• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

26جنوری 2021کو بھارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ کے موقع پر دارالحکومت نئی دہلی نے جو مناظر پیش کئے، وہ ایک ایسے عصبیت زدہ معاشرے کی انتہائی کیفیت کا نقشہ کہے جاسکتے ہیں جس کی قیادت ہر داخلی مسئلے کا حل علاقائی کشیدگی میں تلاش کرتی ہے۔ یہ عادت کسی بھی وقت کرۂ ارض کے لئے کوئی سنگین خطرہ بن کر سامنے آسکتی ہے۔ منگل کے روز ہر برس کی طرح کشمیری مسلمانوں نے مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، پاکستان اور دنیا بھر میں یوم سیاہ منایا مگر اس سال ہزاروں بھارتی کسانوں نے بھی نئی دہلی کے اندر اور اطراف جمع ہوکر نام نہاد یوم جمہوریہ کو بطور یوم سیاہ منایا۔ کاشتکاروں نے سیکورٹی حصار توڑ دیا، رکاوٹیں اکھاڑ پھینکیں دہلی کے قلب میں واقع آئی ٹی چوک کے قریب تک جا پہنچے، لال قلعے پر سکھوں کا مذہبی پرچم لہرا دیا اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو فوجی پریڈ کے وقت سے پہلے گھر جانے پر مجبور کردیا۔ کسان رہنمائوں کے دعوے کے مطابق اس احتجاج میں 10ہزار سے زائد ٹریکٹر شامل تھے۔ پولیس کے لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ سے ایک کسان ہلاک ہوا اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ کسانوں کی جوابی کارروائی سے درجنوں پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ نئی دہلی پولیس ہیڈکوارٹرز کے باہر بھی اہلکاروں اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں جبکہ دارالحکومت میں انٹرنیٹ، موبائل سروس اور ٹرانسپورٹ سروس معطل ہو گئی۔ بنگلور اور ممبئی سمیت کئی دیگر شہروں اور مختلف ریاستوں میں بھی کسانوں کی احتجاجی ریلیوں کی اطلاعات ہیں۔ واضح رہے کہ کسان ریلی میں زیادہ تعداد پنجاب کے کسانوں کی ہے جن کا تعلق سکھ اقلیت سے ہے۔ گزشتہ ستمبر میں بھارت کی مودی سرکار نے اصلاحات کے نام پر تین نئے زرعی قوانین منظور کئے تھے۔ جن کے تحت اناج کی سرکاری منڈیوں تک نجی تاجروں کو رسائی دینے، سرکاری قیمت کی ضمانت ختم کرنے اور کنٹریکٹ کھیتی باڑی کے اقدامات شروع کئے گئے۔ کسان اور کاشتکار عموماً شہری زندگی جیسے احتجاجوں سے الگ تھلگ دیہی زندگی کے شب و روزمیں مصروف رہتے ہیں مگر نومبر کے بعد سے دہلی کے باہر جمع اور مختلف شہروں میں احتجاج کرنے والے کسانوں کا جو ردعمل عالمی میڈیا کے ذریعے سامنے آرہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نریندرا مودی سرکار کے مسلط کردہ قوانین سے نجی کمپنیوں کو زرعی شعبے پر کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ نئی دہلی سرکار سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور آڑھت کے نام پر نجی کمپنیوں کو ایسی غیرمعمولی مراعات و اختیارات سے نوازا جارہا ہے جن کے باعث ان کے لئے ممکن ہو گیا ہے کہ کسانوں سے نجی طور پر رابطہ کرکے اپنی مرضی کے نرخوں پر خریداری اور ذخیرہ اندوزی کرسکیں۔ پرانے طریق کار میں صرف حکومتی ایجنٹ ہی کسانوں سے پیداوار خرید سکتے تھے۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ نئے کنٹریکٹ فارمنگ قوانین کے باعث کسان وہی اجناس اُگا سکیں گے جو مانگ پوری کریں گی۔ کسان غلہ ہی نہیں بہت سی ضروریات زندگی کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس لئے دنیا بھر کے ممالک اپنے کسانوں اور کاشتکاروں کو زیادہ سےزیادہ سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ کئی بھارتی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے کسانوں کی حمایت میں دیئے گئے بیانات سے بھی یہی احساس اجاگر ہورہا ہے۔ کسان اور مزدور ایک طرف زراعت و صنعت کے اہم عامل ہونے کی حیثیت سے خوراک اور لباس سمیت انسانی زندگی کی بنیادی ضرورتیں فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں تو دوسری جانب دنیا کے کئی اہم انقلابات کے سرخیل رہے ہیں۔ ان کے حقوق کی بہم رسانی تہذیبِ انسانی کے ارتقا کا اہم تقاضا ہے۔ ایسے وقت ،کہ کورونا کے باعث دنیا کساد بازاری کی شکار ہے، اقوامِ متحدہ جیسے اداروں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کسانوں اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ میں موثر کردار ادا کریں۔

تازہ ترین