• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

براڈ شیٹ ایک بڑا اسکینڈل ہے جس کی حقیقت قوم کے سامنے آنی چاہئے۔ اس اسکینڈل میں مسلم لیگ ن سمیت کوئی بھی سیاستدان اگر ملوث ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ اربوں روپے کی خرد برد کے اس سنگین معاملے کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ ہمارے خیال میں سپریم کورٹ اس معاملے کا ازخود نوٹس لے۔ تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس بھی قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اگر غیر قانونی فنڈنگ ڈکلئیر ہوگی تو حکومت کو گھر جانا ہوگا۔ اسرائیل سے فنڈنگ کی اطلاعات تشویشناک ہیں۔ الیکشن کمیشن اس حوالے سے اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری بغیر کسی سیاسی دبائو کے ادا کرے۔ فارن فنڈنگ کیس گزشتہ 7برس سے التوا کا شکار ہے۔ اس کو اب منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہئے۔ الیکشن کمیشن کسی سیاسی دبائو کے بغیر اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کرے۔ یہ المیہ ہی ہے کہ حکومت کی ناکام پالیسیوں اور انتقامی سیاست سے جمہوری نظام مسلسل کمزور ہو رہا ہے۔ پائیدار ملکی ترقی و خوشحالی اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے تمام جماعتوں کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا ہو گا۔

جرائم میں کمی آنے کی بجائے اضافہ باعثِ تشویش ہے۔ ارباب اقتدار عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ چند روز قبل فیصل آباد اور قصور میں بے گناہ افراد کے قتل کے خلاف لواحقین احتجاج کررہے تھے۔ ان افسوسناک واقعات کے ملزموں کو فی الفور گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا لانا چاہئے اور نشانِ عبرت بنایا جائے۔ ملک میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اور اسے اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ سابقہ اور موجودہ حکومتوں کی مجرمانہ غفلت کے باعث قومی پرچم بردار ایئر لائن پی آئی اے سمیت ریلوے، اسٹیل مل، پولیس، ایف بی آر اور دیگر ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔ ابھی حال ہی میں پی آئی اے طیارے کی ملائیشیا میں ضبطگی سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔

تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے قبل دعوے کئےتھے کہ وہ غیر ملکی قرضوں پر انحصار نہیں کرے گی لیکن اس کے دعوے جھوٹے نکلے۔ موجودہ حکومت نے قرضے حاصل کرنے میں سابقہ حکمرانوں کے بھی تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ 28ماہ میں قرضوں میں اوسطاً ہر ماہ 397ارب 60کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔ حکومت کی نا اہلی، ناکام معاشی پالیسی کا خمیازہ ملک و قوم بھگتنے پر مجبور ہیں۔ ملک ہر سال آئی ٹی بر آمدات سے 10ارب ڈالر کما سکتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے اس جانب بھی کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ دیگر شعبوں کی طرح پاور انرجی سیکٹر بھی تباہ حالی کا شکار ہے۔ گردشی قرضہ 2306ارب سے تجاوز کرچکا ہے۔ اس کی بڑی وجہ بجلی کی چوری، واجبات کی بروقت ادائیگی نہ ہونا اور توانائی کے شعبے میں حکومت کی ناقص کارکردگی ہے۔ توانائی کا شعبہ گزشتہ دو عشروں سے گردشی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ 2002میں ان کا مجموعی حجم ساڑھے چھ ہزار ارب تھا جو اب بڑھ کر 32کھرب ہوگیا ہے۔ گیس کا بحران بھی سنگین ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ گیس کی عدم دستیابی سے عوام کو درپیش مسائل میں اضافہ ہوگیا ہے۔ شعبہ صحت کا حال بھی اچھا نہیں ہے۔ گزشتہ سال کے دوران ادویات کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ کرکے کمپنیوں نے400 ارب سے زائد کا منافع کمایا جب کہ چیک اینڈ بیلنس کا حکومتی نظام بری طرح ناکام رہا۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کے باعث عوام پرائیویٹ اسپتالوں کو ترجیح دینے پر مجبور ہیں۔ پورے کا پور ا نظام ہی خرابی کی جانب گامزن ہے۔ کرپشن ایک ناسور ہے اس کا جڑ سے خاتمہ ہونا چاہئے لیکن ملک میں پارلیمنٹ اور دیگر قومی اداروں کا تقدس پامال نہیں ہونا چاہئے۔ آئین و قانون کے احترام سے ہی قومی سلامتی مشروط ہے۔ ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر قومی ادارں کو مضبوط بنایا جائے۔ ملک دشمن عناصر سیاسی عدم استحکام اور انتشار کا فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کریں گے۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن کو دانشمندی کاثبوت دینا چاہئے۔ ماضی میں ملک میں کوئی انتخاب ایسا نہیں ہوا جس پر دھاندلی کاالزام نہ لگا ہو۔ الیکشن کمیشن میں اہل افراد کو آگے لا کر ادارے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ادارے کی کمزروری کی وجہ سے ہر الیکشن میں عوام کے مینڈیٹ کو چوری کرلیا جاتا ہے۔ قوم حکمرانوں سے سوال پوچھتی ہے کہ پاناما لیکس میں بے نقاب ہونے والے باقی436 پاکستانیوں کو آخر کب قانونی شکنجے میں لایا جائے گا؟ 70برس سے ملک کے ساتھ جو کھلواڑ ہو رہا ہے، اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ عوام کی نمائندگی عوام کے نمائندوں کے پاس ہی ہونی چاہئے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ مسائل ختم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ لازم ہو چکا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی بڑی جماعتیں اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں۔

تازہ ترین