• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

PCB کا بھارت کیخلاف ساڑھے چار ارب ہرجانے کا دعویٰ

اسلام آباد (زاہد گشکوری) پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ثالثی کے ایک کیس میں بھارت سے ہرجانہ حاصل کرنے کیلئے 33؍ کروڑ روپے خرچ کر دیے ہیں لیکن سرکاری دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اب تک کوئی ریکوری نہیں کی جا سکی۔یہ بھاری رقم ملک کے بہترین 192؍ کرکٹرز کو 2020-21ء کے سیزن میں میرٹ پر دیے جانے والے مشاہرے کیلئے پی سی بی کے مختص کردہ 169؍ ملین روپے کے سالانہ بجٹ سے سو فیصد زیادہ ہے۔

اگرچہ پارلیمانی پینل کے سامنے عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ اس معاملے کی انکوائری کرائی جائے گی کہ پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی تنازع طے کرنے کے فورم (ڈسپیوٹ ریزولیوشن فورم ۔ ڈی آر ایف) میں اپنا مقدمہ کیوں ہارا لیکن اس کے باوجود پی سی بی نے کوئی انکوائری نہیں کرائی۔

پارلیمانی پینل نے حال ہی میں پی سی بی سے کہا تھا کہ یہ پتہ لگایا جائے کہ بغیر پیشگی تیاری کیے کس عہدیدار نے پی سی بی انتظامیہ کو بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کیخلاف ساڑھے چار ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

پی سی بی کے موجودہ چیئرمین احسان مانی نے خود اعتراف کیا تھا کہ پاکستان نے اربوں روپے کا دعویٰ کرنے سے قبل اپنی تیاری مکمل نہیں کی ہوئی تھی، بی سی سی آئی اپنی باضابطہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام رہا تھا جن میں 2014ء کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان 6؍ دو طرفہ کرکٹ سیریز کے انعقاد کا وعدہ کیا گیا تھا۔

بین الوزارتی رابطے کی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اپنے تحریری جواب میں حیران کن انکشافات کیے کہ پی سی بی نے ڈی آر ایف کے احکامات کے تحت بی سی سی آئی کو قانونی چارہ جوئی کی مد میں 1.53؍ ملین ڈالرز کی ادائیگی کی۔

ڈاکٹر مرزا کے انکشافات کے مطابق، پی سی بی نے آئی سی سی کو ڈی آر ایف کے 60؍ فیصد اخراجات بھی ادا کیے جن کی مالیت 113.757؍ ملین ڈالرز تھی۔ وزیر نے اپنے جواب میں یہ بھی بتایا ہے کہ پی سی بی نے مختلف لاء فرمز (قانونی کمپنیوں) کو اور بیرون ملک جاری قانونی مقدمہ بازی میں حصہ لینے والے پی سی بی کے عہدیداروں کے سفری اخراجات اور باضابطہ کارروائیوں پر 7؍ کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے۔

ڈاکٹر مرزا کے مطابق، قانونی مقدمہ بازی کیلئے پی سی بی نے انگلینڈ اینڈ ویلز، پاکستان اور متحدہ عرب امارات سے قانونی آراء حاصل کیں اور ڈی آر سی کے روبرو دعویٰ دائر کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ابراہیم اینڈ حسین کو فیس کی مد میں 26.2؍ ملین روپے، کلیفورڈ چانس ایل ایل پی نے 30.4؍ ملین روپے، لارڈ پانک کیو سی نے 4.6؍ ملین روپے جبکہ آفریدی اینڈ اینجل نے پی سی بی انتظامیہ کو قانونی معاونت فراہم کرنے کیلئے 0.711؍ ملین روپے فیس کی مد میں وصول کیے۔

ڈاکٹر مرزا نے پارلیمنٹ کو مزید بتایا ہے کہ پی سی بی عہدیداروں نے دبئی کے سفر اور رہائش کیلئے مزید ایک کروڑ روپے خرچ کیے۔ رکن قومی اسمبلی سعد وسیم، جنہوں نے پی سی بی عہدیداروں سے اس معاملے پر سوالات کیے، کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’’ہم اس معاملے پر 330؍ ملین روپے کے نقصان کی جامع تحقیقات چاہتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ نقائص سے پُر اس معاملے کا ذمہ دار کون ہے۔ پی سی بی اس معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دے اور معاملہ دبایا نہ جائے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ایک معاملے پر پی سی بی انتظامیہ نے انہیں جواب دیا کہ ’’پی سی بی نے فروری 2015ء میں اپنے ملازمین کی تنخواہوں اور مشاہروں کے حوالے سے حساس معلومات پارلیمنٹ کو فراہم کی تھیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ خفیہ معلومات الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تک پہنچ گئیں اور اس معلومات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور پی سی بی پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے گئے لہٰذا اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے پارلیمنٹ کو تفصیلات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔‘‘

پی سی بی کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) توقیر ضیا کا کہنا ہے کہ پی سی بی کو چاہئے کہ اس معاملے کی جامع تحقیقات کرے۔

تازہ ترین