• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عیسیٰ نگری پر گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں اور قطاریں کیسی، یوں لگتا تھا، جیسے گاڑیاں ایک دوسرے میں گُھسی جا رہی ہوں۔ اُنہی گاڑیوں کے بیچ ایک ایمبولینس بھی پھنسی ہوئی تھی، جو راستے کی تلاش میں کھڑے کھڑے ہچکولے کھا رہی تھی کہ کہیں سے کوئی اُمید نظر آئے، تو آگے بڑھے۔ سائرن کی چنگھاڑ کانوں کے پردے پھاڑے دے رہی تھی، مگر گاڑیوں سے گردن نکال نکال کر ایمبولینس کو بے بسی سے دیکھنے والے بھی مجبور تھے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اُسے راستہ نہیں دے سکتے تھے۔ کوئی گھنٹے بھر بعد کسی نہ کسی طرح ایمبولینس تو آگے بڑھ گئی، مگر گاڑیوں کی قطاریں جوں کی توں رہیں۔ اور یہ وفاقی اُردو یونی ورسٹی سے کچھ پہلے کا منظر ہے۔ گاڑیوں کے ہجوم میں پھنسا ایک نوجوان بے چینی سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے مسلسل بڑبڑائے جا رہا ہے۔ 

اُسے کئی ماہ کی بھاگ دوڑ اور مختلف دفاتر کی سیڑھیاں چڑھنے، اُترنے کے بعد چند روز قبل ایک جگہ سے انٹرویو کال آئی تھی اور وہ آج وہیں جا رہا تھا، مگر اُس کے دل کی تیز دھڑکن اور ماتھے کا پسینہ بتا رہا ہے کہ اُس پہ وقت پر نہ پہنچنے اور موقع ہاتھ سے نکل جانے کا کس قدر خوف سوار ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اِن صاحب کا قصّہ بھی سُنتے جائیں۔ یہ کوئی دو گھنٹے قبل دفتر سے نکلے تھے کہ آج اپنی اکلوتی بیٹی کی پہلی سال گرہ کی تقریب میں پہنچ جائیں، مگر بیس منٹ کا فاصلہ دو گھنٹے میں بھی طے نہیں ہوا اور یہ بھی نہیں پتا کہ مزید کتنی دیر ٹریفک جام کی اذیّت برداشت کرنی پڑے گی۔کراچی کی شاہ راہوں پر ٹریفک جام معمول کی بات ہے اور شہری اس کے عادی بھی ہیں، مگر یہ معمول کا ٹریفک جام نہیں، بلکہ انتظامیہ کی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی کی سزا تھی، جو شہریوں نے سخت اذیّت کے ساتھ بُھگتی۔

شہر کے اِس اہم علاقے میں واقع نیشنل اسٹیڈیم میں پاکستان اور جنوبی افریقا کے درمیان ٹیسٹ میچ کھیلا گیا، جس کے سبب حفاظتی انتظامات کے تحت اطراف کی سڑکیں اور گلیاں بند کر دی گئیں، جس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا، جب یوں سڑکیں بند کی گئی ہوں۔ یہاں ماضی میں کھیلے گئے انٹرنیشنل میچز ہوں یا پی ایس ایل کے مقابلے، ہر بار سڑکیں بند کرکے شہریوں کی اذیّت کا سامان ضرور کیا گیا۔ جب کہ ایسے ہی مناظر اُس وقت بھی دیکھے جاتے ہیں، جب اِسی علاقے میں واقع ایکسپو سینٹر میں ہونے والی نمائشوں کی وجہ سے بھی سڑکیں بند کردی جاتی ہیں۔

نیشنل اسٹیڈیم، اطراف کی سڑکیں اور بندشیں

کراچی کا یہ واحد اسٹیڈیم ہے، جہاں مُلکی اور عالمی سطح کے کرکٹ میچز کھیلے جاتے ہیں۔ اِس کے ایک طرف شہر کی مصروف ترین شاہ راہ، شاہ راہِ فیصل ہے، جہاں سے کارساز روڈ اور ڈرگ روڈ سے میلینیم شاپنگ مال سے ہوتے ہوئے ڈالمیا روڈ سے اسٹیڈیم کی طرف ٹریفک آتی ہے۔ لیاقت آباد اور گلشنِ اقبال سے شاہ راہِ فیصل پر جانے والوں کو بھی اِس کے قریب سے گزرنا پڑتا ہے۔اِسی طرح نیو ٹاؤن سے لیاقت نیشنل اسپتال اور آغا خان اسپتال سے ہوتے ہوئے شاہ راہِ فیصل یا گلستانِ جوہر کی طرف جائیں، تو اسٹیڈیم درمیان میں پڑتا ہے۔ 

میچز کی وجہ سے کارساز روڈ، ڈالمیا روڈ اور نیو ٹاؤن سے نیشنل اسٹیڈیم فلائی اوور سگنل تک، لیاقت آباد سے براستہ حسن اسکوائر فلائی اوور، یونی ورسٹی روڈ سے ایکسپو سینٹر موڑ جانب سرشاہ سلیمان روڈ تا نیشنل اسٹیڈیم، حبیب ابراہیم رحمت اللہ روڈ کارساز سے اسٹیڈیم سگنل تک، میلینیم مال سے ڈالمیا روڈ نیشنل اسٹیڈیم سگنل تک، نیوٹاؤن موڑ سے نیشنل اسٹیڈیم سگنل تک کے راستے پبلک اور ہیوی گاڑیوں کے لیے بند کر دئیے گئے۔ 

گو کہ یہ راستے چھوٹی گاڑیوں یا موٹر سائیکلز وغیرہ کے لیے کُھلے رہے، مگر کئی مقامات پر اُنھیں بھی آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ انتظامیہ نے تو آس پاس کا سارا علاقہ ہی بند کروا دیا تھا، یہاں تک کہ سِوک سینٹر کے اطراف دکانوں پر بھی تالے ڈال دئیے گئے، لیکن پھر عوام کے سخت ردّ ِعمل اور میڈیا پر تنقید کے بعد عوام کو ’’کچھ رعایت‘‘ دی گئی، جس کے تحت بعض سڑکوں پر چھوٹی گاڑیاں چلنے کی اجازت ملی۔

عوام پر کیا گزری؟

سڑکوں کی بندش سے نہ صرف سِوک سینٹر، بلکہ لیاقت آباد سے عیسیٰ نگری آنے والی سڑک، شاہ راہِ فیصل، یونی ورسٹی روڈ اور نیپا سے شاہ راہ فیصل جانے والا راشد منہاس روڈ بُری طرح متاثر ہوئے۔ اگر اِس معاملے کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھیں، تو اسٹیڈیم کے اطراف لگائی گئی رکاوٹوں سے جیل چورنگی، تین ہٹّی اور اطراف کی دیگر شاہ راہیں بھی ٹریفک کے دباؤ کے سبب متاثر ہوئیں۔جو افراد گلشنِ اقبال یا گلستانِ جوہر وغیرہ جانے کے لیے لیاری ایکسپریس وے استعمال کرتے ہیں، اُن کا غریب آباد انٹرچینج تک تو سفر خوش گوار رہا، مگر آگے وہ بھی ٹریفک میں پھنسے رہے۔

گاڑیوں کی لمبی قطاروں کے سبب شہری وقت پر دفاتر پہنچ پائے اور نہ ہی گھر واپسی وقت پر ہوسکی۔چھوٹی گاڑیوں والے پھر بھی’’ خوش قسمت‘‘ رہے کہ ٹریفک میں گھنٹوں پھنسنے کے باوجود’’ سہولت‘‘ سے منزل پر پہنچ ہی گئے۔ اُن افراد کا تصوّر کیجیے، جو اُن روٹس کی بسز میں سفر کرتے ہیں، جنھیں درج بالا سڑکوں پر چلنے سے روک دیا گیا تھا۔ اِن افراد، خاص طور پر خواتین کو دفاتر اور گھروں تک پہنچنے کے لیے پیدل مسافت طے کرنی پڑی کہ بسز اُن کے اسٹاپ تک نہیں جا رہی تھیں۔ 

ٹریفک میں گھنٹوں پھنسنے کی اذیّت خود ایک بڑی مصیبت ہے، مگر سڑکوں کی بندش نے شہریوں کے معمولات پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتّب کیے۔ روزانہ ہزاروں شہری سِوک سینٹر میں قائم مختلف دفاتر میں اپنے کاموں کے سلسلے میں آتے ہیں، جنھیں منٹوں کے کاموں کے لیے بھی گھنٹوں ٹریفک میں خوار ہونا پڑا۔

اسپتالوں تک پہنچنا بھی دشوار ہوا

اسٹیڈیم کے قریب ہی شہر کے دو بڑے اسپتال، لیاقت نیشنل اسپتال اور آغا خان یونی ورسٹی اسپتال واقع ہیں، جہاں نہ صرف کراچی، بلکہ مُلک کے دیگر حصّوں سے بھی لوگ بڑی تعداد میں علاج معالجے کے لیے آتے ہیں۔ نیز، ان اسپتالوں کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ یہاں ہنگامی حالت میں لائے گئے مریضوں کی تعداد دیگر نجی اسپتالوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔تاہم، میچز کے دَوران ان دونوں اسپتالوں تک رسائی انتہائی مشکل بنا دی جاتی ہے۔

نیو ٹاؤن سے سِوک سینٹر کی طرف آنے، جانے والی گاڑیاں بدترین ٹریفک جام میں پھنسی رہتی ہیں، جس کے سبب ایمبولینسز اور نجی گاڑیوں میں آنے والوں کو اسپتال پہنچنے میں سخت دقّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر یہ کہ اگر وہ اس ٹریفک جام سے نجات پا بھی لیں، تو نیو ٹاؤن سے اسٹیڈیم جانے والے راستے پر کھڑی رکاوٹیں اُنھیں بروقت اسپتال نہیں پہنچنے دیتیں۔ ان پابندیوں کے سبب کئی بار انتہائی غم ناک اور اَلم ناک واقعات بھی رونما ہوتے ہیں، جن کی کوئی ذمّے داری بھی قبول نہیں کرتا۔

متبادل روٹس بھی تو دئیے گئے تھے؟؟

جی ہاں،ٹریفک پولیس کی جانب سے شہریوں کو متبادل رُوٹس استعمال کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا، مگر یہ صرف مشورہ ہی تھا، کیوں کہ عملاً ’’متبادل رُوٹس پلان‘‘ پر کوئی توجّہ نہیں دی گئی اور سڑکیں بند کرکے شہریوں کو لاوارث چھوڑ دیا گیا۔جب انتظامیہ کو علم تھا کہ ایک بڑے ایونٹ کے لیے کئی روز تک متعدّد سڑکیں بند رہیں گی اور عوام کو متبادل راستے اختیار کرنے پڑیں گے، تو متبادل راستوں کو اِس قابل بنانا چاہیے تھا کہ وہ ٹریفک کا دباؤ برداشت کرسکتے۔ 

تماشا یہ بھی رہا کہ جن سڑکوں کو متبادل رُوٹ قرار دیا گیا، اُن پر’’ ترقّیاتی کام‘‘ جاری تھے، جیسے تین ہٹّی سے گرو مندر جانے والا راستہ سیوریج لائن ڈالنے کے سبب بند رہا۔ نیز، ان متبادل رُوٹس پر غلط پارکنگ، ٹھیلوں وغیرہ کی بھرمار اور دیگر تجاوزات کا بھی خاتمہ نہیں کیا گیا، جس سے ٹریفک کے بہاؤ میں خلل پڑا۔کراچی کے شہری گرین لائن منصوبے کے نمائش چورنگی سیکشن کی تعمیر کے دَوران بھی یہ دیکھ چُکے ہیں کہ عوام کو سولجر بازار کا متبادل رُوٹ استعمال کرنے کو کہا گیا، مگر وہاں ایسے انتظامات نہیں کیے گئے، جن سے عوام کو کوئی سہولت میّسر آتی۔ 

متبادل رُوٹس پر رانگ سائیڈ ڈرائیونگ بھی مشکلات کا سبب رہی، خاص طور پر موٹر سائیکل سواروں اور رکشے والوں کی جلد بازی نے عوام کو بہت پریشان کیا۔ ٹریفک کو رواں اور قانون کا پابند بنانے کے لیے متبادل رُوٹس پر اہل کاروں کی تعیّناتی ضروری تھی، مگر اُنھیں بہت کم تعداد میں تعیّنات کیا گیا اور جو وہاں موجود تھے، اُن کی بھی اصل دِل چسپی ٹریفک کی روانی کی بجائے گاڑیوں کے کاغذات چیک کرنے میں رہی۔

اِس بار صبر کا پیمانہ چھلک ہی گیا

عوام کی جانب سے سڑکوں کی یوں بندش کے خلاف ہر بار ہی احتجاج کیا جاتا ہے، مگر اِس بار لاوا پھٹنے کے کچھ عملی مظاہرے بھی دیکھنے کو ملے۔ ٹریفک پولیس سے اُلجھتے ایک نوجوان کی سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوئی، جو سڑک سے رکاوٹیں نہ ہٹانے پر برہم تھا۔ اِسی طرح کئی نوجوانوں نے علامتی مظاہرہ بھی کیا، جس میں وہ سڑکوں کی بندش کے خلاف پلے کارڈز اُٹھائے ہوئے تھے۔اِس موقعے پر محمّد اظہر عالم اور حافظ جنید عظیم کا کہنا تھا کہ’’ بس اب بہت ہوگیا۔ 

کوئی سامنے آئے نہ آئے، مگر ہم سڑکوں کی بندش کے نام پر عوام کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے۔‘‘نیز، ایک سماجی تنظیم کی جانب سے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا۔شہری سوشل میڈیا پر بھی اپنے دِل کی بھڑاس نکالتے رہے۔ایک نوجوان نے کراچی کے شہریوں کی زندگی کے مختلف مراحل کی یوں تصویر کشی کی’’ ولادت…بس شاہ راہِ فیصل پر ہوں…شاہ راہِ فیصل پر ٹریفک جام ہے…شاہ راہِ فیصل پر پھنسا ہوا ہوں…اور انتقال۔‘‘ بیش تر شہریوں کا کہنا تھا کہ ’’اِس مصیبت سے تو بہتر ہے کہ میچ ہی نہ ہوں۔‘‘ جب کہ ٹریفک جام کے ستائے عوام اسٹیڈیم شہر سے باہر منتقل کرنے کا مطالبہ بھی کرتے نظر آئے۔

سیکیوریٹی کتنی ضروری ہے؟

ایک ایسے وقت میں جب دشمن قوّتیں پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں، امن و امان کی صُورتِ حال برقرار رکھنا اور اس کے لیے تعاون کرنا تمام شہریوں کی ذمّے داری ہے۔ اگر بات غیر مُلکی مہمانوں کی ہو، تو پھر اپنی جان پر بھی کھیل کر اُن کی حفاظت یقینی بنانی ہوگی۔ اِسی لیے بیرونِ ممالک سے آنے والے کھلاڑیوں کے لیے سیکیوریٹی کے فول پروف انتظامات کیے جاتے ہیں۔ حفاظتی انتظامات اِس لیے بھی ضروری ہیں کہ پاکستان ماضی میں اپنے ہاں آنے والی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کی صُورت مُلک دشمنوں کی ایک گھناؤنی سازش کا نشانہ بن چُکا ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سازش کی گئی۔ 

یہ سب باتیں درست ہیں، تاہم ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر انتظامیہ چاہے، تو ایسا حفاظتی منصوبہ بنایا جاسکتا ہے، جس کے ذریعے ایک طرف کھلاڑیوں وغیرہ کو فول پروف سیکیوریٹی فراہم کی جاسکے، تو دوسری طرف، عوام کو بھی ٹریفک جام جیسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اِس کی ایک مثال پاکستان اور جنوبی افریقا کے درمیان کھیلا جانے والا حالیہ میچ ہے۔ اِس موقعے پر انتظامیہ نے کئی سڑکیں کنٹینرز رکھ کر مکمل طور پر بند کردیں، مگر جب عوام کی جانب سے سخت ردّ ِ عمل سامنے آیا، تو ان سڑکوں کو چھوٹی گاڑیوں کے لیے کھول دیا گیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ سڑکوں کا یوں کنٹینرز رکھ کر بند کرنا غیر ضروری عمل تھا اور کسی منصوبہ بندی کے بغیر یہ اقدام کیا گیا تھا۔

حل کیا ہے؟

عوام کا مطالبہ تو آپ پڑھ ہی چُکے کہ اگر ساری سڑکیں بند کر کے ہی میچ کروانے ہیں، تو پھر اسٹیڈیم شہر سے باہر منتقل کرنا ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ شہری میچز کے دَوران جو تکالیف برداشت کرتے ہیں، اُن کے پیشِ نظر تو وہ یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں، مگر مسئلے کا یہ واحد حل نہیں۔اگر میچز کے دَوران صرف سیکیوریٹی ہی مرکزی نکتہ نہ ہو اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنا بھی ایجنڈے میں شامل ہو، تو بہت سے مسائل پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ 

عوامی حلقوں کی جانب سے اِس طرح کی تجاویز سامنے آئی ہیں٭ صرف وہی سڑکیں بند کی جائیں، جو بہت ضروری ہوں۔٭ جہاں تک ممکن ہو، سڑکیں چھوٹی گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کے لیے کُھلی رہیں۔٭ سڑکوں کی بندش سے متعلق اوقاتِ کار کی سختی سے پابندی کی جائے۔ ایسا طریقۂ کار وضع کیا جائے کہ سڑکیں میچ کے آغاز سے کچھ دیر قبل بند ہوں اور میچ ختم ہوتے ہی کُھل جائیں ٭کوئی بھی سڑک بند کرنے سے قبل اُس کا متبادل ضرور دیا جائے۔٭ متبادل روٹس پر ٹریفک کی روانی کے لیے زیادہ تعداد میں اہل کار تعیّنات کیے جائیں۔ وہاں پارکنگ اور تجاوزات سختی سے ممنوع ہوں اور اہل کاروں کی مانیٹرنگ بھی کی جائے۔٭ میچز کے دَوران اسٹیڈیم کے اطراف قائم اسپتالوں تک عوام کی رسائی آسان بنائی جائے۔

تازہ ترین