قیامِ پاکستان کے بعد ہم پر نازل ہونے والے ہر مسیحا اور نجات دہندہ نے یہی سبز باغ دکھایا کہ تمہارے منتخب عوامی نمائندے اِس ملک کا خزانہ لوٹ کر کھا گئے ہیں، کرپشن ہی اِس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اِسے روکے جانے تک ملک ترقی نہیں کر سکتا، ہم اُن بدعنوان سیاستدانوں کو اُلٹا لٹکائیں گے، کسی کو این آر او نہیں دیں گے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔ بھوکے ننگے عوام یہ مژدہ جان فزا سن کر خوشی سے دیوانہ وار جھومنے لگتے ہیں اور سب کام دھندہ چھوڑ کر اس انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ کب لوٹی ہوئی دولت واپس آئے اور ان کا مقدر سنور جائے۔ بیرون ملک جائیدادوں اور اکائونٹس کا سراغ لگانے کیلئے نت نئے محکمے تشکیل دیے جاتے ہیں، سراغ رساں اداروں اور کمپنیوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، قانونی جنگ لڑنے کیلئے مہنگے ترین وکلا کی فیسیں ادا کی جاتی ہیں، تفتیش کرنے کی غرض سے سرکاری افسر، وزیر اور مشیر سرکاری خرچ پر بیرون ملک سیر سپاٹے کرتے ہیں اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے بہانے مزید لوٹ مار کرلی گئی ہے۔ اسی طرح کرپٹ سیاستدانوں کا کڑا احتساب کرنے کے لئے مختلف محکمے بنائے جاتے ہیں، بار بار بتایا جاتا ہے کہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے، مقدمات بنتے ہیں لیکن آخر میں یا تو الزامات ثابت نہیں ہو پاتے یا پھر کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے سیاستدانوں کو سیاسی بندوبست کی لانڈری میں پاک صاف کرکے اپنے ساتھ ملا لیا جاتا ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد احتساب کے لئے صوبائی سطح پر ایک چھوٹا سا انسدادِ بدعنوانی سیل ہوا کرتا تھا جسے ون یونٹ کی تشکیل کے بعد ادارہ برائے انسدادِ بدعنوانی کا نام دیکر ایک الگ ڈائریکٹوریٹ بنا دیا گیا۔ ایوب خان نے اِس اینٹی کرپشن ڈائریکٹوریٹ کو اضلاع کی سطح پر پھیلا دیا اور پھر ایبڈو جیسے قوانین کے ذریعے عملِ تطہیر کا آغاز کیا جس سے سینکڑوں سیاستدان نااہل قرار پائے۔ یحییٰ خان اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے بدعنوان افسر شاہی کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی۔ ضیاء الحق تشریف لائے تو کڑے احتساب اور کرپشن کی روک تھا م کیلئے ایک نئے ادارے کی ضرورت محسوس کی گئی جسے محتسبِ اعلیٰ کا نام دیا گیا۔ غلام اسحاق خان صدر مملکت بنے تو انہوں نے بھی کرپشن کی مبینہ لہروں سے تصوراتی طغیانی کا بروقت اِدراک کرتے ہوئے ہنگامی حالت نافذ کر دی اور منتخب نمائندوں کا احتساب کرنے کے لئے صدارتی حکم نامے کے ذریعے خصوصی عدالتیں قائم کر دیں۔ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف کرپشن کے الزامات کے تحت 6ریفرنس فائل کئے گئے، اُنکے ساتھی جہانگیر بدر سمیت پیپلز پارٹی کے رہنما بھی زیر عتاب آئے۔ صدر غلام اسحاق خان کے دست راست روئیداد خان نے اپنی کتاب ''Pakistan-a dream gone sour''میں نواز شریف پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا ہے کہ ان کی عدم توجہی اور غیردلچسپی کے باعث یہ ریفرنس منطقی انجام کو نہ پہنچ سکے اور احتساب کے خواب ادھورے رہ گئے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جب میاں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو سیف الرحمٰن کی سربراہی میں ’’احتساب سیل‘‘ تشکیل دے کر نئے سرے سے چھان بین کا فیصلہ ہوا، ایس جی ایس، کوٹیکنا، ارسس ٹریکٹر، پولو گرائونڈ اور آمدنی سے زائد اثاثہ جات سمیت نہ جانے کتنے ہی مقدمات بنائے گئے۔ پرویز مشرف نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو سیاستدانوں کے کڑے احتساب کیلئے قومی احتساب بیورو کے نام سے ایک نیا ادارہ تشکیل دیا گیا اور قوم کو خوشخبری سنائی گئی کہ لوٹی ہوئی تمام رقم واپس آنے کو ہے لیکن سب امیدیں جھوٹی اور تمام توقعات غلط ثابت ہوئیں۔ براڈ شیٹ نامی کمپنی سے بیرون ملک اثاثہ جات کا سراغ لگانے کیلئے معاہدہ کیا گیا جسکے تحت لوٹی ہوئی دولت واپس آنے پر اس کمپنی کو 20فیصد رقم ادا کی جانا تھی۔ جنرل پرویز مشرف جنہیں ’’سب سے بڑا ڈاکو‘‘ اور چور کہا کرتے تھے اُنہیں اپنے سایہ عاطفیت میں لے لیا۔ احتساب کی مدھانی مار کر اپنا اقتدار مضبوط کر چکے تو اس معاہدے کو توڑ دیا۔ قانونی جنگ طویل ہوتی گئی، آخر کار اس کمپنی کے ایک پارٹنر کو 1.5ملین ڈالر اور اب دوسرے حصہ دار کو 29ملین ڈالر دے کر جان چھڑائی گئی۔ براڈ شیٹ کی کہانی آپ تک پہنچ چکی ہو گی اس لئے اس پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے تو یہ پریشانی لاحق ہے کہ کوئی نیا پرویز مشرف پھر سے ایک نیا معاہدہ کرکے نئی لوٹ مار کی راہ ہموار نہ کردے۔ میں نے کاوے موسوی کی جتنی گفتگو سنی ہے، اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اب بھی لوٹی ہوئی دولت سے متعلق معلومات دستیاب ہیں، اگر حکومت پاکستان چاہے تو پھر سے ان سرابوں کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔ ایسٹ ریکوری یونٹ کے غیرملکی سیر سپاٹوں پر پہلے ہی بہت اخراجات ہو چکے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ابتدائی 17ماہ میں یہ یونٹ 35ملین روپے خرچ چکا تھا۔ آج تک لوٹی ہوئی دولت کا ایک دھیلہ تک واپس نہیں آیا البتہ باکمال ہنرمند اس طرح کے خواب دکھا کر اربوں روپے ہتھیا چکے ہیں۔ آپ نے وہ مشہور کہاوت تو سنی ہوگی: تم نے مجھے ایک بار بیوقوف بنایا، تم پر لعنت۔ تم نے مجھے دوسری بار بیوقوف بنایا، یعنی میں پھر سے تمہارے جھانسے میں آیا، مجھ پر لعنت۔ تم نے مجھے تیسری بار اپنے جال میں پھنسایا، ہم دونوں پر لعنت۔ اب آپ خود ہی حساب لگا لیں، لعنت کس پر بھیجنی ہے؟