• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سول سروسز میں ریفارمز کا اعلان کیا گیا جس کی وزیراعظم عمران خان نے باقاعدہ منظوری بھی دے دی ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم اور کابینہ کی ادارہ جاتی اصلاحاتی کمیٹی کے سربراہ شفقت محمود، جو خود بھی بیورو کریٹ رہے ہیں، نے کمیٹی کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری ملازم کا نیب میں کیس ہوا تو اس کی ترقی نہیں ہو گی۔ نیب کے ساتھ پلی بارگین کرنے والے افسران کے خلاف بھی ایکشن ہو گا، تین اے سی آرز خراب ہونے پر ریٹائرمنٹ ہو گی، سرکاری افسر کسی صوبے میں 10سال سے زیادہ کام نہیں کر سکتا، 2سال ہارڈ ایریا میں کام کرنا لازمی ہو گا ورنہ ترقی نہیں ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ حکومت کے اس اعلان کے بعد وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے ان سول سروس ریفارمز کو نئی بوتل میں پرانی شراب (OLD WINE IN NEW BOTTLE) قرار دیا ہے۔ دیکھا جائے تو ڈاکٹر عشرت حسین کی بات ایک حد تک درست بھی ہے۔ یہ کوئی بنیادی ریفارمز نہیں۔ اگر ریفارمز کرنی ہیں جو کہ بلاشبہ نظام کو درست کرنے کیلئے ضروری ہیں تو پھر ڈائریکشن، پلاننگ اور کیریئر پلاننگ کے حوالے سے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایک افسر بیرون ملک سے فنانس کی ڈگری لے کر آتا ہے تو اسے محکمہ داخلہ میں لگا دیا جاتا ہے۔ بیورو کریسی کے اندر اکنامک، انرجی اور ہیومن ریسورس کی اسٹریم بنائی جائے۔ پاور (توانائی) اور سرکلر ڈیٹ جیسے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اسپیشلائزڈ افسران ہوں جن کی ٹریننگ جدید خطوط پر کی گئی ہو۔ اصل چیز تو پرفارمنس ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ نئی ریفارمز میں پروموشن پالیسی میں بورڈ کے اختیارات بڑھاتے ہوئے ترقی کیلئے ان کے نمبر 15 سے 30 کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح ٹریننگ کے نمبر 25سے بڑھا کر 30کر دیے گئے ہیں۔ حکومت احتساب کی بات کرتی ہے جو کہ ہونا چاہئے لیکن افسروں کو ڈرا دھمکا کر ان کی MOTIVATION کیسے بڑھائیں گے۔ کیا اچھی کارکردگی دکھانے والے افسران کی تنخواہیں زیادہ ہوں گی؟ اس کے لئے حکومت نے تو کوئی پلان نہیں بنایا۔ احتساب کا مطلب صرف پروموشن یا ریٹائر کرنے تک محدود نہیں اس کا مقصد کسی افسر کا کنڈکٹ (OVERALL CONDUCT) بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ سول سروس کنڈکٹ رولز 1964 میں احتساب کے حوالے سے آمدن سے زائد اثاثوں جیسی چیزوں کی پہلے ہی تشریح کی جا چکی ہے۔ ای اینڈ ڈی رولز پہلے ہی موجود ہیں جن میں واضح لکھا ہے کہ افسر کا کسی ادارے میں طرزعمل اور سلوک کیسا ہو گا۔ نئی ریفارمز میں کچھ اچھی چیزیں بھی ہیں جن میں کسی افسر کی انکوائری کے لئے اب AUTHORISED OFFICER مقرر نہیں ہو گا بلکہ انکوائری افسر یہ کام خود کرے گا۔ انکوائریوں کے لئے ٹائم لائن 120دن مقرر کی گئی ہے جو اچھا اقدام ہے۔ اس سے کئی سالوں کی زیر التوا انکوائریوں پر فیصلے ہوں گے۔ لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ سول سروس کو MOTIVATE کیسے کریں گے؟ ایک طرف سوشل میڈیا آ گیا ہے۔ سول سرونٹس کنڈکٹ رولز 1964میں سوشل میڈیا کا ذکر ہی نہیں حکومت اس کا کیا انتظام کرے گی؟ کنڈکٹ رولز میں واضح لکھا ہے کہ کوئی افسر آئیڈیالوجی آف پاکستان کے خلاف اور سیکورٹی پر بات نہیں کر سکتا۔ پبلک میں اور میڈیا کو بیان دیتے ہوئے کن چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔ رولز میں سب لکھا ہے لیکن سوشل میڈیا پر کئی سول سرونٹس، سیاسی سماجی اور بین الاقوامی سطح پر حکومتی پالیسی کے خلاف اور متضاد بیان دیتے ہیں جس کی مانیٹرنگ کا کوئی نظام موجود نہیں۔ یہ ایک انتہائی اہم اور حساس معاملہ ہے۔ حکومت نے پچھلے سال اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں سوشل میڈیا اسپیشل ویجیلنس سیل بنایا، جس کا کام سول سرونٹس کو مانیٹر کرنا تھا لیکن اس سیل میں بھی کوئی CAPACITY نہیں۔ ایک سیکشن افسر کو اس کا انچارج لگایا گیا لیکن کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بیورو کریسی کی پرفارمنس اور Motivation نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے ناکام ہونے کا تاثر مضبوط ہوا ہے۔ لاہور سمیت پنجاب بھر میں کوڑے کے ڈھیر لگے ہیں لیکن کسی صفائی کرنے والی کمپنی سے معاہدہ نہیں ہو پا رہا کیونکہ کوئی افسر معاہدہ کرنے کے لئے تیار نہیں کہ کل کو نیب کے کیسز کون بھگتے گا۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے سابق سربراہ وسیم اجمل چودھری کے ساتھ جو ہوا سب کے سامنے ہے۔ سیکرٹری لوکل گورنمنٹ پنجاب ڈاکٹر ساجد چوہان کو تھوڑے عرصے بعد ہی ہٹا دیا گیا کیونکہ وہ بھی فائلوں پر دستخط نہیں کرتے تھے۔ کوئی بھی سول سرونٹ کوئی بھی معاہدہ کرنے یا فائلیں نکالنے کے لئے تیار نہیں۔ بیسیوں ادارے تو پہلے ہی سول سرونٹس کے پیچھے لگے ہیں۔ جناب وزیر اعظم اگر حکومت کا یہی مقصد ہے کہ سول سرونٹس کو ڈرا دھمکا کر رکھنا ہے تو پھر کام کون کرے گا اور مطلوبہ نتائج کیسے حاصل ہوں گے؟ جبری ریٹائرمنٹ کیلئے سول سروس رولز میں پہلے ہی قانون موجود ہے کہ اگر کوئی افسر 3مرتبہ ترقی نہ پا سکے تو ریٹائر کر دیا جائے گا لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہوا۔ سول سرونٹس ڈائریکٹری ریٹائرمنٹ فرام سروس رولز 2000 بنا دیے گئے۔ نیب سے پلی بارگین کرنے والے کو بھی جبری ریٹائر کیا جائے گا۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (PAS)، پولیس اور سیکرٹریٹ گروپ کے 6 ہزار سول سرونٹس ہیں جن میں سے 2 سے 5 فیصد اس قانون کی زد میں آ سکتے ہیں تو سوال یہ ہے کیا حکومت 150 سے زائد سول سرونٹس کو نوکری سے نکال کر گھر بھیج دے گی؟ آج تک بہت کم بیورو کریٹس بلکہ نہ ہونے کے برابر کو نوکریوں سے نکالا جا سکا۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے نوکری سے نکالنے کے آرڈر کئے تو کبھی انہیں وزیراعظم اور کبھی اعلیٰ عدالتوں سے معافی مل گئی۔ بیورو کریسی کے خلاف اقدامات سے کارکردگی نہیں بڑھے گی۔ اصل مقصد یہ ہونا چاہئے کہ کارکردگی کیسے بڑھے جس سے حکومت اور عوام کو فائدہ ہو۔ اصل ایشو حکومت کی اہلیت بڑھانا اور سروس ڈلیوری میں بہتری لانا ہے۔ احتساب ضرور اور ہر ایک کا ہونا چاہئے لیکن احتساب کے نام پر سول سرونٹس کو ہراساں کریں گے تو پھر کام کون کرے گا؟

تازہ ترین