• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کے 46ویں صدر جو بائیڈن کے لئے کئی چیلنجز ہیں۔ اپنے ملک میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ناقص پالیسی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ ان کی یقینی طور پر اولین ترجیح ہوگی مگر انہیں عالمی سطح پر بھی کئی کٹھن مسائل کو باریک بینی اور تدبر کے ساتھ حل کرنا ہوگا۔وہ سیاسی طور پر خاصے منجھے ہوئے سیاست داں ہیں، ماضی کی امریکی حکومت کا حصہ رہے ہیں، اس لئے دنیا بھر کی نظریں ان کے سیاسی فیصلوں پر لگی ہوئی ہیں۔ ان کو جنوبی ایشیا، مشرق وسطی کے سنجیدہ اور الجھے ہوئے طویل مدتی مسائل کے حل کے لئے واضح پالیسی کا اعلان کرنا ہوگا۔ایک اور سب سے اہم مسئلہ کشمیر کی آزادی کا ہے جو اس وقت دنیا کا سب سے اہم ترین مسئلہ ہے، فلسطینی عوام کے ساتھ اسرائیلی جارحیت کو روکنا بھی ان کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نےجمہوریت ، آئین اور امریکہ کے دفاع اور امریکہ سمیت دنیا بھر کو بڑھتی ہوئی سیاسی انتہا پسندی، سفید بالاتری، مقامی دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے اس سے مقابلے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ آزادی اور انصاف سب کیلئے ہوگا ۔ بیرونی دنیا کیلئے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کیساتھ اپنے اتحادوں کو بحال کریں گے ، ہم دنیا کی قیادت صرف اپنی طاقت کی بنیاد پر نہیں کریں گے بلکہ ہم امن ، ترقی اور سلامتی کیلئے ایک قابل بھروسا اتحادی ثابت ہوں گے ۔ یہ بات درست ہے کہ طاقت اور قوت کی بنیاد پر امریکہ نے پچھلے کئی برسوں میں اپنے اتحادی کم اور مخالفین زیادہ بنائے ہیں، افغانستان میں اس کی20سالہ موجودگی کے باوجود وہاں امن قائم نہ ہوسکا، لبیا،عراق، شام، یمن سمیت کئی اسلامی ملکوں میں اس کی دخل اندازی کے اچھے نتائج سامنے نہیں آئے بلکہ ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے دل میں اس کے خلاف نفرت نے جنم لیا۔اب جبکہ امریکی انتخابات میں امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی بڑی تعداد نے جو بائیڈن کا ساتھ دیا انہیں اپنی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی۔جنوبی ایشیا اور افغانستان میں امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ بھارت ہے جس نے کابل میں اپنے سفارت خانے کودہشت گردی کا گڑھ بنا رکھا ہے۔ بھارت جنوبی ایشیا میں امریکہ کے ساتھ ہونے والے دفاعی معاہدوں کی وجہ سے امن کا تواز ن بگاڑ رہا ہے۔ دنیا جانتی ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے قابل ستائش کردار ادا کیا جس کیلئے پاکستان کی سیکورٹی فورسز اور عوام نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں، ڈیڑھ کھرب ڈالرز کا نقصان برداشت کیا۔مگر افسوس کی بات یہ کہ امریکہ کے سابق حکمرانوں نے اس کا اعتراف نہ کیا۔ اس خطے میں کشمیری عوام کے ساتھ 73سال سے بھارت نے جو ظلم وستم جاری رکھا ہواہے اس کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے۔ بھارتی جبر و استبداد کا مقابلہ بے سروسامانی کے عالم میںتو کشمیری کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔ بھارتی تشدد اور نسل کشی کی ایسی نظیر دنیا کےکسی ملک نے نہیں دیکھی ۔اس کے باوجود بھارت کشمیری عوام کے آزادی کے جذبات کو قابو نہ کرسکا۔نئے امریکی صدر اگر کشمیری عوام کیلئے اقوام متحدہ کی قرارداد وں پر عمل کرانے میں کامیاب ہوگئے توجنوبی ایشیا امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔اس سلسلے میں چین، برطانیہ، فرانس اور روس کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔کشمیر کے ساتھ دوسری جانب فلسطین میں بھی اسرائیلی جارحیت جاری ہے ۔ ان کے جذبات بھی کشمیری عوام کی طرح آج تک سرد نہ ہوسکے۔ٹرمپ انتظا میہ نے اسرائیل کا ساتھ دیامگر اس کے اچھے نتائج سامنے نہیں آئے ۔جو بائیڈن کو اسلامی اور کم زور ملکوں کے خلاف زور آزمائی کی روش میں تبدیلی لانا ہوگی۔دنیا بھر میں امریکہ کے ان فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سےنفرتوں میں اضافہ ہورہا ہے جس کو بدلنے کا وقت آگیا ہے۔بائیڈن کو ایران کے حوالے سے بھی اپنی حکومتی پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی۔ایران کے جوہری طاقت بننے کے حوالے سے اسرائیلی دھمکی افسوس ناک ہے۔ اس نے ایران کے خلاف کارروائی کیلئے 90کروڑ دس لاکھ ڈالرز کا فنڈ مختص کیا ہے۔عالمی عدالت انصاف نے امریکی پابندیوں کے خلاف ایران کی درخواست کوقابل سماعت قرار دے دیا۔امریکہ کو اسرائیل کو لگام دینا ہوگا ورنہ عالمی جنگ کا خطرہ ہے۔ مسلمانوں کو فرقہ واریت میں تقسیم کرنے کی سازش اب تک ناکام رہی ہے۔ اس لئے اسلامی ملکوں میں خانہ جنگی کو جنم دینے کی ہر کوشش کو ختم کرنا ہوگا۔ امریکی صدر کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ عالمی سطح پر اب ایک نیا اتحاد بن رہا ہے جس سے بھارت کے دنیا کی بڑی تجارتی منڈی ہونے کا تاثر بھی جلد ختم ہو جائے گا۔ پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا، اس کو نظر انداز کرنے سے اچھے نتائج برآمد نہ ہوں گے۔ عالمی وبا کورونا کی وجہ سے دنیا بھر کو معاشی طور پر خسارے کا سامنا ہے۔ امریکی صدرکو سوچنا ہوگا کہ دنیا ان کی طرف دیکھ رہی ہے، انہیں لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا، بہت کچھ بحال کرنا، بہت کچھ تعمیر کرنا ہوگا، لوگوں کی سیکورٹی، آزادی، عزت و احترام، وقار اور سچائی سے محبت کرنا ہوگی۔ امریکی صدر کو اپنے ان الفاظ کو عملی شکل دینا ہوگی کہ امریکی تاریخ امید کی رہی ہے خوف پھیلانے کی نہیں، اختلاف بغیر تشدد اور لڑائی کے بھی ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین