• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ( عمر چیمہ ) ایک ہرجانے کے مقدمے میں جب ثالثی جج کی جانب سے براڈ شیٹ ایل ایل سی کے حق میں فیصلہ سنائے جانے سے قبل اثاثوں کی بازیابی کے لئے اس فرم نے دوران جرح نیب کے ایک ایک دعوے کو کھول کر رکھ دیا ۔

 فرم نے جو تفصیلات فراہم کیں اس میں جج سے استدعا کی گئی کہ آفتاب شیر پائو ، ایڈمرل (ر) منصور الحق اور شون گروپ کیسز میں فراہم کی جا نے والی معلومات سیاسی اور ذاتی فائدے کے لئے استعمال کیا گیا ،جج سر انتھونی ایوانز نے ثالثی کے لئے کلندن میں چارٹرڈ انسٹی ٹیوٹ آربی ٹریٹر کی خدمات حاصل کیں۔

 اس نے بھی الزامات کو بے بنیاد قرار دیا کہ 1999 میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد اکائونٹس منجم کئے جانے کےبعد نواز شریف اور سیف الرحمان نے 50 کروڑ ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی ۔

 نیب کا کہنا ہے کہ اس نے اسحاق ڈار کے خلاف تحقیقات اس لئے نہیں کی کیونکہ وہ شریف برادران کے خلاف تحقیقات میں نیب کی معاونت کر رہے تھے ۔ نیب نے 2000 میں براڈ شیٹ سے اثاثوں کی بازیابی کے لئے معاہدہ کیا تاکہ 200 افراد کی ناجائز دولت کا کھوج لگایا جا سکے ۔

 ان افراد میں سیاست دان ، فوجی افسران اور کاروباری شخصیات شامل تھیں ۔جورقم بازیاب ہوتی اس میں سے 20 فیصد مذکورہ فرم کو دیا جاتا لیکن 2003 میں نیب نے قواعد ضوابط کے بر خلاف یہ معاہدہ منسوخ کر دیا ۔

اس وقت تک براڈ شیٹ نے معروف افراد لیفٹننٹ جنرل (ر) زہاد علی اکبر ، شون گروپ ، ایڈمرل (ر) منصور الحق ، آفتاب شیرپائو اور دیگرکے ثاثوں کا سراغ لگا لیا تھا ۔ 

جولائی 2002 میں براڈ شیٹ نے نیب کو آگاہ کیا کہ اس نے آفتاب شیرپائو کے جرسی کے آف شور بینک میں 35 لاکھ ڈالرز کا سراغ لگایا اور نیب سے کہا کہ وہ فریزنگ آرڈر کے لئے جرسی حکام سے رسمی درخواست کریں ۔ 

اسی اثنا میں ایک عارضی فریزنگ آرڈر جاری کیا گیا۔ لیکن نیب نے اپنے اقدام کی وجوہ سے جرسی عدالت کو آگاہ نہیں کیا ۔

براڈ شیٹ نے نیب کو نیا خط لکھنے کی ہدایت کی لیکن احتسابی ادارے کی جانب سے اس سلسلے میں آگے کچھ سننے میں نہیں آیا ۔اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل فنانس کرائم انوسٹی گیشن طلعت گھمن نے اپنے جواب میں کہا کہ انہوں نے ایک خط کا مسودہ تیار کیا اور ایف بی آر نے اس لا جائزہ بھی لیا لیکن پھر لوئی جواب نہیں آیا ۔

دریں اثنا 2003 میں براڈ شیٹ سے معاہدہ منسوخ کر دیا گیا ۔ جنوری 2004 میں جرسی کے لیگل ڈپارٹمنٹ نے نیب کو تفصیلات معلوقمات فراہم کرنے کے لئے کہا ۔

انہوں نے پیش رفت نہ ہونا پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ جواب نہ ملنے پر فنڈز منجمد کردئے جائیں گے ۔جج نے نوٹ کیا کہ فنڈز منجمد ہوئے اور نہ ہی کوئی جواب آیا ۔

پس منظر میں کیا چل رہا تھا وہ تو طلعت گھمن سے جرح میں سامنے آیا جج کے سامنے اپنے بیان شہادت میں طلعت گھمن نے کہا کہ وہ اس وقت کے چئیرمین نیب جنرل (ر) منیرحفیظ اور آفتاب شیرپائو کے درمیان ملاقات میں شریک رہے جس میں جرسی سے آے والا خط زیر بحث آیا ۔

شیرپائو کے پاس ہمارے سوالات کا کوئی جواب نہ تھا ۔انہیں محسوس ہوا کہ ہم اثاثوں کی بازیابی کے قریب ہیں ۔

2018 میں طلعت گھمن نے بتایا کہ نیب شیرپائو کے خلاف کارروائی اس لئے نہ کر سکا کہ عدالت نے انہیں بری کردیا تھا ، تاہم وہ اس کی وضاحت نہ کر سکے ۔

 اگست 2004 سے نومبر 2006 تک شیرپائو پاکستان کے وزیر داخلہ رہے ۔نیب نے اان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا ۔ 

اگست 2016 میں نیب نے پراسیکیوشن ڈویژن کی سفارش پر تفتیش نا مکمل چھوڑ دی ۔

 اپنے فیصلے میں برطانوی جج نے جرسی کے لیگل آفیسر کا بھی حوالہ دیا کہ وہ پاکستان کی مدد کرنا چاہتے ہیں جوپاکستان کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ 

جج نے کیس کو رجوع کر نے میں نیب کی عدم دلچسپی پر بھی حیرانی کا اظہار کیا ۔ایڈمرل منصور الحق کے کیس میں دو افراد جمیل انصار اور عامر لودھی بھی ملوث تھے ۔

جمیل انصار ٹرانسیکشن میں ملوث تھے اور ان سے تفتیش کے نتیجے میں منصور الحق سے 75 لاکھ ڈالرز بازیاب ہو ئے ۔براڈ شیٹ کو جرسی حکام سے معلوم ہوا کہ جمیل کے بینک اکائونٹ میں 50 لاکھ ڈالرز جمع ہیں ۔ 

جب بتایا گیا تو نیب نے براڈ شیٹ کو یہ کہہ ،کر کارروائی سے روک دیا کہ وہ فرم کا ہدف نہیں ہیں ۔ حالانکہ جمیل انصار جرسی حکام کے سامنے تحریری اعتراف کر چکے تھے ۔ جمیل نے نیب کو 792620 ڈالرز کی رضاکارانہ ادائیگی کی ۔ 

جمیل نے عامر لودھی کو اسلحے کی فراہمی کے معاہدے میں فریق کے طور پر پیش کیا جس میں منصور الحق نے کک بیکس وصول کیں ۔ شون گروپ کے ارکان خاندان بھی بینکوں سے دو ارب روپے کے قرضے کے کیس میں ہدف تھے جس سے بیرون ملک سرمایہ کاری کی گئی اور دیوالیہ قرار پائے ۔

ان کے خلاف فرد جرم ختم کر نے پر انہوں نے شون خاندان نے ایک ارب بیس کروڑ روپے ادا کر نے پر رضامندی ظاہر کی ۔فریقین کے درمیان وجہ نزع اہداف کی فہرست میں اسحاق ڈار کے نام کی شمولیت بھی رہی گھمن کے مطابق نیب نے کبھی اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ اسحاق ڈار رجسٹرڈ ہدف تھے کیونکہ انہوں نے نواز شریف کے خلاف کیس مں نیب کی معاونت کی تھی ۔ 

نیب کی جانب سے فراہم کردہ فائل پر ریفرنس بناتے ہوئے جج نے کہا کہ اس سے قبل فراہم کردہ دستاویز ( 6 نومبر 1999 ) سے معلوم ہو تا ہے کہ 50 کروڑ ڈالرز بیرون ملک منتقل کئے گئے لیکن اس کی کوئی قابل اطمینان شہادت نہیں ہے ۔ یہ ممکن نہیں کہ اتنی بھاری رقم بیگ میں ڈال کر یو اے ای لے جائی جائے نیب فائل کا حوالہ دیتے ہوئے جج نے کہا کہ 29 ستمبر 2002 کوکیس بند کر دینے کی سفارش کی گئی ،کئی انکوائریز کی گئیں لیکن الزامات کے حق میں کوئی ثبوت نہیں ملا لہٰذا فائل بند کر دینے کی سفارش کی جا تی ہے ۔

18 مارچ 2005 کو کیس بند کردیا گیا۔ نیب کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ نیب کی موجودہ قیادت نے براڈ شیٹ کیس سے خود کو الگ کرلیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اپنے کیس کے دفاع کیلئے اس لاء فرم کی خدمات سابق وزیراعظم، اٹارنی جنرل کے آفس اور وزارت قانون کی ہدایات پر لی گئی تھیں۔

تازہ ترین