• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”آپ جناب مہربان“ پارٹی کے چےئرمین سے ہماری شناسائی کئی برسوں پر محیط ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس شناسائی کی بدولت ہمیں وقتاً فوقتاً چےئر مین صاحب کے فلسفے، دانش اور حکمت افروز خیالات سے مستفید ہونے کا موقع میسر ہوتا رہتا ہے۔جناب چےئرمین صاحب کثیر الجہت اور ہرفن مولا قسم کی شخصیت ہیں ۔کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنا بلکہ اپنا ایک فلسفہ اور تھیوری پیش کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔اس فلسفے اور تھیوری کا سمجھنا البتہ آپ کا مسئلہ ہے چےئر مین صاحب کا نہیں۔ایک دفعہ کسی موضوع پر اسی طرح کی تھیوری پیش کی توہم نے کہا چےئرمین صاحب آپ کی یہ تھیوری ہماری سمجھ سے بالا ترہے ۔کہنے لگے ہیگل کو جانتے ہو؟ہم نے کہا ہاں وہ مشہور فلسفی نا؟ کہنے لگے بالکل وہی۔ فرمایا ہیگل نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ہمارے فلسفہ کو صرف ہمارے ایک شاگرد سمجھے ہیں اور وہ بھی غلط سمجھے ہیں۔ کہنے لگے بالکل اس طرح ہمارے فلسفہ کو بھی آج تک صرف ہماری بیوی نے ہی سمجھا ہے اور وہ بھی غلط سمجھا ہے۔ ہم خاموش ہو گئے البتہ اپنی بھابھی پر ترس تو خوب آیا۔ مزید فرمایا ہر بڑے ادیب اور فلاسفر کے ساتھ یہی المیہ رہا ہے کہ اس کا فلسفہ کوئی سمجھ ہی نہ سکا۔کہنے لگے مشہور ادیب اور دانشورِ عالی کو ہی لے لیجیے ۔کوئی سمجھ سکا آج تک ان کے کالم کو؟اب ہم نے چےئرمین صاحب کی ہاں میں ہاں ملانے میں ہی عافیت سمجھی۔
حالیہ انتخابات کے دن تمام پاکستانیوں کی طرح ہم نے بھی رات گئے تک ٹیلی ویژن پر الیکشن کی نشریات ملاحظہ کیں اور کہیں رات گئے جا کر سوئے۔ سوچا تھا صبح چھٹی کا دن ہے اس لئے آرام سے ہی بیدار ہوں گے۔مگر ہماری قسمت کہ صبح 6بجے ہی گھر کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی۔آنکھ ملتے ہوئے ہم نے گیٹ کھولا تو سامنے چےئرمین صاحب کو کھڑے پایا۔ بہت پریشان اور بجھے بجھے۔ چہرے پر ہوائیاں اُڑرہیں،بسورنا سا منہ بنا کر دروازے پر ایسے کھڑے تھے جیسے کسی دیہات کا کوئی”کمی“ساتھ والے چوہدری کے گھر کے دروازے پر چاٹی کی لسی لینے کے لئے مسکین سی صورت بنا کر کھڑا ہوتا ہے۔ اتنی صبح اور ایسے حلیے میں چےئرمین صاحب کو دروازے پر پا کر ایک لمحے کے لئے تو ہم پریشان ہی ہوگئے تھے کہ خدا خیر کرے کوئی مسئلہ نہ ہو۔ ہم نے پوچھا خیریت تو ہے؟ کہنے لگے ہاں کوئی خاص بات نہیں ،اندر چلو اور میرے لئے ناشتہ بنواؤ۔چےئرمین صاحب کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر ہم ناشتے کا کہنے چلے گئے اور واپس آکر چےئرمین صاحب کے ساتھ بیٹھ گئے۔ غور سے دیکھنے پر صاحب کے چہرے مہرے پر اور بھی کافی تبدیلیاں محسوس کیں۔ چےئرمین صاحب عام حالت میں اپنی دُم دارمونچھوں کی دُم کو اوپر کی طرف موڑ کر باقاعدہ ایک چھلہ سا بناتے ہیں(ایک دفعہ ہمارے پوچھنے پر چےئرمین صاحب نے بتایا تھا کہ اس طرح کا چھلہ بنانے کے لئے مونچھ پر ایک مخصوص جانور کی چربی استعمال کرنی پڑتی ہے) ۔آج ایک مونچھ کا چھلہ تو ویسے ہی تھا البتہ دوسری مونچھ کی دُم اوپر کی بجائے نیچے کی طرف جھکی ہوئی تھی اور ٹوپی کا مخصوص پھندنا بھی غائب۔ہم نے مونچھ کی طرف اشارہ کیا۔ کہنے لگے ہاں یہ” سرنگوں“ہے آج۔ آنکھیں تولال تھیں ہی چہرہ بھی ایسے لال ہو رہا تھاجیسے کسی مرغی کا انڈے دینے سے قبل ہو جاتا ہے ۔ہم نے کچھ کہنا چاہا تو ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ ہم بدک کے بیٹھ گئے ۔سگریٹ کا پیکٹ نکال کے سگریٹ سلگایا تو حواس باختگی میں فلٹر کو آگ لگا بیٹھے۔ کش لگانے کی کوشش کی تو دھواں ندارد۔ہم نے اشارہ کیا کہ جناب سگریٹ سیدھا لگا لیں۔ دوسرا سگریٹ سلگایا تو پہلے کش کے ساتھ کھانسی کا دورہ شروع ہوگیا ہم نے ہولے سے کہا لگتا ہے کل سے سگریٹ زیادہ پی رہے ہیں۔ فرمایا پیتا تو ٹھیک تھا میں تو کل سے نہا رہا ہوں۔ہم انتظار میں کہ چےئرمین صاحب کوئی بات شروع کریں۔ تھوڑی دیر بعد چےئرمین صاحب ہم کلام ہوئے ۔ فرمایا قوم نے انتخابات میں ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ہمارا ایک امیدوار بھی نہیں جیت سکا حتیٰ کہ ہمارے امیدواروں کو اپنے گھر کے ووٹ بھی نہیں پڑے۔ دوسروں سے کیا گلہ ہمارا ایک امیدوار تو خود غلطی سے اپنے انتخابی نشان کی بجائے دوسرے امیدوار کے نشان پر ٹھپہ لگا کر آگیا۔ فرمایا نہیں سدھرے گی یہ قوم۔ ہم نے ڈر کے پوچھا چےئرمین صاحب پارٹی کے منشور میں کوئی سقم تو نہیں رہ گیا تھا یا پھر آپکی پارٹی کے امیدواروں کی جعلی ڈگریوں کے مسائل تو نہیں تھے؟ کہنے لگے یار یہی تو مسئلہ ۔تمام ڈگریاں اصلی تھیں ،اگر جعلی ڈگری کا ہلکا سا تڑکا لگا ہوتا تو شاید پارٹی اس برے انداز سے نہ پٹتی۔کہنے لگے یار بڑے صاف ستھرے اور62,63کی شق پر پورے اترنے والے ”بیبی“آدمی انتخابات میں کھڑے کئے تھے۔ قوم نے ان کی قدر ہی نہیں کی ۔ہمارا تو یہ خیال تھا کہ 62,63کی چھلنی، قرض نادہندگان اور مالی بے ضابطگیوں میں ملوث لوگ اسکرونٹی کے عمل میں ایسے باہر نکال لئے جائیں گے جیسے مکھن سے بال۔ اور اس کے بعد ہمارے لئے میدان بالکل خالی ہوجائے گا۔ ہم نے بڑی مشکل سے ہنسی روکتے ہوئے کہا چےئرمین صاحب جو ہو گیا، سو ہو گیا،چھوڑیں ان باتوں کو۔ آئیں ناشتہ لگ چکا ہے۔ ناشتہ کے دوران ہم نے بڑی مشکل سے موضوع تبدیل کئے رکھا مگر چےئرمین صاحب پہلو پہ پہلو بدل رہے تھے ،لگتا تھا جسے پیٹ کا مروڑ پوری طرح گیا نہیں۔ کہنے لگے یار ان انتخابات میں بدلا ہی کیا ہے۔ قوم نے وہی پرانے چہروں کی اکثریت لا کے اسمبلیوں میں بٹھا دی ہے جو نسل در نسل ملک کو دیمک کی طرح کھا رہے ہیں۔ لگتا ہے ہم ترقی یافتہ قوموں سے اب بھی دو سوسال پیچھے ہیں۔ یورپ میں دوسو سال پہلے جو معاشرے اور حکومت کے ناگفتہ بہ حالات تھے ہم تو آج بھی انہیں حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اب ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ ہم نے چےئرمین صاحب کو کھری کھری سنادیں۔ ہم نے کہا جناب تمہاری پارٹی ناکام ہوگئی ہے توالگ بات ہے ورنہ اللہ کا شکر کرو کہ ُپر امن اور کافی حد تک شفاف انتخابات ہوئے ہیں اور بڑی خوش اسلوبی سے ایک جمہور ی حکومت تبدیل ہو رہی ہے اور کیا چاہئے ؟اسی دوران چائے آچکی تھی اور چےئرمین صاحب کا غبار بھی کافی حد تک ہلکا ہو چکا تھا ۔لگ رہا تھا چائے اور سگریٹ کے کمبی نیشن کو چےئرمین صاحب اب انجوائے کر رہے ہیں۔ چائے کی سِپ لیکر سگریٹ کا کش لیا اور دھوئیں کے مرغولے بناتے ہوئے فرمایا یار بات توتم ٹھیک کرتے ہو۔ یہ بات بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ عوام نے ہماری پارٹی کو ووٹ نہیں دئیے اگرچہ ہمارے امیدوارصاف ستھرے اور ایماندار تھے اور حالات بھی بے شک مثالی نہیں۔ الیکشن کے نتائج بھی شاید مثالی نہیں۔ چہرے بھی کوئی خاص تبدیل نہیں ہوئے۔جاگیرداری اپنی پوری نحوست اور اپنے منفی اثرات کے ساتھ یہاں موجود ہے۔ قانون کی نظر میں بھی یہاں شاید سب برابر نہیں، اقرباء پروری اورکرپشن بھی رگوں میں چلنے والے خون کی طرح یہاں سرائیت کر چکی ہے۔ کہنے لگے مگر یہ سب مسائل ایکدم ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ بتدریج عوام کو شعور آئے گا اور تبدیلی بھی بتدریج ہی ہوگی اور مکمل نہ سہی عوام نے کسی حد تک اس الیکشن میں بھی سنگدل اور بے حس نمائندوں کا احتساب ضرور کیا ہے۔ ہم چےئرمین صاحب کے موڈ کی اس اچانک تبدیلی پرحیران ر ہ گئے۔ پوچھا پھر جناب کی پارٹی کا کیا مستقبل ہو گا؟؟فرمایا ہم دیکھ رہے ہیں حالات کو، اور عوام بھی دیکھ رہے ہیں۔ انتظار کرتے ہیں، موقع دیتے ہیں سدھرنے کا۔ فرمایا ہمیں تو صرف اس ملک کی ترقی اور خوشحالی عزیزہے چاہے کسی کے ہاتھ سے ہی ہو ۔یہ کہتے ہوئے چےئرمین صاحب کے دل اور آنکھوں میں حقیقتاً حب الوطنی کا شدید جذبہ اُمڈ آیا تھا۔کہنے لگے اگر بار بار موقع دینے کے باوجود بھی حالات نہ بدلے تو پھر ہم بھی فیصلہ کریں گے اور عوام بھی اور یہ بھی کہ جی ٹی روڈ زیادہ اچھی بنی ہوئی ہے کہ موٹر وے۔یہ کہتے ہی چےئرمین صاحب جانے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ کہنے لگے یار تھوڑی جلدی ہے گھر جا کے مونچھوں کی ”سرنگونیت“بھی ختم کرنی ہے اور ٹوپی کا پھندنا بھی لگانا ہے۔ لو پھر اللہ دے حوالے۔ یہ کہتے ہوئے چےئرمین صاحب باہر آئے اور عمر میں اپنے سے بھی سینئر ویسپا کی کک لگا کے چل پڑے۔
تازہ ترین