انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ایک با ر پھرایک ناقابلِ تردید حقیقت کو ہم پہ آشکار کر دیا ہے۔ عمران خان بطور کپتان ایک بہترین کھلاڑی۔
یہ راز ہم پہ ظاہر ہوئے ایک زمانہ ہوا۔ نجانے وہ کون لوگ ہیں جنہیں بار بار اس سچ کی یقین دہانی کرانی پڑتی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ کپتان کی مقبولیت کی بدولت کچھ اور لوگوں کا کاروبار چل جاتا ہے۔ چلئے کر لیجئے بلا وجہ کی مقابلہ بازی۔ نتیجہ سب جانتے ہیں۔ کھیلوں کے انتظام کے ذمہ دار دوسرے اداروں کی طرز پرآئی سی سی کرکٹ کے شائقین کو مصروف رکھنے کے لئے نت نئے طریقے استعمال کرتی رہتی ہے جس میں ایک مقبول سلسلہ وہ ہے جہاں مداح ووٹ کے ذریعے دیے گئے چند ناموں میں سے بہترین کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ فارمولا شائقین میں کس قدر مقبول ہے، اس کا ثبوت حال ہی منعقد کیا گیا ایک ایسا مقابلہ ہے جس کے تحت جناب عمران خان کو لا کھڑا کیا گیا تین کرکٹر ز کے خلاف جن میں غیر معمولی صلاحیتوں سے لیس ا ے بی ڈ ی ویلئیرز بھی شامل تھے۔ ’’اصل مقابلہ‘‘، اگر کسی طرح کا کوئی مقابلہ یہاں ممکن تھا، خان اور ویرات کوہلی کے درمیان تھا۔ شاید کسی بھلے ما نس کے دماغ میں یہ بات ہو کہ جوان قیادت ، آج کل میدان میں موجود نظر آنے والی قیادت، اس دیو مالائی کردار کو پچھاڑ سکے گی جس نے کرکٹ کی دنیا سے نکل کر ایوان اقتدار میں ایستادہ بتوں کو للکارا تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔پرانا فارمولا، جہاں یہ دیکھا گیا تھا کہ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے اور جاری وقت اپنے تمام حالیہ اثرات کے ساتھ گزرے ہوئے وقت پہ حاوی ہوتا ہے یہاں نہیں چلا۔ یہ کلیہ فیل ہوا با وجود اس حقیقت کے کہ بھارتی، جو اپنی عددی برتری جتانے میں کبھی نہیں چوکتے،بہت آسانی کے ساتھ اس طرح کے مقابلے جیتنے میں مشہور ہیں ۔عمران خان بطور کپتان ایک بہترین کھلاڑی۔ ویسے تو کپتان کے عالیمرتبتثابت کرنے میں بظاہر کوئی امر مانع نہیں ہے مگر یہاں یہ تمہید ’’بطور کپتان‘‘ ایک ’’شاندار کھلاڑی‘‘ کچھ تہہ دار ہے۔ سوال تھا کہ وہ کون سا کھلاڑی تھا جس کی کار کردگی آپ کی نظر میں کپتان بننے کے ساتھ بہت بہتر ہوگئی؟ اس قدر بہتر کہ وہ اپنی ٹیم کے لئے ایک مثال بن گیا۔ کسی بھی کھلاڑی کے کپتان بننے کے بعد اس کی کارکردگی کے گراف میں غیر معمولی تبدیلی ایک عام بات ہے۔ کئی کھلاڑی اس ذمہ داری کے وزن تلے اتنے دب جاتے ہیں کہ ان کا اپنا کھیل خراب ہو جاتا ہے۔ ہمارے ماضی میں ظہیر عباس اور ماجد خان موجود ہیں۔ دونوں جارحانہ انداز رکھنے والے کھلاڑی قیادت کی ذمہ داری کے بوجھ تلے ایسے دبے کہ آصف زرداری کی طرح محض اپنی مدت پوری کرنے میں ہی خوش رہے۔
کئی کھلاڑی کپتان بنتے ہی اور چمکنے لگتے ہیں ۔ قیادت کی ذمہ داری ان کے اندر ایک شدت پیدا کر دیتی ہے جس کے تحت یہ وہاں بھی لڑتے ہیں جہاں ایک عام کھلاڑی ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ پاکستان جیسے بحرانوں سے برسر پیکار ملک میں اس قسم کے بہادر کپتان اچھی خاصی تعداد میں مل جاتے ہیں ۔ صرف پاکستان کرکٹ کے بارے میں ہی دیکھا گیا ہے کہ یہاں ایک کھلاڑی کپتان بنا، وہاں اسکا ستارہ چمکا اور اس کی صلاحیتیں کئی گنا زیادہ نظر آئیں۔ یہاں تک کہا گیا کہ اگر آپ کو فلاں کھلاڑی سے اس کی پوری صلاحیتوں کے مطابق کام لینا ہے تو اس کا راستہ آسان ہے، بس اسے کپتان بنا دیجئے۔ کسی دل جلے نے تو یہ تک کہہ دیا کہ بھائی آپ انُ سب کو کپتان بنا دیجئے، بس اس کے بعد ان کے اوپر ایک میجر لگا دیجئے۔ عمران خان ظاہر ہے اس طرح کے قائد نہیں تھے جن کہ ساتھ اس طرح کے کسی نگران کی ضرورت رہے۔یہ ایک قائد کی حیثیت میں کوئی اور ہی کھلاڑی تھے،۔ ساتھ ہی یہ بات بھی کہ جب وہ ایک بار کپتان کی حیثیت میں تسلیم کر لئے گئے، اس کے بعد انھیں کسی نگراں، کسی سہارے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وہ کپتان تھے اور وہ خود ہی نگران اور خود ہی سلیکٹر۔ مکمل ذمہ داری کے ساتھ۔ کپتان کے کرکٹ سے سیاست تک سفر میں بھی اسی ایک بات پہ سب سے زیادہ زور دیا جاتا رہا۔ ایسا بہت کم ہوا کہ کسی نے کبھی تحریک انصاف کی ٹیم سےمستقبل میں کوئی معجزانہ کام سرزد ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہو۔ حزب مخالف کو مسلسل یہی خدشہ تھا کہ کہیں عمران خان کا کوئی ایسا اقدام سامنے نہ آجائے جو ان کیلئے بحیثیت سیاسی قائد اپنی دھاک بٹھانے میں معاون ہو۔عوام میں تحریک انصاف کے حامی دراصل عمران خان کے حامی تھے۔ ان کو وزیر اعظم عمران خان سے بہت سی توقعات تھیں ۔ جب جب پارٹی کے دیگر رہ نما کسی بھی قسم کے الزام کی زد میں آئے، عوامی امنگوں کے محور کے طور پہ موجود کپتان پر ذمہ داریوں، آرزوؤں کا بوجھ مزید بڑھتا گیا۔ ساتھ ساتھ یہ سوالات بھی پہلے سے زیادہ شدت سے پوچھے جانے لگے کے کیا یہ کھلاڑی بھی کپتان بننے کے بعد اتنا ہی با اختیار ہے جتنا کہ ہمارا مثالی کپتان تھا؟
سوال اِس لئے بھی اٹھتا ہے کہ جس بڑے کپتان کے ذکر سے ہم نے کہانی شروع کی اس کی سب سے بڑی خوبی اپنے چنے ہوئے لوگوں کو چھوٹی بڑی مہمات کے لئےاعتماد دینا اور پورا وقت دینا تھا۔
سوال اٹھتا ہےاور صرف اس لئے نہیں کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ کپتان اپنے ایک خاص الخاص، اپنے پسندیدہ ندیم افضل کو اپنی ٹیم سے جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اپنے منتخب کردہ ان خاص معاونینِ خصوصی کو کپتان نے کیا کام دیا ہوا تھا؟ مطلب بہت اچھے آدمی تھے ۔ کرتے کیا تھے یا کیا کرنا چاہ رہے تھے؟