• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ خواب تھے جو ٹوٹ گئے، کچھ منصوبے تھے جو ناکام ہو گئے۔ صدر آصف علی زرداری کا خیال تھا کہ گیارہ مئی کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اکثریتی پارٹی تو بن جائے گی لیکن اس کی نشستیں قومی اسمبلی میں 90 سے اوپر نہیں جائیں گی۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یقین دلا رکھا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں 60 نشستیں مل گئیں تو ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی اور کچھ آزاد ارکان کو ساتھ ملا کر پیپلز پارٹی ایسی پوزیشن میں آ جائے گی کہ نواز شریف سے کہے گی کہ آؤ مل کر ایک مخلوط حکومت بناتے ہیں۔ آپ وزیراعظم بن جائیں اور مجھے ایک دفعہ پھر صدر بنا دیں۔ منصوبے کے مطابق پنجاب ایک دفعہ پھر مسلم لیگ ن، سندھ ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی، خیبرپختونخوا تحریک انصاف اور جماعت اسلامی جبکہ بلوچستان ایک دفعہ پھر سکیورٹی اداروں کے حوالے کیا جانا تھا۔ قومی اسمبلی میں عمران خان کو 50 کے قریب نشستوں کے ساتھ مضبوط اپوزیشن لیڈر کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کا خیال تھا کہ عمران خان کی وجہ سے نواز شریف کے ووٹ تقسیم ہو جائیں گے اور آصف علی زرداری کو پنجاب سے کم از کم 25نشستیں ملنے کی توقع تھی۔ حیران کن پہلو یہ تھا کہ کچھ ادارے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا دعویٰ کر رہے تھے لیکن ان اداروں کے کچھ افسران کا ایسے سیاستدانوں سے رابطہ تھا جو ماضی میں بھی ان اداروں کے اشاروں پر ناچتے رہے۔ ان سیاستدانوں سے کہا گیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار نہ کریں بلکہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں اور کامیابی کے بعد انہیں بتایا جائے گا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں طاقتور اداروں سے قربت رکھنے والی ایک خاتون نے سندھ سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو انہیں کہا گیا کہ وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن نہ لڑیں۔ خاتون نے یہ بات مسلم لیگ ن کی قیادت کو بتا دی۔ قیادت نے خاتون کے دعوے کی تصدیق کیلئے کچھ لوگوں سے رابطہ کیا تو بات سچ نکلی۔ اب مسلم لیگ ن کو شک نہیں رہا تھا کہ کہیں نہ کہیں انتہائی احتیاط کے ساتھ یہ کوشش کی جا رہی تھی کہ انتخابات میں اسے سادہ اکثریت نہ ملے۔ اس کوشش میں صدر آصف علی زرداری اکیلے نہیں تھے بلکہ کچھ اور لوگ بھی اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ پنجاب سے مسلم لیگ (ق) کے ایک رکن قومی اسمبلی نے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی تو انہیں کہا گیا کہ وہ اپنے اصل حلقے سے الیکشن نہ لڑیں بلکہ ایک اور حلقے سے الیکشن لڑیں انہیں وہاں سے جتوا دیا جائے گا۔ ان صاحب نے انکار کیا تو اچانک ان کی ڈگری جعلی قرار پائی اور موصوف نااہل ہو گئے۔ اس سے پہلے یہی صاحب آٹھ سال تک رکن قومی اسمبلی رہے لیکن کسی کو ان کی ڈگری یاد نہ آئی تھی۔
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ (ن) کے 40 امیدواروں کو ٹارگٹ کیا گیا، صدر آصف علی زرداری کے ایک قریبی دوست نے مسلم لیگ (ن) کے کئی مدمقابل امیدواروں کو کروڑوں روپے دیئے تاکہ مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں نشستیں کم ہو جائیں۔ دو بڑے ٹارگٹ چودھری نثار علی خان اور خواجہ محمد آصف تھے۔ انہیں چاروں طرف سے گھیرا ڈالا گیا، خواجہ صاحب بچ نکلے۔ چودھری صاحب ایک نشست ہار گئے ایک جیت گئے، پنجاب میں ووٹرز کے زیادہ ٹرن آؤٹ کی وجہ سے مسلم لیگ ن اپنی نشستیں بچا گئی لیکن خیبر پختونخوا میں سردار مہتاب خان عباسی قومی اسمبلی کی نشست ہار گئے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ ن کی نشستیں کم کرنے کی کوشش ہوئی جبکہ بلوچستان میں طاقتور ادارے مسلم لیگ ن کو جتوانے میں لگے ہوئے تھے۔ ان اداروں کا خیال تھا کہ بلوچستان سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے امیدوار اپنی قیادت سے زیادہ ان اداروں کی بات سنا کریں گے۔ یہی وجہ تھی کہ بلوچستان میں نئے وزیراعلیٰ کے نام پر مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت نے ابھی کوئی اتفاق نہیں کیا تھا کہ کوئٹہ میں طاقتور اداروں کی مرضی کا وزیراعلیٰ لانے کیلئے بھاگ دوڑ شروع ہو گئی۔ اداروں کے حکم پر بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے نومنتخب ارکان نے مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ حمایت کااعلان کرنے والوں میں مشرف دور کے صوبائی وزیر داخلہ میر شعیب نوشیروانی بھی شامل ہیں جنہیں نواب اکبر بگٹی کے قتل میں نامزد کیا گیا۔ نوشیروانی صاحب پر قتل کی سازش کا الزام سچا ہے یا جھوٹا اس کا فیصلہ تو عدالت کو کرنا ہے لیکن وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ حالیہ الیکشن میں ان کے والد پی بی 46 خاران سے امیدوار تھے اور یہ وہ حلقہ ہے جہاں ایف سی اور لیویز کے جوان پریذائیڈنگ افسران بنے ہوئے تھے جن علاقوں میں ایف سی اور لیویز کے جوانوں کو پریذائیڈنگ افسران بنا کر الیکشن قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ ان علاقوں میں نوشیروانی صاحب کے والد کامیاب قرار پائے۔ نوشیروانی صاحب کو کامیابی مبارک ہو لیکن اگر وہ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں تو مسلم لیگ ن کو قومی سطح پر اس کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہو گا۔ مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر سردار ثناء اللہ زہری کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ صوبے کی وزارت اعلیٰ حاصل کرتے کرتے وہ مرکز میں اپنی قیادت کیلئے ایسے مسائل پیدا نہ کر دیں جو کبھی حل نہ ہو سکیں۔ سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ (ق) کو بلوچستان میں کس نے پانچ نشستیں دلوائیں اور یہ پانچ ارکان کس کے کنٹرول میں ہیں۔ ان ارکان کی طرف سے مسلم لیگ ن کی حمایت نے نواز شریف کو خبردار کر دیا اور انہوں نے صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے شہباز شریف کو کوئٹہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ نواز شریف بلوچستان میں احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ تحریک انصاف کو موقع دیا کہ وہ خیبرپختونخوا میں حکومت بنائے۔ مولانا فضل الرحمن کو مرکزی حکومت میں شمولیت کی دعوت دی گئی جو خوش آئند ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے کچھ ساتھیوں نے مجھے خیبرپختونخوا میں دھاندلی کے ثبوت دکھائے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی کی طرف سے دھاندلی کے ثبوت سامنے آ چکے ہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن پر دھاندلی کے الزامات لگائے ہیں۔ یہ میری صحافتی زندگی کا انوکھا تجربہ ہے کہ جیتنے والے بھی دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں اور ہارنے والے بھی دھاندلی دھاندلی پکار رہے ہیں۔ یہ چیخ و پکار نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی ناکامی ہے۔ افسوس کہ بعض طاقتور اداروں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا اور حالیہ انتخابات میں ان کے کچھ افسران کہیں مسلم لیگ ن کو ہروا رہے تھے کہیں جتوا رہے تھے۔ کہیں تحریک انصاف کو جتوا رہے تھے کہیں ہروا رہے تھے، کہیں ایم کیو ایم والوں سے ملے ہوئے تھے کہیں ایم کیو ایم کو روک رہے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ معلق پارلیمنٹ کا خواب پورا نہ ہوا۔ ابھی میڈیا میں کئی روز تک دھاندلی کا ذکر جاری رہے گا لیکن ہمیں آگے بھی بڑھنا ہے۔ پاکستان کو مسائل کے گرداب سے بھی نکالنا ہے۔ اچھی بات ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پہلے عمران خان کو فون کیا اور ان کی خیریت دریافت کی۔ بعد ازاں انہوں نے لاہور میں نواز شریف کے ساتھ ملاقات کی۔ دونوں کو ماضی کی تلخیاں بھلا کر مل جل کر پاکستان کی ترقی کیلئے کوشش کرنی چاہئے۔ بہتر ہو گا کہ ہم سب ذاتی انا اور ذاتی فساد کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ فوجی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ نئے منتخب نمائندوں کو ان کے سیاسی وعدوں کے مطابق حکومت کرنے دی جائے اور بلوچستان یا فاٹا کے راستے ان کی ٹانگیں نہ کھینچی جائیں۔ خدانخواستہ کوئی منہ کے بل گر گیا تو نقصان ایک فرد یا ایک ادارے کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہو گا۔
تازہ ترین