں نہیں دیکھے تھے۔ اس صورتِ حال کے باعث 2022 میں دنیا کو بلند افراطِ زر جسے عام زبان میں مہنگائی کہا جاتا ہے، کا سامنا رہا۔
ایک بینک الاقوامی بینک سے وابستہ چیف اکانومسٹ کہتے ہیں، ’’یہ خیال کیا جاتا ہے کہ افراط زر کا ایک ہی نمبر ہے جو ہم سب کو ایک ہی طرح سے متاثر کرتا ہے، تاہم یہ سچ نہیں ہے۔ عمر رسیدہ افراد اور کم آمدنی والے افراد کو مہنگائی زیادہ متاثر کرتی ہے اور اس کی وجہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جو روزانہ یا ماہانہ بنیادوں پر ان کو خریدنا پڑتی ہیں۔ عمر رسیدہ افراد کو صحت کی دیکھ بھال پر زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے، کم آمدنی والے لوگ اپنی آمدنی کی غیر متناسب شرح خوراک، توانائی اور رہائش پر خرچ کررہے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ مہنگائی سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کا امیر ہونا ضرور ی ہے‘‘۔
مہنگائی کی وجہ کیا ہے؟
قیمتوں کا تعین طلب اور رسد سے ہوتا ہے۔ بلند افراط زر اس بات کی علامت ہے کہ معیشت میں اشیا اور خدمات کی طلب ان کی رسد سے زیادہ ہے۔ تاہم یہ اشیائے صرف کی کمی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ افراط زر میں اخراجات زیادہ اور قوت خرید میں کمی آجاتی ہے، اس کی بنیادی وجہ لوگوں کا عام ردعمل ہوتا ہے کہ قیمتوں میں کمی کا انتظار کرنے کی بجائے ابھی خریداری کرلینی چاہیے۔ چونکہ پیسے کی قدر میں کمی کا امکان ہوتا ہے، ایسے میں وہ یہ بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسی اشیا کا ذخیرہ کریں جن کی قیمت کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔
اس صورتحال میں لوگ اپنے فریزر کو بھرنے، فیول بھروانے اور اپنے بڑھتے ہوئے بچوں کے لیے جلد نئے کپڑے خریدنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ مہنگائی بعض اوقات حکومتی اخراجات کی وجہ سے رقم کی گردش میں اضافے کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ روزگار کے مواقع اور اجرت میں اضافے، سستے قرضے اور گھر میں استعمال ہونے والی اشیا کی مانگ میں تبدیلیوں کی وجہ سے اشیا اور خدمات کی طلب بہتر رہتی ہے۔
مہنگائی کے سرکاری اعدادوشمار اور عوامی رائے میں فرق
صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے صارفین کو لگتا ہے کہ ان کے ملک میں مہنگائی کی شرح پیش کیے گئے افراط زر کے اعدادوشمار سے زیادہ ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ اس حوالے سے دو معاشی تصورات ہیں، جن کے ذریعے اس صورتِ حال کو سمجھنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلا تصور نقصان سے بچنا (رِسک ایورژن) ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہم جینیاتی طور پر اچھی خبروں سے زیادہ بری خبروں کو یاد رکھنے اور اس پر ردعمل ظاہر کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
لہٰذا نقصان سے بچنے کی خصلت کی وجہ سے، لوگوں کو قیمتوں میں اضافہ یاد رہتا ہے اور وہ قیمتوں میں کمی کو بھول جاتے ہیں۔ مہنگائی سے متعلق دوسرا تصور ’’تعدد تعصب‘‘ (فریکونسی بایَس) ہے اور یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ لوگ اس چیز کی قیمت یاد رکھتے ہیں جو وہ اکثر و بیشتر خریدتے ہیں۔ وہ ان اشیا کی قیمتوں میں کمی سے زیادہ اُن میں اضافہ دیکھتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں جن اشیا کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا (توانائی اور خوراک)، ان میں یہ خصوصیات موجود ہیں جبکہ ہمیں فرنیچر، الیکٹرانکس وغیرہ میں افراط زر کی شرح اس حساب سے نظر نہیں آتی جیسے کہ خوراک اور توانائی میں ہوتی ہے۔
پالیسی کے ذریعے مہنگائی پر قابو پانا
مہنگائی میں حکومت کی مالیاتی پالیسی (فِسکل پالیسی) اور مرکزی بینک کی زری پالیسی (مانیٹری پالیسی) کا کردار ہوتا ہے۔ ہرچندکہ ماہرین اسے زیادہ تر زری پالیسی کے تناظر میں دیکھتے ہیں لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر بین الاقوامی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کو روکنا ہے تو اس میں امریکا کا مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کچھ زیادہ نہیں کرسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہنگائی قابو کرنے میں مرکزی بینک بھی ایک حد تک ہی کردار ادا کرسکتا ہے۔ البتہ، مرکزی بینک قرض کی لاگت بڑھا کر چیزوں کی قیمتیں کم کرسکتا ہے یا ان کے بڑھنے کی رفتار کو سست کرسکتا ہے۔
قرض کی لاگت بڑھانے کا مطلب شرح ِ سود میں اضافہ کرنا ہے۔ جب شرحِ سود میں اضافہ ہوتا ہے تو لوگوں کی زیادہ چیزیں خریدنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے، اس طرح طلب اور رسد کے درمیان توازن پیدا کیا جاتا ہے جس سے مہنگائی کے دباؤ میں کمی آتی ہے۔ اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ شرحِ سود میں اضافے سے لوگوں کو یہ ترغیب ملتی ہے کہ وہ اپنی قابلِ خرچ آمدنی کو خرچ کرنے کے بجائے بچتوں میں لگائیں۔ اس کے باوجود بھی ہمیں زری پالیسی کی محدودیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ زری پالیسی کے ذریعے مختصر مدت کے لیے طلب کو کم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مختصر مدت کے بعد کیا ہوگا؟
خام تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے اثرات
2020ء میں عالمی وبائی مرض جس وقت اپنے عروج پر تھا، اس وقت تاریخ میں پہلی بار خام تیل کی قیمتیں صِفر سے بھی نیچے چلی گئی تھیں، کیوں کہ لاک ڈاؤن کے باعث خام تیل کی طلب تقریباً ختم ہوکر رہ گئی تھی۔ اس کے بعد، عالمی معیشت کا پہیہ جیسے جیسے پھر سے چلنا شروع ہوا، خام تیل کی قیمتوں کو 100 ڈالر فی بیرل کی سطح تک جاتے دیکھا گیا۔ عالمی معیشت جیسے جیسے زور پکڑتی ہے، خام تیل کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے اور نتیجتاً اس کی قیمت بڑھتی ہے۔
عالمی معیشت میں خام تیل کا حصہ 3فی صد ہے، اس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی مجموعی صورتِ حال مزید خراب ہوتی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اس لحاظ سے بھی زیادہ اثر دِکھاتا ہے کیونکہ یہ تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے تیل کی قیمتوں میں اضافے سے ذرائع آمدورفت مہنگے ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں تمام اشیا اور خدمات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔
افراط زر ہم پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟
ایسے افراد جن کی آمدنی یا تو ساکن رہتی ہے یا ان کی آمدنی میں اضافہ، مہنگائی کی شرح میں ہونے والے اضافے سے کم ہوتا ہے وہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جبکہ ان افراد کو فائدہ پہنچ سکتا ہے جن کی آمدنی مہنگائی کے مطابق ہوتی ہے یا جو بہتر آمدنی کے حصول کے لیے کچھ کرتے ہیں۔ لگی بندھی آمدنی والے افراد پر مہنگائی اکثر زیادہ اثرانداز ہوتی ہے۔ کچھ اثاثوں کی قیمتیں افراط زر کے مطابق رکھنا بہتر ہوتا ہے۔ ہاؤسنگ، اسٹاک، آرٹ اور قیمتی دھاتوں کی قیمتوں کے بڑھنے کا امکان ہوتا ہے، جبکہ فکسڈ قیمتوں جیسے نقدی اور بانڈز کے اثاثے نہیں بڑھتے۔
جب تک کہ اجرت یا دیگر اثاثوں کی قیمتیں برابر رہیں، افراط زر قرضوں کی ادائیگی کو آسان بنا سکتا ہے۔ مرکزی بینکوں اور حکومتوں کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا شرح سود میں اضافہ کرکے، اخراجات میں کمی یا ٹیکسوں میں اضافہ کرکے طلب اور کساد بازاری کو روکنا ہے، یا پھر انتظار کیا جائے اور امید کی جائے کہ رسد کی وجہ سے ہونے والے افراط زر کا دباؤ خود ہی کم ہوجائے گا۔
ہم صرف یہ امید کر سکتے ہیں کہ مہنگائی کے اس دور کو ختم کرنے کے لیے بڑی کساد بازاری نہیں دیکھنا پڑے گی اور ہم جمود کی شرح (stagflation) سے بچے رہیں۔ جمود کی شرح، جو کہ افراط زر کی زائد شرح اور بے روزگاری میں بےپناہ اضافے کا مجموعہ ہے، اس نے 1970ء کی دہائی کے آخر میں دنیا کی بہت سی معیشتوں کو متاثر کیا تھا۔