ہم نے مانا کہ پی ڈی ایم کے کوچہ و بازار میں نکلنے کا مطلب جمہوریت کو دوام بخشنا ہی ہوگا۔ ہم نے یہ بھی مانا کہ جس طرح تحریکِ انصاف میں لوگ اپنی پارٹیاں اور ماضی کے چال چلن ’’ترک‘‘ کرکے نیاپاکستان کیلئے آئے۔
ٹھیک اسی طرح ہی بھٹو خاندان کی نوجوان قیادت اور شریف خاندان کی نئی قیادت پارلیمانی و ملکی سیاست میں نئی صبح کا عزم لے کر اُتری ہے۔
ہمیں اس سے بھی انکار نہیں اور ہم یہ بار ہا دہرا بھی چکے کہ، جمہوریت اگر ملک و ملت کا حُسن ہے تو اسٹیبلشمنٹ اس کا رومانس مگر قابلِ غور اور قابلِ عمل بات یہ، کہ کوئی بھی جامے سے باہر نہ ہو ! یقین کیجئے پارلیمنٹ پر یقین رکھنے والوں کیلئے آئین سے بڑا کوئی راہ نما نہیں۔
معاملہ سینیٹ الیکشن کے طریقۂ کار کا ہو یا عام انتخابات کا۔ اور چاہے معاملہ کسی ایکسٹینشن کا ہو یا حزب اختلاف و حزب اقتدار کے کسی ری ایکشن کا!
اجی ہمیں تو سب اپنے لگتے اور پیارے پاکستانی بےشک ان کا تعلق اے این پی سے ہو یا پی ٹی آئی یا پی اے ٹی سے، ں لیگ اور پیپلزپارٹی والے بھی قطعی غیر نہیں لگتے کہ نفرت کو اس حد تک لے جائیں، کہ واپسی کا راستہ ہی نہ رہے۔ کتنی سیاسی و غیر سیاسی نفرتوں کی آگ کو ہم نفرتوں سے بجھا سکے؟
نفرتوں کو رواج بخش کر ہم عام آدمی اور عام آدمی کے کاروبارِ زندگی میں بہتری لا سکے؟ میرا خیال ہے ان معصوم و غیر معصوم سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں مگر آئیں بائیں شائیں سبھی کے پاس ہے۔
ترقیوں کے زینے چڑھنے کیلئے محنت اور ترتیب کی ضرورت ہوتی ہے مقصد سیاسی فلک بوسی کا ہو یا معاشی ۔ چلیں سیاسیات سے قبل ایک چھوٹی سی اقتصادیات کی بات پہلے کھیلتے ہیں۔ عالمی رینکنگ میں معاشی ترقی کو کسی بھی ملک میں جن دس چیزوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے وہ یہ ہیں:
کاروباری شروعات میں آسانی کتنی ہے؟ تعمیرسازیوں کی اجازت اور مہنگائی کا معاملہ کیا ہے؟ بجلی کے حصول اور رسد کے معاملات کیسے ہیں؟ پراپرٹی کی رجسٹریشن آسان ہے؟ قرضوں اور سرمایہ کاری میں بینکوں کی معاونت کیسی ہے؟ چھوٹے سرمایہ کار کا تحفظ کیا ہے؟ ٹیکس کی شرح اور ادائیگیوں کا عالم کیا ہے؟ امپورٹ اور ایکسپورٹ کس قدر آسان ہے؟ قانونی معاہدوں کی پاسداری کیسی ہے؟
بعد از دیوالیہ پن مسائل کا حل کیسے ممکن ہے؟ عرض صرف اتنی ہے وزیراعظم و وزرائے اعلیٰ ہوں یا بلاول و مریم ان سوالوں کا اسٹڈی سرکل اور ان پر احتجاجی و پارلیمانی و انتظامی سیاست فرض ہے۔گناہ نہیں۔گورنمنٹ و اپوزیشن اس پر اپنا اپنا مکالمہ و موقف نہیں رکھتے تو یہ بزمِ وفا سے باہر ہیں!
کسی بھی لیڈر کو گر بزمِ وفا میں رہنا ہے (صرف بلاول بھٹو اور مریم نواز نہیں) تو اسے سوچنا اور پڑھنا ہوگا کہ، جاگیردارنہ نظام دنیا سے کب کا ختم ہوا؟ جاگیرداری زرعی سرمایہ کاری میں کیوں اور کیسے بدلی؟ ریسرچ یونیورسٹی میں ہوتی ہے کہ یونیورسٹی کے باہر؟ کتنے کسانوں کو کھیتی باڑی کے بعد چوہدری کا ناٹک کیسے اور کیوں کرنا پڑتا ہے؟
زرعی ڈویلپمنٹ اور کسان دوستی درآمدات و برآمدات کی اقتصادیات سے بھی اہم، اور اس کیلئے بھی اہم کیسے؟ نوجوان سیاست دانوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ بشری کمزوریوں کے باوجود آخر اسد سکندر جام شورو سے اقلیتوں سے محبت کی پاداش میں ایم این اے و ایم پی اے بنتا کیسے ہے، اور ماضی کے بادشاہ گھوٹکی کے مہر چالیس پچاس کروڑ کی گاڑی سے اتر کر پیپلزپارٹی کے امیدوار کے طور سے گدھا گاڑی پر آتے کیسے ہیں؟
ڈاکٹر ارباب رحیم جیسا سابق وزیر اعلیٰ سندھ عمر کوٹ میں ایک کم سن سیاستدان سے ہار کیوں جاتا ہے؟ کرشنا کماری سینیٹ تک پہنچی کیسے؟ مخدوم احمد محمود جیسے زمیندار کے دو دو بیٹے قومی اسمبلی میں پہنچتے ہیں تو اِس سابق گورنر کا وقت سڑکوں پر گزرتا کیوں ہے؟
سماجیات اور سیاست کی یہ گتھیاں سلجھانا سیاست کے طالب علم، انسانی حقوق کے رضاکار، سوشیالوجی کے پروفیسر اور سیاسی لیڈران کا کام ہے اسٹیبلشمنٹ کے بابو یا بیوروکریٹک ملازم کا نہیں۔
ہاں، اگر سیاسی و سماجی کارکنان اس فہم و فراست سے باہر ہیں تو وہ انسانی بزمِ وفا سے باہر ہیں۔ یہ سب سوال پیچیدہ ہیں اور 'مکس اچار بھی اس پر کبھی ایک سالم کالم بھی ضرور ہوگا۔
ہماری صوبائی اسمبلیوں کی مجالس ہوں یا قومی اسمبلی کی بزم یا سینیٹ کا حلقہ یاراں ان سب کیلئے 1973 آئین کی مشترکہ سیاسی و سماجی راحت کے بعد 18 ویں ترمیم ایک جادوگرانہ فصاحت و بلاغت و جمہوریت ہے۔
میرا نہیں خیال کہ کسی لیڈر یا سربراہ مملکت و سربراہ حکومت کو سینیٹ الیکشن کے خفیہ رکھنے یا شو آف ہینڈز کیلئے کسی عدالت سے رہنمائی لینی چاہئے، جمہوری چاہت یا سیاسی محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ملک و ملت کی ضرورت ہے تو آئینی ترمیم لے آئیں، اور اگر معاملہ جمہوری یا سیاسی سے زیادہ ذاتی بنا بیٹھیں ہے تو آپ جانیں یا آپ کے ’’دوست‘‘!
سزاؤں، اناؤں اور وفاؤں کو ایک صفحہ پر اکٹھا کرکے دیکھیں تو ہم ماضی کو فراموش نہیں کرسکتے مگر ماضی میں رہ بھی نہیں سکتے کیونکہ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ ماضی بلاول والوں، مریم والوں کا ہو یا عمران خان کا، ان سب کو بھی ذرا ایک صفحہ پر رکھ کر دیکھ لیجئے آج کے اہلِ اقتدار کی پچھلی قباؤں اور حالیہ وباؤں کے فرق کی سمجھ آجائے گی۔
اور یہ جو روز راگ الاپے جاتے ہیں کہ پی ڈی ایم یہ اور پی ڈی ایم وہ، اس شور آلودگی سے سیاسی موسم کو گندا کرنا ہے تو ’’اہل علم‘‘ کی مرضی تاہم دانش و بینش یہ کہتی ہے کہ پی ڈی ایم مختلف سیاسی جماعتوں کا مجموعہ ہے مگر اپنی اپنی نظریاتی خودمختاری کے ساتھ، مینگل صاحب اور اچکزئی صاحب اپنی باتیں اپنے حساب سے کُھل کر اور مسلم لیگ نون اپنے حساب سے کرتی ہے۔
پیپلزپارٹی کا اپنا حساب ہے، حساب کتاب یہ کہتا ہے سندھ حکومت مستعفی بھی ہوجائےتو بھی سینیٹ کا الیکشن نہیں رکتا، قومی اسمبلی سے استعفے آجائیں اور اسپیکر وہ قبول نہ کرے الیکشن ہوجاتا ہے، ماضی میں پی ٹی آئی کے استعفے بھی تو سو دن پڑے رہے تھے۔
پی پی پی اور اے این پی میں مماثلت دکھائی دیتی ہے تو اس میں کیا جمہوری و سیاسی خرابی ہے۔ پیپلزپارٹی اگر چاہتی ہے کہ سندھ حکومت کی قربانی کے بجائے پنجاب میں چوہدریوں کو وزارتِ اعلیٰ دے کر نون لیگ اِن ہاؤس تبدیلی لے آئے تو کیا یہ ایک حل نہیں ہے؟ دوسری جانب نون لیگ یا مریم نواز یہ سمجھتی ہیں کہ، چوہدری برادران ڈلیور کرلیں گے اور ہمارے لئے مستقبل کی سیاست مشکل ہوجائے گی، پس بے ذائقہ و بے بو و بےمزہ بزدار حکومت ہمارے سیاسی مستقبل کیلئے بہتر ہے۔
تو یہ سوچ نون لیگ کا حق ہے، کوئی اتحادی بےوفائی نہیں! اگر اپنی اپنی مصروفیت کے سبب مریم یا بلاول کسی پی ڈی ایم اجتماع پر نہیں جا پاتے تو وفا سے رُوگردانی یہ بھی نہیں۔
مانا کہ آج کا کالم سیاسی و جمہوری رضاکاروں کے لئے کئی مشکل سوال چھوڑے جارہا ہے بہرحال اِن کے جوابات تلاش کرنا ضروری ہے۔
لیکن بدلتے موسموں اور ارتقائی جدتوں کے اس جمہوری ایکوسسٹم میں دیکھا جائے تو آئینی و جمہوری و سیاسی میدان اور بزمِ وفا میں بلاول بھٹو اور مریم نواز اپنے اپنے مقام پر جَم کر کھڑے ہیں۔ فکر کرنی ہی ہےتو پی ڈی ایم کی نہیں، ’’اوروں‘‘ کی کریں!