• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لکھا تو کچھ اور تھا، مگر ضروری تو نہیں جو لکھا جائے شائع بھی ہو جائے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے۔ احتیاط آڑے آجاتی ہے اور یہ اُس وقت اور بھی زیادہ آڑے آتی ہے جب بچّے پڑھے لکھے ہوں، اُنہیں اظہار کی پوری آزادی ہو اور تنقید بھی وہ خوب کرتے ہوں۔ ہوتا عام حالات میں بھی یہی ہے کہ جو کچھ لکھا جاتا ہے پہلے ان کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، ان کی رائے لی جاتی ہے۔ وہ بھی کمال کے لوگ ہیں، کوئی خیال نہیں رکھتے، دل کھول کر تنقید ان کی عادت ہے، عداوت تو نہیں، اس سے ذرا قریب۔ یہ لفظ ٹھیک نہیں ہے، تکرار بہت ہے، اس میں یہ زیادہ ہے، وہ کم ہے، بات بنی نہیں۔ جو ان کے جی میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں۔ اس بار بھی یہی ہوا، کالم ذرا جلدی لکھ لیا تھا۔ مواد ایک تقریر سے مل گیا تھا، خیال تھا اور کچھ عادت سی بھی بن گئی ہے مشورے دینے کی، بہت سی باتیں بہت سے لوگوں کے کہنے کی نہیں ہوتی ہیں، انہیں کہنی نہیں چاہئیں۔ اگر کوئی تیس چالیس سال سے عوامی زندگی گزار رہا ہو، سیاست کر رہا ہو تو اب تو بات پہلے تولنے پھر بولنے کی فضیلت سے آگاہ ہو جانا چاہئے۔ اس سے بات نکلی مگر دور تلک چلی گئی۔ بچّوں کی رائے مختلف تھی انہیں انداز تو شاید پسند آیا، ان باتوں کے اظہار پہ اختلاف تھا، شدید۔ بحث مباحثہ ہوتا ہے مگر کبھی مفید ثابت نہیں ہوا۔ ان سے کوئی جیت نہیں سکتا، نئی نسل پرانی نسل سے بہت سے معاملات میں بہتر ہے، ہمیشہ ہی ہوتی ہے۔ اکبر الہ آبادی نے اگر کہا تھا
ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
تو یہ ان کی پرانی نسل کا نئی نسل کے سامنے اعترافِ شکست تھا۔
ابھی بحث جاری تھی کہ زہرہ شاہد کو قتل کر دیا گیا ایک اور تنازع کھڑا ہوگیا۔ عمران خان نے سیاسی عجلت میں قتل کا الزام براہِ راست متحدہ کے قائد الطاف حسین پہ دھر دیا۔ سیاسی کلچر یہاں ہے نہیں، سیاسی قائدین تحمل بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں نہ قانونی تقاضوں کا۔ بلا تحقیق کسی پر الزام لگا دینا عام سیاسی شعبدہ بازی تو ہو سکتی ہے، اس کا اصل مقصد ، قاتل کی گرفتاری ،شاید ہی اس طرح حاصل ہو سکے۔ ابھی اس الزام کی بازگشت ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ جوابی الزام تراشی شروع ہوگئی، پرانے بخیے ادھیڑے گئے۔ سیتا وائٹ کو قبر سے نکال کر عمران خان سے جواب طلب کیا گیا۔ دونوں طرف سے خوب کیچڑ اُچھالا گیا۔ ٹی وی پر دونوں کے حامیوں نے اپنے اپنے پہلوانوں کو خوب خوب داد دی۔ جو اِدھر ہیں نہ اُدھر، دانتوں میں انگلیاں دبائے بیٹھے رہے، سنتے رہے، سوچتے رہے یہ ہمارے قائدین ہیں؟ ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں ہوتی ہے یا ہوگی؟ حیرانی سی حیرانی ! مگر اس کا حاصل کیا؟ سنتا کون ہے کہ کوئی سنائے۔ بچوں کی دلیل بھی یہی تھی۔ ان حالات میں بہت سی باتیں کہی نہیں جا سکتیں۔ کہی تو جا سکتی ہیں مگر سننے والے کیا انہیں سننے پر راضی ہیں؟کیا وہ بات کا اصل مقصد سمجھنا پسند کریں گے؟ یا انہیں اپنے نقطہ نظر سے دیکھیں گے؟ ان میں مخالفت کے پہلو تلاش کریں گے اوراُن پر ہی زیادہ توجہ ہوگی۔ بات کا جو اصل مقصد ہے وہ رنگ دار شیشوں میں اپنا اصل رنگ کھو دے گا۔ مقصد شاید اصلاح ہو (آپ کون ہیں بھئی اصلاح کرنے والے؟)مفہوم کچھ اور تلاش نہ کر لیا جائے ۔
دوسرا دن بھی گرد آلود طلوع ہوا۔ حیدرآباد میں ہڑتال رہی۔ گھر سے باہر نکلنے کے راستے بند تھے۔ گاڑیوں کو ”نا معلوم“ افراد نے آگ لگادی تھی، سڑکوں پر ٹائر جلتے رہے۔ گئے تو شادی کی تقریب میں تھے، دن بھر لُو کے تھپیڑے اور دھول مٹی پھانکتے رہے۔ اس شہر کا کوئی والی وارث نہیں ہے یا شاید ہے، پلاٹ لینے دینے ، ترقیاتی فنڈ سے اپنے گھر بنانے اور ذاتی فائدے اٹھانے کیلئے۔ اس کے دکھ کا مداوا کوئی نہیں کرتا۔ سو یہ اجڑا اجڑا سا لگتا ہے، لگتا کیا ہے، اجڑہی گیا ہے۔ کبھی یہاں علم وادب کے روشن چراغ رہتے تھے، پورے ملک میں روشنی پھیلاتے تھے۔ بڑے بڑے نام ہیں جو یہاں پروان چڑھے۔ اب جلتے ٹائروں کا دھواں ہے، خوف ہے کہ ہر سو چھایا رہتا ہے۔ انتخابات ہوں تو مرضی کسی اور کی چلتی ہے، سہولت یہ کہ ووٹر کا ووٹ اس کے گھر بیٹھے ڈل جاتا ہے۔ انتخابات ہو چکیں تو صاحبانِ اقتدار پینے کا صاف پانی تک فراہم نہیں کر پاتے۔ سو دن یہاں بھی اسی کیفیت میں گزرا۔
لکھنے کو قلم اٹھاؤ تو بات گھوم پھر کرچند باتوں تک محدود رہتی ہے۔ یہ باتیں سب جانتے ہیں، سب نے سنی ہیں، سب سن رہے ہیں، انہیں دہرانے کا فائدہ؟ ان پر تبصرہ کریں تو بحث مباحثہ شروع اور جیت انہی کی جو زیادہ سمجھدار، زیادہ محتاط ہیں مگر کیا ان کی ساری باتیں مان لینی چا ہئیں؟ کچھ باتوں پر تو بات ہو سکتی ہے۔ زہرہ تحریکِ انصاف کی وائس چیئرمین تھیں۔ پہلے شاید ہی کبھی ان کا نام سنا ہو، سنا بھی ہو تو یاد نہیں، اپنی معلومات کا قصور ہے مگر جب ان کے قتل کئے جانے کی اطلاع ملی تو جھٹکا سا لگا، شدید صدمہ ہوا۔ وہ ایک بزرگ خاتون تھیں، ساٹھ برس کی۔ ان سے کسی کو کیا خطرہ ہو سکتا تھا، وہ کسی کا کیا بگاڑ سکتی تھیں۔ دھان پان سی معمر خاتون ، اس عمر میں سیاست میں فعال تھیں یا ابھی ہوئی تھیں اور بس۔ اُنہیں قتل کر نے کی کسی کو کیا سوجھی؟ کس نے اُن کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے؟ دنیا اور آخرت میں اپنا منہ کالا کیا۔ یہ تو طے ہے کہ اُنہیں ایک منصوبے کے تحت قتل کیا گیا، ان کے گھر کے باہر، جب وہ دروازہ کھلنے کا ا نتظار کر رہی تھیں۔منصوبہ ساز کوئی تو ہوگا، اس کی تلاش ضروری ہے۔ اس المیہ پر سب کو اپنے دکھ کا اظہار کرنا چاہئے تھا۔اس لئے نہیں کہ اس شہر نامراد میں یہ پہلا قتل تھا، لوگ تو آئے دن ظالموں کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ دکھ اس لئے کہ دل پتھر ہو گئے ہیں،عورتوں پر ہاتھ اٹھانا ہمارے یہاں ہمیشہ معیوب سمجھا گیا، لوگ اب اُن پر بھی بندوق اُٹھا رہے ہیں۔اس قتل کی سب کو مذمت کرنی چاہئے تھی اور تحقیقات کا نہ صرف مطالبہ کرنا چاہئے تھا بلکہ ہر ممکن حد تک اس میں تعاون بھی۔ یہ تو نہیں ہوا،الزام اور جوابی الزام، ہڑتال اور احتجاج۔ کیا یہ مسئلے کا حل ہیں؟ زہرہ شاہد کے قاتل اس احتجاج سے مل جائیں گے؟سیتا وائٹ کی بیٹی اگر عمران خان سے آپ نے ملوا بھی دی تو زہرہ آپا کا خاندان تو اپنی سرپرست سے محروم ہو ہی گیا، وہ تو محروم ہی رہے گا۔
چلئے اور جو کچھ لکھا تھا وہ تو رہ گیا ایک طرف،ایک بات تو سن لیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ سب مل بیٹھیں۔آپ سب، تمام سیاسی جماعتیں مل کر مسائل کا حل تلاش کریں، مسائل کی گمبھیرتا کا اندازہ لگائیں، حالات کدھر جا رہے ہیں یہ ہمیں، اس قوم کوکہاں لے جائیں گے؟کیا ہم انہیں برداشت کر سکتے ہیں؟ اس پر غور کریں۔آئے دن کی قتل و غارت گری، معیشت پر، یہاں کے باشندوں کی نفسیات پر کتنے منفی اثرات ڈال رہی ہے،اس کا جائزہ لیں۔ حل تلاش کریں،مل کر۔ وقت تیزی سے نکلتا جا رہا ہے،نکل گیا تو پھر ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں گے،شہر کو سیلاب لے جائے گا، مژگاں اگر نہ کھلیں۔
تازہ ترین