• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے پُرتشدد مظاہرے نے جو رخ اختیار کیا اس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں جمع ہونے والے ہزاروں مظاہرین نے کیپٹل ہل میں پارلیمان کے اطراف قائم جنگلوں کو پھلانگ کر ڈنڈے، پرچم اور آتشی ہتھیار لہراتے ہوئے پارلیمان میں جاری اجلاس کے باوجود ایوان میں زبردستی گھس کر دنگا فساد توڑ پھوڑ شروع کردی اراکین پارلیمان نے میزوں، کرسیوں کے پیچھے چھپ کر راہ ِفرار اختیار کی یہ سب طوفانِ بدتمیزی شور ہنگامہ عمارت پر حملہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تقریر سے زیادہ بھڑک اٹھا جب انہوں نے مظاہرین کو یہ کہا کہ وہ انتخابات جیت چکے ہیں مگر اس کے برخلاف جوبائیڈن کو فاتح قرار دے کر آپ کے ووٹ کو رد کیا جارہا ہے، آپ کا احتجاج درست ہے۔ 

صدر ٹرمپ نے اپنے نائب صدر مائیک پینس کے حوالے سے کہا کہ مائیک پینس بزول شخص ہے اس نے سینیٹ میں جاکر میرے خلاف بات کی اپنا درست موقف نہیں پیش کیا اور شکست تسلیم کرلی۔ اعداد و شمار جمع کرنے مظاہروں اور جلوسوں میں افراد کی درست گنتی کرنے والے ماہرین کے مطابق کیپٹل ہل میں مظاہرہین کی تعداد بیس سے تیس ہزار سے لگ بھگ تھی مگر مظاہرین شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے اور پُرجوش نعرے بازی کررہے تھے جس سے پورا ماحول شدید ڈرائونا ہوگیا تھا۔ یہ مظاہرہ اور پُرتشدد کارروائیاں دیکھ کر یقین نہیں آتا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے دوسرے لفظوں میں یہ امریکی جمہوری تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن تھا۔

کانگریس اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس کی کارروائی اس دوران جاری تھی جس میں اراکین پارلیمان نے جوبائیڈن کو امریکا کا 46واں صدر اور کملا ہیرس کو نائب صدر بنانے کی توثیق کردی۔ امریکی صدر جوبائیڈن نےا پنے پہلے خطاب میں کہا کہ آج امریکی سیاست کا بدترین دن ہے۔ یہ اندوہناک واقعہ پارلیمان اور جمہوریت پر حملہ ہے۔ ٹرمپ نے امریکی عوام کی آواز دبانے کی کوشش کی ہے۔ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایک سو سے زائد اراکین کانگریس نے ایک مشترکہ بیان میں صدر ٹرمپ کے مواخذہ اور برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ صدر ٹرمپ ایک نااہل اور خودپسند شخص ہیں انہیں مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اعلان کیا گیا کہ آئین کے مطابق 20جنوری کو صدر جوبائیڈن اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، جبکہ صدر ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ 20جنوری کو بائیڈن کی حلف برداری کو تسلیم کرتے ہیں اور مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہیں تاہم انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ نتائج تسلیم نہیں کرتے اور حلف برداری کی تقریب میں شرکت بھی نہیں کریں گے۔ ایک خبر کے مطابق کیپٹل ہل کے چیف کمشنر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

امریکی بزنس گروپ جس میں امریکا کی چودہ ہزار سے زائد کمپنیاں اور بڑے ادارے شامل ہیں، اس نے مطالبہ کیا کہ صدر ٹرمپ کو فوری طور پر برطرف کرکے دفتر سے نکالا جائے۔ عالمی سطح پر واشنگٹن میں ہونے والے پرتشدد مظاہرے انتہا پسندوں کے پارلیمان پر حملے کی شدید مذمت ہوتی رہی۔ تمام حلقوں نے اس واقعہ پر اپنی شدید حیرت اور دکھ کا اظہار کیا اس واقعہ پر ردعمل ظاہر کرنے والے اہم ممالک کے رہنمائوں میں برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی پارلیمان کے ایوان پر حملے کے جو شرمناک مناظر دیکھنے میں آئے وہ قابل افسوس ہیں امریکا ہمیشہ جمہوریت کی حمایت میں کھڑے ہونے کا دعویدار رہا ہے، ایسے میں امید کریں گے کہ امریکا میں اقتدار کی منتقلی کا عمل پرامن طور پر عمل میں لایا جائے گا۔

روس کی پارلیمان کے سربراہ نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی ایوان پارلیمنٹ پر حملے کی تصاویر دیکھ کر ازحد دکھ ہوا۔ لگتا ہے کہ امریکی جمہوریت دو ٹانگوں پر لنگڑا کر چل رہی ہے۔ امریکا کو اب دوسروں کو جمہوریت کا سبق پڑھانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ہے۔ واشنگٹن کےپرتشدد مظاہرے اور شرمناک کارروائیوں نے سب کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے واشنگٹن کے مظاہرے پر کہا کہ صدر ٹرمپ نومبر سے اب تک انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے گریزاں نظر آئے ۔ کیپٹل ہل میں جو کچھ ہوا چھا شگون نہیں ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا کہ واشنگٹن میں جو کچھ ہوا وہ غلط تھا۔ جمہوریت میں عوامی رائے کا احترام کرنا لازمی ہے نہ کہ دبائو ڈال کر عوامی فیصلے کو تبدیل کیا جائے۔ عوام کی رائے کو سننا ضروری ہے۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینس نے کہا کہ کیپٹل ہل کے واقعات چونکا دینے والے ہیں اور کسی صدمے سے کم نہیں ہیں، جمہوری انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔جمہوریت تحمل مزاجی، ایک دوسرے کی رائے کے احترام کا نام ہے یہ لازمی حصہ ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہوئے نے کہا کہ آپے سے باہر مظاہرین کا پرتشدد احتجاج دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ یہ ایک شرمناک مظاہرہ تھا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

زمبابوے کے صدر ماناگوا نے کہا کہ گزشتہ سال صدر ٹرمپ نے زمبابوے پر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں اب امریکا کے پاس دوسروں پر اپنی مرضی تھونپنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ امریکا ہم پر مسلط کی گئیں پابندیاں ختم کرے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ واشنگٹن میں ہونے والے مظاہرہین کے ہنگامے دیکھ کر دکھ ہوا۔ اقتدار کی پرامن منتقلی کا عمل جاری رہنا چاہئے۔ جمہوری عمل کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ ہنگامہ آرائی کے ذریعہ عوامی مینڈیٹ کو تبدیل کیا جائے۔ روس کے وزیر خارجہ نے کہا کہ جو کچھ واشنگٹن میں ہوا یہ امریکا کا اندرونی معاملہ ہے مگر میں اس جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ امریکی جمہوری نظام بوسیدہ ہوچکا ہے جو جدید دور کے عصری تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ اب یہ نظام تشدد اور ہنگاموں کو جنم دیتا ہے۔ امریکی میڈیا بھی سیاسی عمل کا آلہ کار بن چکا ہے۔

بلجیم کی پارلیمنٹ نے پولیس کے سربراہ کو خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی سیکورٹی کا ازسرنو جائزہ لیا جائے تاکہ پارلیمان مکمل تحفظ کے سائے میں اپنی جمہوری ذمہ داریاں پوری کرسکے۔ واضح رہے کہ برسلز میں یورپی یونین کی بھی پارلیمنٹ اور نیٹو کو ہیڈکوارٹر قائم ہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ امریکی جمہوری نازک ہے جس کے ٹوٹنے کا ڈر ہے۔چینی حکومت کےترجمان نے کہا کہ امریکا میں پرتشدد مظاہرہ ہوا ہلاکتوں اور زخمی ہونے کے واقعات سامنے آئے، گزشتہ سال ہانگ کانگ میں بھی بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہرے سامنے آئے مگر ان مظاہروں میں کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا، حالانکہ مظاہرین نے پارلیمان پر بھی حملہ کیا اور ہنگامہ آرائی بھی ہوئی مگر چینی حکومت نے تحمل مزاجی اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔ ہم امریکا میں امن کے خواہاں ہیں۔ امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی نے امریکی مسلح افواج کے سربراہ کو کہا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ صدر ٹرمپ اپنے باقی دنوں میں کسی مہم جوئی سے نہ گزریں اور کسی ملک پر حملے کا حکم صادر نہ کرسکیں۔ ہمیں ہر صورت میں امریکی عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ 

نینسی پلوسی نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ جو پولیس آفیسر مظاہرہ کےدوران زخمی ہوکر چل بسا ہے اس کی تدفین کے وقت واشنگٹن میں قومی پرچم سرنگوں رہے گا اور اس کو پورا پروٹوکول دے کر خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی اور حمایتی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ 2016ء کے انتخابات جیت کر صد بن گئے تھے اور حلف اٹھایا تھا تب بھی واشنگٹن کیپٹل ہل سمیت امریکا میں بڑے مظاہرے ہوئے اور مظاہرین کے نعرے تھے کہ ہم ٹرمپ کو صدر تسلیم نہیں کرتے۔ یہاں تک کے پہلے دن سے اب تک ہیلری کلنٹن کہتی رہی ہیں صدر ٹرمپ غیر قانونی صدر ہیں ہم انہیں نہیں مانتے۔ ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ امریکا میں جمہوری اقدار مضبوط ہیں اور سیاست میں تشدد اور انتہا پسندی کا جو عنصر در آیا ہے اس کا امریکی میڈیا ذمہ دار ہے جو غیر جابنداری کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر غیر جانبداری مشکوک ہے۔ 

اب دنیا کو پتہ چل رہا ہے کہ امریکا میں مظاہروں کی وجہ ایک طرف جمہوریت کی وجہ سے ہورہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے حمایتی یہ بھی کہتے ہیں کہ امریکا میں مختلف عناصر سرگرم عمل ہورہے ہیں۔ ان کے کچھ مطالبات ہیں مگر ان کوسنا نہیں جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو ہروایا گیا ہے جبکہ بائیڈن کے پاپولر ووٹ آٹھ کروڑ کے قریب ہیں اور صدر ٹرمپ کے سات کروڑ بیس ووٹ ہیں۔ تین ریاستوں کی ووٹوں کی گنتی مشکوک تھی دوبارہ گنتی نہیں کی گئی۔ امریکی سیاسی جماعتیں، تھنک ٹینک اور میڈیا جمہوری کی بہت بات کرتے ہیں مگر وہ عمل اپنے اپنے مفادات کے تحت کرتے ہیں۔ 

صدر ٹرمپ کے حامی کہتے ہیں کہ کووڈ۔19کی پہلی لہر کے دوران امریکا کو بہت کم معلومات دی گئی تھیں، امریکا بڑا ملک ہے جو پچاس ریاستوں پر پھیلا ہوا ہے، یہاں سیاح بھی بہت آتے ہیں اس طرح کورونا پھیلا بےخبری میں نقصان بہت ہوا اور یہ نقصان یورپی ممالک کو بھی ہوا مگر صدر ٹرمپ پر تمام ذمہ داریاں ڈال دی گئیں۔ صدر ٹرمپ کے حامی یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ پہلے دن سے صدر ٹرمپ کے خلاف پروپیگنڈہ مہم جاری رہی یہاں تک کہ ان کو مواخذے سے بھی گزارا گیا پھر ان کے اہم اختیارات میں کمی کر دی گئی۔جبکہ دوسری طرف صدر ٹرمپ کے مخالفین کی چارج شیٹ یہ بتلاتی ہے کہ صدر ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد ٹیکس میں کٹوٹی کر دی جن سے بجٹ کو اربوں ڈالر کا مزید خسارہ برداشت کرنا پڑا۔

قدرتی کوئلہ کے استعمال میں اضافہ کا اعلان کیا اور ماحولیات کے بین الاقوامی پیرس معاہدہ سے امریکا الگ کرلیا، مگر بعدازاں کوئلہ کے استعمال میں پچاس فیصد کمی کردی۔ صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دیا اور فلسطینیوں اور دیگر عرب ممالک کو ناراض کر دیا۔ اس سے خطے کا امن خطرہ میں پڑ گیا۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمان کو ہلاک کرنے کا حکم دیا اس کو بھی سفارت کاروں نے غلطی قرار دیا۔ ایران سے تصادم کا خطرہ بڑھ گیا۔

صدر ٹرمپ نے سفارتی محاذ پر غلط اور خطرناک فیصلے صادر کرکے امریکی مفادات کو خطروں سے دوچار کیا۔ وہ بہتر جگہ بنانے میں اکثر ناکام نظر آئے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے داماد کی حوصلہ افزائی کی اپنے فیملی بزنس میں اضافہ کیا۔ عراق اور شام میں کردوں کو استعمال کرنے کے لئے انہیں ہتھیار دیئے جس سے شام اور ترکی کی حکومتیں امریکا سے مزید ناراض ہوئیں۔ کرد بھی دور ہوگئے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ 14جون 1946ء کو امریکا میں پیدا ہوئے۔ بیس سال کی عمر میں انہوں نےملٹری اکیڈمی میں بطور جونیئر افسر تربیت حاصل کرنی شروع کی مگر بعد میں میڈیکل ان فٹ ہونے پر نکال دیئے گئے۔ پھر وہ اپنے والد کے پراپرٹی کے بزنس سے وابستہ ہوگئے۔ ٹرمپ نے تعمیرات کا کام شروع کیا۔ شوبز، ریسلنگ کے مقابلے، ٹی وی فلموں کی تیاری کا بھی کاروبار کیا اور 1988ء تک وہ امریکا کے امیروں کی فہرست میں شمار ہونے لگے۔ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ چالاک، بزنس میں ہر حربہ جائز ہے کہ حامی اور خود غرض واقع ہوئے اس طرح انہوں نے پیسہ کمایا۔ 1977ء میں انہوں نے چیک لڑکی اونکا سے شادی کی۔ اسی اور نوے کی دہائی میں انہیں اپنی شخصیت کو اجاگر کرنے کے لئے بیشتر پیشہ ور صحافیوں اور مصنفین سے مضامین لکھوانے اور اخبارات میں شائع کرانے کا شوق رہا۔ 

سال دو ہزار میں ٹرمپ نے اپنی سیاسی جماعت ریفارم پارٹی بنائی اور صدارتی انتخابات میں حصہ لیا۔ نتیجہ صفر رہا۔ اس دوران انہوں نے روس میں پراپرٹی کے کاروبار میں خاصا پیسہ کمایا مگر ان کا مضامین لکھوانے اوکتابیں برائے کاروباری معاملات لکھوانے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ خاص تگ و دو کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ دو ہزار بارہ میں ریپلکن پارٹی کے رکن بن گئے۔ 2013ء میں ٹرمپ ایک بڑے فراڈ میں دھر لئے گئے مگر 25ملین ڈالر جرمانہ دے کر کیس سے فارغ ہوئے۔ 2016ء میں ٹرمپ نے ریپلکن پارٹی کو چندہ دیا اور اندرون خانہ اپنی جگہ بنانی شروع کی۔ اس دوران شاید ٹرمپ پر قسمت کی دیوی کچھ زیادہ مہربان تھی کہ جولائی 18تا21سال 2016ء کے کنونشن میں پارٹی کے 2472ڈیلیگیٹ شریک ہوئے صدارتی امیدوار کو 1275ووٹ حاصل کرکے سادہ اکثریت دکھانی ضروری تھی جبکہ ٹرمپ نے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لئے1725ووٹ حاصل کرلئے اور 2016ء کے لئے پارٹی کے صدارتی امیدوار بن کر سامنے آئے۔ 

یہ صورتحال بڑی دل چسپ تھی کہ سات اور امیدوار صدارتی ٹکٹ کے امیدوار تھے مگر وہ سب بہت کم ووٹ حاصل کرسکے اور انتخابات کی دوڑ میں بھی بہت پیچھے رہے۔ حقیقی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ قرار پائے اس موقع پر ریپلکن پارٹی کے بیشتر سینئر اراکین کا خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن کے سامنے ٹک نہیں پائیں گے۔ بیشتر افراد نے شرطیں لگانی شروع کردیں،پہلی شرط یہ لگی کہ ٹرمپ انتخابات کی مہم میں زیادہ آگے جا نہیں پائیں گے مگر وہ آگے گئے۔ پھر دوسری شرط بندھی کہ ٹرمپ انتخابات میں زیادہ اوپر نہیں جا پائیں گے، مگر وہ گئے۔ پھر تیسری شرط یہ لگائی کہ ٹرمپ پرائمری کے انتخابات نہیں جیت پائیں گے، مگر ٹرمپ جیت گئے۔ پھر چوتھی شرط لگی کہ ریپلکن پارٹی ٹرمپ کو اپنا حتمی امیدوار نامزد نہیں کرے گی مگر پارٹی نے انہیں حتمی امیداور قرار دیدیا۔ 

آخری شرط یہ لگی کہ ٹرمپ جنرل الیکشن تو ہرگز نہیں جیت سکیں گے، مگر ڈونلڈ ٹرمپ 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں جیت گئے۔ دنیا ہکا بکا ہوگی کسی کو یقین نہ تھا،ٹرمپ کو بھی شاید یقین نہ تھا کہ وہ جیت جائیں گے۔ یہاں تک صدر باراک اوباما نے بھی دوبار یہ کہا تھا کہ ٹرمپ کبھی بھی نہیں جیت سکتے اور ہیلری کلنٹن کو سو فیصد یقین تھا کہ الیکشن میں وہی کامیاب ہوں گی۔ جبکہ کہا جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016ء کے انتخابات میں غیر روایتی الیکشن مہم چلائی تھی، پھر وہ کامیاب ہوگئے ایسے میں امریکا سمیت دنیا کے اہم ممالک کے سیاسی پنڈت بھی سرجوڑ کر بیٹھ گئے کہ آخر یہ ہوا کیا اور کیسے ہوا۔

2016ء کے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا جو ایجنڈا پیش کیا وہ یہ تھا کہ وہ امریکا کو اس کی گزشتہ عظمت واپس دلائیں گے، امریکا پہلی ترجیح ہوگا جس کو وہ امریکا فرسٹ کہتے تھے۔ انہوں نے بے روزگار محنت کشوں کو خواب دکھائے کہ وہ چین سے امریکی کارخانے، سرمایہ اور ٹیکنالوجی واپس لائیں گے اور روزگار کے مواقع پیدا کریں گے۔ اس طرح ٹرمپ نے اپنی چرب زبانی کے خوب جوہر دکھائے اس طرح وہ نیویارک سمیت جنوب کی سات ریاستوں میں مقبول ہوگئے۔ پریس سے بھی تعلقات استوار کرلئے۔ دوسری طرف ہیلری کلنٹن کے حوالے سے پریس کو شکایت تھی کہ وہ میڈیا کے کسی سوال کا جواب نہیں دیتی ہیں۔ ہلیری کلنٹن اور میڈیا کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے۔ ان پر یہ الزام بھی تھا کہ بطور وزیر خارجہ ان کی کارکردگی بہتر نہ تھی، کیونکہ لیبیا میں امریکی سفارت خانہ پر جہادیوں کا حملہ ہوا تھا، اس میں امریکی سفیر سمیت دیگر سفارت کار بھی ہلاک اور سفارت خانہ کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ 

میڈیا اس کوبھی اچھالتا رہا۔ ٹرمپ کو یہ بونس مل گیا تھا۔ امریکی آئین مکمل جمہوری آئین ہے۔ امریکی صدر کے عہدے کو دنیا کا عظیم ترین عہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ صدر کو وسیع تر اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ صدر مسلح افواج کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے۔ قومی انتظامیہ کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ امریکی صدر خارجہ امور کےمعاملات طے کرتا ہے اور خارجہ پالیسی وضع کرنےمیں اس کا بہت دخل ہوسکتا ہے۔ 

امریکا کا صدر سینیٹ کے مشورے سے اعلیٰ فوجی افسران کا تقرر کرسکتا ہے۔ صدر کانگریس کے مشورے سے جنگ لڑنے کا حکم دے سکتا ہے مگر صدر اپنے طور پر کسی ملک سے جنگ کرنے کو ناگزیر بنا سکتا ہے۔ دوران جنگ صدر کے اختیارات مزید وسیع ہو جاتے ہیں۔ صدر کو اس کی مدت صدارت سے قبل مواخذہ کے ذریعہ ہٹایا جاسکتا ہے۔ ایوان نمائندگان اکثریت سے قرارداد منظور کرے تو صدر کا مواخذہ ہوسکتاہے جس میں صدرپر سنگین الزامات عائد کرکے کارروائی ہوتی ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جاری رویئے اشتعال انگیز بیانات اور عہدہ سے سبکدوشی سے انکار کی وجہ سے جو کچھ واشنگٹن میں ہوا اور امریکا کو عالمی سطح پر ایک طرح سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ایسے میں کانگریس اور سینیٹ کے اراکین کی ایک واضح تعداد کا مطالبہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کیا جائے اور مدت کی تکمیل سے قبل انہیں عہدہ سے ہٹایا جائے تاکہ وہ کوئی اور سنگین قدم نہ اٹھا سکیں اور امریکا کو نئی مشکل سے دوچار نہ کرسکیں۔ مگر لگتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ اب کچھ نہیں کر پائیں گے انہیں احساس ہوگیا ہے یا احساس دلا دیا گیاہے کہ وہ اب مکمل گھیرائو میں ہیں اس لئے انہوں نے پرامن طور پر اقتدار کی منتقلی کی حامی بھری ہے اور کہا ہےکہ بیس جنوری کو بائیڈن صدر کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے مگر وہ تقریب میں شریک نہیں ہوں گے۔ امریکی سیاست، جمہوریت اور جمہوری حکومت کے حوالے سے ایک عمومی اسٹیریو ٹائپ بیانیہ سننے میں آتا ہے کہ امریکا میں جمہوریت خطرے میں ہے۔ 

جمہوری نظام میں سقم پیدا ہوگئے ہیں وغیرہ جبکہ ایسا نہیں ہے، امریکا میں جمہوریت مستحکم ہے، آئین کی بالادستی قائم ہے۔ امریکی جمہوری، انتظامی اور انصاف کے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں پوری طرح فعال نظر آتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ امریکا کا آئین ایک ایسا دستور ہے جس میں کسی بھی ترجم کے لئے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ امریکا میں وفاقی نظام نافذ ہے، پچاس ریاستوں کا یہ وفاق ہے جس میں چند اہم قومی ذمہ داریاں اور اختیار وفاق کی مرکزی حکومت کے پاس اور باقی تمام اختیارات ریاستوں کو حاصل ہیں۔ 

امریکا میں مختلف سیاسی دھڑے موجود ہیں مگر دو پارٹیاں اصل قوت ہیں۔ ڈیموکریٹ اور رپپلکن پارٹی دونوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی تنظیم مضبوط اور نیچے سے اوپر کی طرف مستحکم تنظیمیں ہیں۔ یہ وارڈ سٹی، کائونٹی کی سطح تک منظم ہیں، پھرریاستی اورقومی کمیٹیاں ان سے وابستہ ہیں۔ امریکا میں دو جماعتی نظام کے علاوہ مختلف پریشر گروپس موجود ہیں جن میں سیاسی، اقتصادی، انتظامی اور سماجی مفادات کے لئے سرگرم عمل رہتےیں۔ ان میں مادی اور سیاسی مفادات زیادہ اہم ہیں۔ لابنگ کا نظام بھی جاری و ساری ہے، یہ سب کچھ امریکی جمہوری معاشرہ کا اہم حصہ ہیں۔

جاری صورتحال میں بیشتر تبدیلیاں ممکن ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی کا عمل بھی جاری و ساری رہتا ہے۔ یہ عمل امریکا میں بھی جاری ہے۔ جدید دنیا کا اولین تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی مملکت کا سیاسی نظام رواں دواں رہے، وسیع تر رائے عامہ کی نمائندگی کرتا ہو اور جمہوری عمل، آزادی اظہار، انسانی حقوق پر استوار ہو تو وہ جمود کا شکار نہیں ہوتا بلکہ بہتے دریا کی طرح رواں رہتا ہے۔ جمود کا شکار معاشرے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے اور مسائل کا شکار رہتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 2020ء میں چار سالہ کارکردگی اور ان کے عمومی رویوں کے حوالے سےزیادہ بات ہوئی۔ 

ٹرمپ اور بائیڈن کے مابین جو براہ راست مباحث اور بحث ہوئیں ان میں بائیڈن نے کرونا وائرس کی پہلی لہر کے وقت صدر ٹرمپ کی کارکردگی اور غیر سنجیدہ رویوں کو ہدف تنقید بنایا، اس کے علاوہ بائیڈن نے ٹرمپ کے ماحولیات اور موسمی تغیرات کے حوالے سے جو بیانیہ دیا اس سمیت عالمی معاہدہ ماحولیات سے امریکا کو الگ کرلینے کے عمل کوبھی ہدف تنقید بنایا۔ ٹرمپ کی ایران امریکا جوہری معاہدہ سے یک طرفہ منسوخی کے عمل اور بیشتر خارجہ امور کے معاملات سمیت امریکا کے اندرونی معاملات کی پالیسی بھی زیر بحث رہی جس پر بائیڈن نے ٹرمپ کو آڑے ہاتھوں لیا۔دوسری طرف امریکی میڈیا بھی صدر ٹرمپ کی چار سالہ کارکردگی اور ان کے غیر لچکدار رویوں کو ہدف بناتا رہا۔

صدر ٹرمپ کی چین امریکا تجارتی معاہدوں پر بار بار تحفظات کا اظہار بعض اہم اشیا پر امریکی حکومت کی طرف سے محصولات میں اضافہ پر چینی حکومت کی طرف سے شدید ردعمل بھی سامنے آیا۔ مگر صدر ٹرمپ کا بیان یہ رہا کہ امریکا کے گزشتہ صدور نے چین کو کچھ زیادہ ہی رعایت دے کر، سرمایہ کاری اور دوطرفہ تجارت کو فروغ دے کر امریکی کارخانوں کی چین میں منتقلی کو درگزر کرکے بڑے مسائل کھڑے کئے۔ امریکی محنت کشوں کو بے روزگار کیا چین کو ترقی کا موقع فراہم کیا اور امریکی ٹیکنالوجی سے بھی بھرپور استفادہ کا موقع فراہم کیا۔ صدر ٹرمپ کی مذکورہ نکتہ چینی اور چین کے حوالے سے پالیسی کے حوالے سے بعض ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ 2010ء کے بعد سے چینی حکومت نے امریکا میں بالخصوص نیویارک اسٹیٹ میں پراپرٹی کے بعد تعمیرات کے کاروبار میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا سلسلہ شروع کیا اور اتفاق سے ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی آبائی کاروبار تعمیرات اور پراپرٹی کی خرید و فروخت سے وابستہ ہے۔ 

ایسے میں اس اہم شعبہ میں چین کی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری سے ٹرمپ کے مفادات کو بھی زک پہنچنی شروع ہوئی اور ٹرمپ نے چین پر نکتہ چینی کی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چین سال 2020ء تک اقتصادی طور پر امریکا کی متوازی اقتصادی قوت بن چکا ہے۔ چین سالانہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے، تاحال چالیس سے زائد ممالک میں چینی سرمایہ سمیت لاکھوں چینی ماہرین، محنت کش کام کررہے ہیں۔ چین تعلیم اور سائنسی تحقیق پر کثیر سرمایہ صرف کررہا ہے جس کا ثبوت اس کی خلائی تحقیق اور سیارچوں کی اڑان ہے ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے صدر ٹرمپ اپنے چار سالہ دور میں چین کو ترقی کرنے سے روک نہ سکے بلکہ امریکی معیشت کو مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔

صدر ٹرمپ نے اپنے دور میں خارجہ امور میں بھی کوئی نمایاں پالیسی وضع نہیں کی، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوئی نئی جنگ شروع نہیں ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل، سعودی عرب اور جنوبی ایشیا میں بھارت پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔

صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اچھے تعلقات کا پرچار کیا گیا۔ اس میں امریکا کا مفاد یہ تھا کہ بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کیا جاسکے امریکا کی اس پالیسی کے ضمن میں بھارت کے بعض اہم سیاسی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے ہیں ان حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکا صرف اپنے مفادات کی خاطر بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے جبکہ بھارت کو اپنے مفادات کو مدنظر رکھنا اور اولیت دیتے ہوئے یہ حلقے نریندر مودی کی پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ گزشتہ برسوں میں بھارت کو امریکا سے تجارت میں خاصا گھاٹا برداشت کرنا پڑا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بھارت امریکا دوستی تعاون میں توازن برقرار رکھے۔ ورنہ نقصان بھارت ہی کو اٹھانا پڑے گا۔ 

خطے میں چین بڑی طاقت ہے اس سے بگاڑ کو بڑھاوا دے کر اپنے مسائل میں اضافہ کریں گے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے چار سالہ مدت صدارت میں امریکا کے لئے کوئی بڑا کام سرانجام نہیں دیا۔ صدر ٹرمپ کو سیاست سے دلچسپی ضرور تھی مگر وہ اس کا گہرا تجربہ نہیں رکھتے تھے جو ان کے چار سالہ دور سے ہی واضح ہو جاتا ہے۔ وہ اپنےکاروباری حلقوں میں ذہین اور شاطر کاروباری شخصیت کے طور پر شہرت رکھتے تھے۔ جلد ارب پتی بن گئے اور پھر سیاست میں دلچسپی لینے لگے اور کاروبار بھی کرتے رہے۔ ان گھریلو اور ازدواجی زندگی بھی زیادہ خوشگوار نہیں رہی۔ دوستوں اور دیگر کاروباری شخصیت سے بھی تنازعات رہے، ٹرمپ کو تنازعات کو عدالتوں میں حل کرانے اور مقدمات جیتنےکا خاصا تجربہ رہا، مگر حیرت انگیز طور پر صدر منتخب ہونے پر بہت لوگوں کو حیرانی ہوئی۔ 

انہوں نے میکسیکو اور دیگر تارکین وطن اور بالخصوص مسلمانوں کے حوالے سے سخت گیر رویہ اپنایا۔ امریکی سیاہ فام باشندوں کے متعلق ٹرمپ کی رائے کسی سے چھپی نہ تھی یہ تمام مذہبی نسلی اور لسانی گروہ صدر ٹرمپ سے روز اول سے شاکی تھے۔البتہ امریکی قدامت پسند سیاسی حلقے پریشر گروپس اور کچھ محنت کش باشندے صدر ٹرمپ کی حمایت میں آواز اٹھاتے رہے۔ مگر بڑے کاروباری طبقے، تنظیمیں ان کی مخالفت کرتی رہیں۔ 

وال اسٹریٹ کا بڑا بااثر اور معروف کلب جس میں بڑی سیاسی شخصیات کاروباری افراد ہیں ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ ہم میں سے نہیں ہیں۔ 2016ء میں الیکشن جیت گئے ہم نے انہیں برداشت کرلیا مگر دوسری باری کے لئے ان کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ لہٰذا اب صدر ٹرمپ کا گھر جانا ٹھہر گیا ہے۔ عوامی رائے کو مقدم سمجھنا ضروری ہے اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ ٹرمپ کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے۔

تازہ ترین