• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں پی آئی اے کی لیز کی رقم کے تنازع پر لندن کی عدالت میں زیرِ سماعت مقدمے پر ملائیشیا کے مقامی ہائیکورٹ کے حکم پر پی آئی اے کی پرواز PK-895کو مسافروں سمیت کوالالمپور ایئرپورٹ سے کراچی روانگی سے قبل اپنی تحویل میں لے کر طیارے کو ضبط کرلیا گیا۔ غیر یقینی صورتحال کے باعث مسافروں کی وطن واپسی کیلئے متبادل انتظامات کرنے پڑے۔ یہ ایک شرمناک واقعہ ہے جس کے پیچھے بھارتی لابی ملوث نکلی اور اس سے پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی۔ پی آئی اے نے 2015میں آئرش لیزنگ کمپنی ایئر کیپ سے دو بوئنگ 777طیارے بغیر عملے (Dry) لیز پر حاصل کئے تھے جو ویتنام کی فضائی کمپنی سے لے کر پی آئی اے کو دیئے گئے تھے لیکن لیز کی 14ملین ڈالر رقم کے تنازع اور ادائیگی نہ کرنے پر یہ کارروائی کی گئی جو ناقابلِ قبول صورتحال ہے کیونکہ معاملہ لندن میں ثالثی مراحل میں تھا اور ملائیشیا کی عدالت نے پی آئی اے کا موقف سنے بغیر یکطرفہ فیصلہ سنا دیا۔دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستانی سیاستدانوں کے بیرون ملک غیر قانونی اثاثوں کا سراغ لگانے کیلئے نیب نے 2000میں لندن کی کمپنی براڈشیٹ سے ایک معاہدہ کیا تھا جسے 2003میں یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے پر براڈشیٹ نے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا جس نے پاکستان پر 21ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا اور 17سمبر 2020کو لندن ہائیکورٹ نے یو بی ایل کو اپنے فیصلے میں ہدایت کی تھی کہ وہ 30دسمبر 2020تک پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹ سے 28.7ملین ڈالرز کی رقم براڈشیٹ نامی کمپنی کو ادا کرے جس میں 21ملین ڈالرز جرمانہ اور بقایا 7.7ملین ڈالرز 5ہزار ڈالرز یومیہ کے حساب سے سود شامل تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو 13.5ملین پائونڈز لیگل فیس کے طور پر بھی ادا کرنا پڑے جو پاکستانی کرنسی میں 6.5ارب روپے بنتے ہیں۔ اس معاملے کا منفی پہلو یہ ہے کہ لندن ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق اگر 30دسمبر 2020تک رقم ادا نہ کی جاتی تو پاکستانی سفارتخانے کا اکائونٹ، عمارت اور اثاثے ضبط کئے جاسکتے تھے۔میں نے اپنے گزشتہ کالم ’’پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ‘‘ میں عرض کیا تھا کہ ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ICSID) نے پاکستان پر ریکوڈک معاہدہ منسوخ کرنے پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جس پر پاکستان میں حسبِ روایت ایک کمیشن بنادیا گیا ہے کہ وہ معاملے کی تحقیقات کرے۔ دنیا میں سونے اور تانبے کی آسٹریلوی کان کن کمپنی TCCنے اپنی فزیبلٹی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ریکوڈک میں تانبے کے 22ارب پائونڈ اور سونے کے13ملین اونس کے ذخائرموجود ہیں جن کی مجموعی مالیت 500ارب ڈالر ہے۔ کمپنی نے سونے اور تانبے کی کان کنی کے اس منصوبے کیلئے 3.3ارب ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ معاہدے کے مطابق TCCآمدنی کا 25فیصد بلوچستان حکومت کو بغیر کسی سرمایہ کاری کے دینے کی پابند تھی۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی اور پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی کی منصوبہ منسوخ کرنے کی درخواست پر سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو ٹی ٹی سی کا لائسنس منسوخ کرنے کا حکم دیاجس کے خلاف TCCنے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا اور 2019میں ورلڈ بینک کے ادارے ICSIDنے TCC کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان پر تقریباً 6ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔ اس کمپنی نے جرمانے کی وصولی کیلئے پاکستان کے نیویارک میں Rooseveltاور پیرس میں Scribe Operaہوٹلز کو عالمی عدالت کے ذریعے ضبط کرلیا مگر حکومتی کمیشن سوتا رہا۔اس سے قبل 30مارچ 2012کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ترکی کی رینٹل پاور کمپنی ’’کراکے‘‘ کے 231میگاواٹ پروجیکٹ سمیت تمام رینٹل پاور پروجیکٹس کالعدم قرار دے دیئے تھے جس پر ترکی کی کمپنی ’’کراکے‘‘ نے عالمی ثالثی عدالت میں پاکستان کے خلاف کیس دائر کیا تھا جس پر پاکستان کو 900ملین ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ ’’کراکے‘‘ نے موقف اختیار کیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے معاہدہ منسوخ ہونے کے باعث اُن کی کمپنی پاور پروجیکٹ کیلئے نیشنل بینک سے 80ملین ڈالر کا لیا گیا قرضہ ادا نہیں کرسکتی جس پر حکومت پاکستان نے 20دسمبر 2019کو ’’کراکے‘‘ پر واجب الادا 80ملین ڈالر (128ارب روپے) ایک ثالثی معاہدے کے تحت معاف کردیئے۔

حکومت نے قطر سے ایل این جی گیس امپورٹ کرنےکے معاہدے کی شفافیت پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کے معاہدے میں بھی پاکستان اقوام متحدہ کی پابندیوں کو بنیاد بنا کر معاہدے پر عملدرآمد نہیں کررہا، معاہدے کی رو سے جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ عالمی اداروں کے قومی اداروں پر بڑھتے ہوئے جرمانے اور بیرون ملک قومی Iconicاثاثوں کی ضبطگی باعث تشویش ہے جس پر مجھے قارئین کی بے شمار ای میلز موصول ہوئی ہیں۔ میری وزیراعظم اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے درخواست ہے کہ وہ عالمی اور ثالثی عدالتوں میں قومی اداروں کے خلاف زیر سماعت تمام تنازعات کی موثر پیروی کرنے کا بند و بست کریںاور حکومت ان معاملات کو باہمی رضامندی اور سفارتی اثر و رسوخ سے نمٹانے کی کوشش کرے تاکہ ملک کو بھاری جرمانوں اور جگ ہنسائی سے بچایا جا سکے۔

تازہ ترین