• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی،لندن
مجھ جیسی عاشقان اردو کا دل ملال کی کیفیت میں رنج میں رہتا تھا اور رہتا ہے، جب میں اپنی زبان کی ناقدری اور درگت بنتے دیکھتی ہوں کہ اسے ہم نے سیکنڈری پوزیشن کی ہلکی سی اسٹیج پر پہنچا دیا۔
اس زبان سے محبت کرنے والے مجھ جیسے کئی عشاق ہیں۔ ماں سے محبت والوں کو ماں بولی سے محبت بھی ہوتی ہے اور ہونا یہ چاہیے تھا کہ اپنی تمام تر راعنائی کے ساتھ اردو نہ صرف ہماری دنیا تک محدود رہتی بلکہ اس کے حسن کی روشنی سے دنیا کو روشن کرنا تھا، مگر آپ دیکھئے کہ کہیں تو اردو کو دنیا کی تیسری زبان کہا گیا کہ آکسفورڈ والوں نے اردو کے بہت سے الفاظ انگریزی میں شامل کیے ہیں جو فخر کی بات ہے۔
مگر افسوس کہ ہم مغالطے میں ہیں کہ اردو ابھی تک وطن عزیز میں دفتری زبان ہونے کی حیثیت سے محروم ہے۔ ہمارے خیال میںتو اسے قائداعظم کے زمانے ہی سے دفتری زبان کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے، مگر اب کیا وجہ ہے کہ اشرافیہ نے کوشش نہیں کی اسے دفتری زبان کا درجہ دینے کی، تب ہی تو اردو سےبغض رکھنے والوں نے سیاسی اسٹیج پر فرمایا تھا کہ اردو ہماری زبان ہی نہیں ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں زبانوں پر لڑائی لڑی جاتی ہے۔ خوشی کی بات یہ کہ دو قومی نظریے کی بنیاد بھی بنی تھی جب ہند واتاکے انتہا پرستوں نے اسے دیونا گری رسم الخط میں ایسے ہی لکھنا شروع کیا تھا جیسے آج میرے نوجوان اسے اردو رسم الخط کی بجائے رومن الفاظ میں لکھتے ہیں اور والدین فخر سے کہتے ہیں کہ ’’ہمارے بچوں کو بہت اچھی رومن اردو لکھنا آتی ہے۔‘‘
خیر بھلے ہی تقسیم ہند میں یہ کئی مخصموں کا شکار رہی ہو اور اس وقت کے انتہا پسندوں نے اسے عدالت کے ذریعے اردو سے ہندی کہنا تو شروع کردیا تھا مگر بعد میں آنے والے لوگوں نے اس کی پھر کوئی خدمت کی کہ پوری بولی ووڈ میں اردو فلمیں، اردو کہانی کار، اردو شاعروں نے اس کی شان سے انڈسٹری میں نئی جوت جگا دی۔ سعادت حسن منٹو، ساحر لدھیانوی، عصمت بیگ چغتائی، کیفی اعظمی، راجندر ناتھ ٹیگور کی طویل عرصے سے اردو کے لیے جن لوگوں کی خدمات ہیں گوپی چند نارنگ، سیتہ پال آنند او رگلزار کے کیا ہی کہنے کہ بالی ووڈ میں گلزار نے جس طرح سے اردو کی جوت جگا کر رکھی ہے وہ محبت بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ نام تو بہت ہیں پرانے اور اب کے لوگوںکے کہ جنہوں نے اردو کو محبت سے سنبھال رکھا ہے، ان بہت سوں کی طویل فہرست ہے۔ اہلیان پاکستان کو یہ اس سال کا تحفہ نصیب ہوا ہے کہ اقوام متحدہ نے اردو کی بین الاقوامی اہمیت کو تسلیم کرلیا اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا نئے سال کا پیغام پہلی مرتبہ چھ عالمی زبانوں کے ساتھ اردو میں بھی نشر ہوا۔
شکر الحمدللہ کہ جو زبان ملک سے دور ہورہی ہے، وہ اقوام متحدہ میں معتبر ٹھیری۔ دیکھیں وہ زبان جو ابھی تک اپنے ملک میں سرکاری زبان کی اہمیت کو نہ پہنچ سکی وہ اقوام متحدہ کی سرکاری زبان جا ٹھیری۔ اب ہماری زبان کی عزت دوسروں کی کرم نوازیوں سے بحال ہوگی۔ ہم احساس کمتری کے مارے لوگ اس کی عزت بحال نہ کرسکے۔ ہم شرمندہ ہوں کہ غیروں کی مرہون منت ہماری زبان کی ترقی کا دارو مدار ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ انگریزی کو پڑھائی اور سبجیکٹ کے طور پر لینے کی بجائے ہم اندھا دھند سیکھنے اور فیشن کے طور پر اسے بولنے کو اپنا منفرد انداز سمجھتے ہیں جبکہ یہ جہالت کی اولین ترجیح ہے۔ اپنی شناخت بنانا اردو کو توہین اور انگریزی یا دوسری زبانوں کی تقلید فخر ہے۔ اس تہذیب یافتہ زبان کی اہمیت ان سے جانیے جنہیں فخر ہے اس پر اور جن کا فخر یہ زبان ہے۔ اس کے الفاظ کی ادائیگی اور مٹھاس شہد سی اور سحر سا اثر کرتی ہے۔
ہم نے تو اردو سے والہانہ محبت کے کچھ ایسے انداز دیکھے اور سنے ہیں کہ ’’ہمارے بزرگ جوکہ وکیل پٹھان فارسی دان تھے وہ پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں اپنے سینے پر لفظ اردو لکھ کر چلتے تھے کہ اردو پڑھیں، اردو بولیں اور اردو لکھیں۔ تو پہلے لوگ اسے پہچان کے ساتھ ساتھ تہذیبی ورثہ بھی سمجھتے تھے۔ اب بھی بہت سی تحریکیں اردو زبان کے سلسلے میں جاری ہیں کہ اسے سرکاری سطح پر نافذ کیا جائے تاکہ ملک کا ہر شہری اسے باآسانی لکھ پڑھ سکے۔ اردو زبان و ادب کے لیے بہت سے شعرا نے مدھ سرائی کی ہے۔ ان کی عقیدت اردو زبان سے با لکل ایسی ہے جیسے ایمان کا حصہ ہو۔ اس کی اہمیت مہذبین سے پوچھیے۔ خیر ہمارے نوجوانوں کو کافی سے زیادہ اردو کی اہمیت کا اندازہ ہورہا ہے اور بہت سے ایسے تہذیب یافتہ گھرانے بھی ہیں جنہیں اردو سے عقیدت ہے اور وہ اسے اسٹیٹس سمبل سمجھنے لگے ہیں، وہ ایسے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک کے سیاستدانوں کے بچے اپنی مادری زبان میں لکھنا، بولنا اور پڑھنا بھی کرلیتے ہیں تو انہیں اپنی خوب صورت بولنے میں کیا حرج ہے۔ اردو کو لازمی اس لیے کرنا بھی ضروری ہے کہ اردو دانوں کے ملک میں سیاست کرنا اور غریب کو پیغام انگریزی میں دینا، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
بہت سے شعرا کرام اور ادبی ہستیوں نے اردو سے عقیدت بھی کی اور اس کی خدمات میں بھی جو پیش رہے جن کے گیت اور افسانوں نے اردو زبان کو بام عروج بخش کر اسے اقوام متحدہ جیسے ادارے میں معتبر کیا، وہ کوئی اور نہیں ہمارے ہی درمیان رہنے والے عظیم لوگ ہیں اور اگر ان ناموں میں گلزار کا نام نہ لیا جائے تو زیادتی ہے جنہوں نے اردو کے لیے کیا کہا کہ
یہ کیسا عشق ہے اردو زباں کا
مزہ گھلتا ہے لفظوں کا زبان پر
کہ جیسے پان میں مہنگا قمام گھلتا ہے
یہ کیسا عشق ہے اردو زبان کا
نشہ آتا ہے اردو بولنے میں
گلوری کی طرح ہ یں منہ لگی سب اصطلاحیں
بڑی ارسٹو کریسی ہے زبان میں
فقیری میں نوابی کا مزہ دیتی ہے اردو
بڑے شائستہ لہجے میں کسی سے اردو سن کر
کیا نہیں لگتا کہ ایک تہذیب کی آواز ہے اردو
ادب کے شائستہ لوگ ہی اس کی اہمیت دوسروں پر اشکار کرتے ہیں کہ اردو سے محبت کیجئے۔
تازہ ترین