ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار برطانیہ میں اب کورونا وائرس سے نمٹنے، انسانی زندگیوں کو بچانے اورمستقبل کی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لیے باقاعدہ کمر کس لی گئی ہے اور اس وقت کم از کم3ویکسینز مارکیٹ میں موجود ہیں جو لوگوں کو دھڑا دھڑا لگائی جارہی ہیں، اب تک ایک کروڑ سے زیادہ افراد کو مختلف ویکسینز کی پہلی ڈوز لگائی جاچکی ہے اور توقع ہے کہ مارچ کے آخر تک ان تمام افراد کو ویکسین لگ جائے گی، اس کا لگایا جانا ضروری ہے۔ برطانیہ میں بسنے والے سیاہ فام، ایشیائی اور تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے باشندوں کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ان کو بروقت یہ ویکسین دستیاب ہے، وگرنہ وطن عزیز (پاکستان) میں تو اب محدود پیمانے پر ویکسین لگانے کا کام شروع ہوا ہے۔ یہ ویکسین پروگرام کے مطابق اگر لگائی گئی تو پہلے طبی عملے کو اور پھر بزرگوں اور مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کو لگائی جائے گی، مگر کوئی نہیں جانتا کہ ان بزرگوں، بیماروں اور غریبوں کی باری کب آئی گی اور کب یہ لوگ ہسپتالوں میں داخل ہوئے بغیر اپنے گھروں پر ہی زندگی کی بازی ہارتے رہیں گے۔ اللہ کرے کہ پاکستان کو مستقبل میں بہت زیادہ ویکسین دستیاب ہو اور غریبوں کا نمبر بھی آئے جو اس ویکسین کا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔ اگرچہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں روزانہ سو سے بھی کم اموات ہورہی ہیں اور یہ کہ نئے مریضوں کی شرح چار فیصد سے بھی کم ہے مگر پاکستان میں میری جن لوگوں سے بات ہوئی ہے ان کا کہنا ہے کہ اصل اعدادو شمار حکومت تک پہنچتے ہی نہیں ہیں۔ اب ایک ہفتہ قبل برطانیہ کے ممتاز ڈینٹیسٹ (دانتوں کے ڈاکٹر) ڈاکٹر عاشق غوری کے دو بھائی کورونا سے انتقال کرگئے، جبکہ پاکستان نژاد ممتاز شخصیت ڈاکٹر ظفر خان کی بہن اور بہنوئی بھی گزشتہ کچھ عرصہ کراچی میں کورونا کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ ڈاکٹر ہونے کے باوجود ان کی بہن کو کسی ہسپتال میں داخل ہونے کے لیے بڑی سفارش کا سہارا لینا پڑا۔ یہ لوگ بھی بتاتے ہیں کہ صورت حال خراب ہے مگر چونکہ حکومت اور اس کے ساتھ ساتھ عوام نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں، اس لیے ’’سب اچھے کی رپورٹ‘‘ ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے لوگوں کو ویکسین کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور جن کا ویکسین پر سب سے زیادہ حق ہے انہیں پہلے ویکسین ملنی چاہیے۔ غریبوں کے لیے الگ اور امیروں کے لیے الگ معیار نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری طرف برطانیہ ہے کہ جہاں ایسی اطلاعات کا سخت نوٹس لیا گیا تھا کہ بعض لوگوں نے اپنی باری سے پہلے ہی ویکسین کی پہلی ڈوز لگوالی اوراس کی تحقیقات ہورہی ہے۔ البتہ میرٹ کا عالم یہ ہے کہ ذیا بیطس کے مرض کے باعث ویکسین کے لیے میرا نمبر پہلے ماہ کے اندر میں آگیا اور مجھے میرٹ کی ترجیح کے مطابق17جنوری کو ویکسین کی پہلی ڈوز لگ گئی، بعض دوستوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے تصویر بنوااکر دوسرے ایشیائی لوگوں کو بھی ویکسین لگوانے کی ترغیب دینی چاہیے تھی کہ جو ویکسین لگوانے سے انکار کررہے ہیں۔بعض کا خیال ہے کہ یہ حرام ہے اور بعض اسے غیر محفوظ سمجھتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ اس سے مردانہ وجاہت کم ہوجاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوں کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں یہ ویکسین لگ رہی ہے۔ حرام ہوتی تو مفتی فتویٰ صادر کرتے۔ وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ ویکسین سینیٹروں کا خود افتتاح کررہے ہیں۔ سعودیی عرب میں بھی ویکسین لگ رہی ہے۔ اگر یہ محفوظ نہ ہوتی تو اب تک مجھے بھی کوئی نہ کوئی ری ایکشن ہوگیا ہوتا، جو کہتے ہیں کہ مردانہ وجاہت کم ہوجاتی ہے تو انہیں ایک بار پھر سوچنا چاہیے کہ انہیں زندگی چاہیے یا وجاہت؟ ۔بہرحال الحمدللہ میں نے I Have Had My Covid Vaaccination کا بیج لگوالیا ہے، جبکہ اب برطانیہ میں مسلمانوں اور ایشیائی و سیاہ فاموں کی اکثریت کو اس بات کا ادراک ہوگیا ہے کہ یہ محفوظ ہے اور زندگی کو بچانے کے لیے اس کا لگنا ضروری ہے۔ پاکستان سینٹر ولز ڈن لندن کے چیئرمین کونسلر طارق ڈار ا یم بی ای نے نہ صرف خود ویکسین لگوالی، بلکہ ان کے سینٹر میں بھی کورونا ویکسین لگائے جانے کی اجازت مل گئی ہے اور یہ کام بہت جلد شروع بھی ہوجائے گا۔ پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ انڈین، بنگلہ دیشی اور سری لنکا کمیونٹیز کو بھی کورونا ویکسین کے خلاف چلنے والی مہم کا مثبت جواب دینا چاہیے اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے، تاکہ مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے۔