• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2021کے آغاز میں ایک پڑھے لکھے دوست نے خاص طور پریہ تاکید کی کہ نئے سال میں سعادت حسن منٹو سے آگے نکل کر دوسرے ادیبوں کو گہرائی سے پڑھنے کی کوشش کیجئے۔ اِس ضمن میں انہوں نے خاص طور پر راجندر سنگھ بیدی کا نام لیا۔ وہ بیدی کی جانب راغب کرنے کے لئے کوئی اور جملہ بھی استعمال کر سکتے تھے مگر بات اُس طرح کی جاتی تو شاید فیشن اور مصالحہ میں پوری طرح جکڑے ہوئے پڑھنے، دیکھنے، سننے والوں کو اِس قدر بھر پور انداز سے مخاطب یا متوجہ نہ کر سکتی۔

مصالحہ سے فرار ناممکن تو شاید نہ ہو مگر بہت مشکل ہے۔ بالکل اُس طرح جس طرح پاکستان کی سڑکوں پر آج کل ہر نوع اور ہیئت کی بریانی سے بچ نکلنا اپنے آپ میں ایک مہم ہے۔ رکھی رہی دو چار دن بیدی کی کتاب ہماری سائیڈ ٹیبل پہ، دو ایک کہانیاں بھی تازہ کیں، جیسا کہ وہ کوٹ والی کہانی جسے پڑھ کر ہمیشہ کئی ادیبوں کے کوٹ اور اپنا وہ بلیزر یاد آجاتا تھا جس کی پھٹی ہوئی جیب میں رکھے سو روپے کے نوٹ کی ہم کئی سردیاں تلاش میں رہے۔ وہ نوٹ تو نہ ملا اور ادھر 2021میں ٹی وی کا شیطانی ریموٹ آگیا۔ بیکاری اور کورونا کے دنوں میں ٹیلیوژن اپنے موجودہ امکانات کے ساتھ ایک شاندار راہِ فرار ہے۔ آپ کی پسندیدہ مقدار میں مصالحہ میں لتھڑا ہوا فرار۔

کورونا کے دنوں میں فلمیں دیکھی جا رہی ہیں۔ وہ فلمیں جن کا دوستوں سے زیادہ ذکر سنا تھا اور پھر اس کے بعد وہ فلمیں جو کے دستیاب نیٹ ورکس نے مخصوص صارفین کی افتادِ طبع کو دیکھتے ہوئے گاہے گاہے منتخب کیں۔ فیملی فلم تو خیر ہمیشہ سے ہی ایک ڈھکوسلہ تھی، عقدہ آخر میں یہ کھلا کہ بات ذومعنی سے بھی آگے چلی گئی ہے۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق اس سامع کو وہ فلمیں پسند ہیں جن میں عام سیدھے سادے مکالموں کی بجائے گالیوں کی ندیاں بہہ رہی ہوں۔ یہ کوئی شریف نواز نہیں ہے جو کبھی عام آدمی اور کبھی گینگسٹر کے روپ میں سڑک کی ناقابلِ اشاعت، قطعی غیرپارلیمانی حقیقتیں آپ پہ آشکار کر رہا ہے۔ یہ ایک انتہائی شریر قسم کا نواز الدین ہے جو عام آدمی کا بدلہ لے رہا ہے۔ کلچر کے بناوٹی، خود ایستادہ سرپرستوں سے۔ پاکستان تو خیر ہر زمانے میں اس زمانے کا سینما پیش کرنے میں ناکام رہا ہے مگر بھلا ہو ہمارے ہندوستانی کرم فرماؤں کا کہ آخر کار وہ اس بات کو جان گئے ہیں کہ ان کی فلموں اور ترقی یافتہ ہالی وڈ میں تخلیق پانے والی ان تصویروں میں فرق ہے تو صرف اور صرف ایک لفظ کی تکرار کا۔ تو بس بھر دیا پوری فلموں کو مغلظات سے کچھ اس فنکارانہ انداز کے ساتھ کہ مغلِ اعظم کے مشہور مکالمہ نگاروں کی دکان ان کے آگے پھیکی نظر آئے۔ بندے تو بندے اب تو خواتین کرداروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوئے بھی کافی وقت ہو گیا ہے۔ یہ مصالحہ ہے جو آج کل سب سے زیادہ بک رہا ہے۔ پہلے کبھی کبھار کسی فلم میں کوئی پولیس والا حقیقت نگاری کے طور پہ کہیں چپ چاپ کوئی ایک آدھ ہلکی پھلکی گالی چپکا دیا کرتا تھا اور ہدایتکار یہ دعا کرتا کہ کاش معاشرے کے خلاف ان کا یہ انقلابی قدم سنسر بورڈ کے اونگتے ہوئے ارکان کے اوپر سے بخیریت گزر جائے۔ اب تو بھائی کسی کے سونے کا سوال ہی نہیں ہے۔ یہاں ذرا نیند کا جھونکا آیا، وہاں بوچھاڑ شروع۔

تو اس میں ہرج کیا ہے؟ گالی دینے سے کتھارسس ہوتا ہے اور یہ عوام کے غبار کو خارج کرنے کا سستا اور آزمودہ طریقہ ہے، اور ظاہر ہے اسی لئے خواص میں مقبول نہیں ہے جو لوگوں کو کسی بھی قسم کی راحت پہنچانے کے طریقوں کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔ گالم گلوچ سے لے کر اعلیٰ قسم کی جگت بازی تک، حتیٰ کہ عام لوگوں کا پسندیدہ ناول، افسانہ، کہانی ان لوگوں کو شاید ایسا ہی ہیجان خیز اور سستے نسخہ کا تسلسل لگتا ہو جو ہالی وڈ میں اور اب بالی وڈ میں اپنے پورے طمطراق کے ساتھ فلم بینوں کو اپنے حصار میں جکڑنے کے لئے تیار ہے۔ ہمارے ہاں گالی سے رومانس کوئی آج کی بات نہیں جب ہماری حکومت یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ حزبِ مخالف کی طرف سے اِس پہ لادی گئیں یہ تمام گالیاں حکومت کے لئے ایک اعزاز ہیں۔ یہ قصہ کافی پرانا ہے اور میڈیا میں ہوئی بحثوں سے یہ بات ظاہر ہے کہ یہاں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے کم از کم ذوالفقار علی بھٹو کو جلسہ عام میں ایک سخت قسم کی گالی دیتے سنا ہے۔ عوامی دور تھا، عوامی لیڈر خود پہ قابو نہ رکھ پائے مگر وہ پھسلے تو بھی گراف اوپر ہی گیا، ایک ایسی سہولت جوشاید موجودہ دور کے تیز مصا لحوں کے عادی سیاستدانوں کو’’میسر‘‘یا ’’دستیاب‘‘نہ ہو۔

گالی اور اُس کے استعمال کے مناسب فورمز کے بارے میں جب بھی بات ہو، ایک دوست ٹی وی سے متعلق ذرا مشکل سے یقین آنے والا واقعہ ضرور سناتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ مرحوم طارق عزیزنے ایک بار نیلام گھر میں سوال پوچھ لیا کہ پاکستان میں گالیاں سب سے زیادہ کہاں دی جاتی ہیں؟ دوست کی یاد داشت کے مطابق جواب میں میرے میٹھے ملتان کے ایک ایسے محلے کا نام قومی نشریاتی رابطہ پہ گونجتا سنائی دیا جس کے اپنے قواعد و اصول ہیں۔

سب یہی کہتے ہیں، اگر کردار کی ضرورت ہے تو بس ٹھیک ہے، پھر سب جائز ہے۔ ایک اور واقعہ جو اکثر سنایا جاتا ہے وہ عوامی کہانیوں اور بول چال کے مانے ہوئے شناسا منو بھائی سے متعلق ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک ٹیلی وژن کھیل میں ایک کردار کو منہ ہی منہ میں گالی بکتے دکھایا گیا تھا۔ یعنی کام بھی ہو گیا، کوئی شور بھی نہیں ہوا۔ اب اگر کوئی اتنی نفاست، لطافت سے یہ کام انجام دینے پہ مائل بھی ہو تو اتنے تیز مصالحوں کی مسلسل یلغار کے بعد اِس کے مزے کا کسے پتا چلے گا؟

تازہ ترین