حرف بہ حرف …رخسانہ رخشی، لندن کسی اچھی سی بات کا پرچار، پیام یا پیغام کسی اچھی سی بات کا سندیسا! ان تمام تر پیغامات سے جڑے الفاظ کو، نعروں کو، جملوں کو محاوروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ان پیغامات کو پیغمبری پیغامات سے بہت دور جانیئے کہ خدا کے خاص پیشوائے دین، قاصد ہماری راہبری و رہنمائی کے پیغامات لاتے رہے۔ مگر زمانے کا یہ چلن رہا ہے کہ پیغام در پیغام انسان اپنی اپنی ذمہ داری جان کر زمانہ در زمانہ دوسرے انسانوں تک ایک اچھا پیغام پہنچاتے رہے۔ اس پیغام رسانی کو لوگوں تک پہنچانے میں اپنی ذات کو، اپنے آرام کو، اپنی نیند کو ازخود وارفتگی میں ڈھالا گیا۔ یعنی عشق حقیقی کے رموز جاننے کو اس کی ذات میں گم ہوکر مست ہوکر اسرار کائنات کی آگاہی لاکر لوگوں کو بتایا گیااور عظیم پیام سے نوازا گیا۔ خود عمل پیرا ہوکر دکھایا گیا۔ بے خطا اور خطا وار کا فرق سمجھایا گیا، بے خار سے خاردار زندگی کی راعنائی بتائی گئی، جہالت اور علمیت کی تحفیص ، ہوش و بےہوشی کی وجہ، خوف سے بے خوفی کا اطمینان، انصاف سے ظلم کی داستاں، معنی سے بے معنی کے مخمصے، زر سے بے زر ہونے کی طاقت، ستوں سے بے ستوں ہونا، مال و اسباب سے بے سبب ہونا، بے سروساماں سے بے سود ہونا، بے ڈھنگ سے قرینے میں آجانا، بے راہ روی سے صراط مستقیم پکڑنا۔ ان تمام پیغامات میں غفلت کا عمل دخل نہیں، بے خبری اور جہالت بھی نہیں، نا سمجھی بھی نہیں۔ مگر بے خودی ضرور ہے ایک روح کا رشتہ بندھ جاتا ہے کسی نہ کسی سرشاری سے، مستی سے ایک وارفتگی ہوتی ہے۔ ایک روحانی پیغام کہ خود کو بھول جائیے، خود کو مستی میں ڈھال کر کہئے کہ ’’کی جاناں میں کون‘‘ نہ میں عربی، نہ لاہوری، نہ میں ہندی شہر نگوری، نہ ہندو نہ ترک پشوری۔ پھر یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ میں نے مذہب کا بھید بھی نہ پایا نہ میں بھید مذہب کا پاسکا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آدم و حوا کا جایا ہوں۔ مجھے اپنا کچھ پتہ نہیں اپنا نام تک بھول گیا۔ بے خودی کی یہ ریت ہے کہ خود سے، ماحول سے بیگانہ رہا جائے کہ میں مومن بھی نہیں نہ پاک میں نہ پلید میں نہ میں موسیٰ، نہ فرعون، نہیں معلوم میں کون ہوں۔ جس بھی صوفی کے کلام میں تصوف اور روحانیت کا کوئی بھی جزو پایا جائے وہ شریعت کی راہ کا اطمینان قلب ہوتا ہے۔ تصوف اللہ پاک کی محبت کا مقصود ہے جو اللہ کی خاص رضا اور قرب سے ملتا ہے۔ ایک اور صوفی غوث اعظم فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آمیزوں جسم اور روح سے مرکب کیا ہے۔ اولیاء کرام نے انسانی دل کو روح کا مرکز مانا ہے روح دل سے سراب ہوتی ہے۔ صوفیاء نے اسلام کو آسان اور قابل فہم اور عام انسانوں کے سمجھنے کیلئے قابل قبول بنایا ہے ورنہ بلے شاہ کو کی جاناں میں کون؟ تک عام لوگوں کو سمجھانا آساں نہ ہوتا۔ صوفیاء کرام کی شاعری میں ان کے کلام کی خاصیت اور مقصدیت انسان کے باطنی اعمال سے وابستہ خیر کا پیغام ہے۔ وہ اپنے کلام میں کفروشرک سے لے کر عام برائیوں کو شدید یا ہلکے سے مذمت کے نرم لہجے میں بیان کرتے ہیں۔ روایات کی پابندی بھی تصوف کیساتھ ہی چلتی ہے کچھ بے خودی میں ہلکورے کھاتے کلام ایسے بھی ہیں کہ اپنی چھوی بنا کے میں پیا کے پاس گئی۔ جب چھوی دیکھی پیو (پیا) کی تو اپنی بھول گئی۔ یہ صورت وہی بنتی ہے کہچھاپ تلک سب چھین رے مو سے نیناں ملائے کےباب ادھم کہہ دی تیرے موسے نیناں ملائے کےعظیم المرتبت لوگ صوفی منش اور بوریا نشین، مگر کلام ایسےجدا لگتے کہ دانتوں تلے انگلیاں چلی جائیں۔ بے خود کرنے والے کلام، مگر عشق حقیقی کے آئینہ دار و تصوف میں ڈوبے یعنی سیدھے ہی اللہ سے ملانے والے۔ اللہ کے واحدانیت پر بھروسہ دار صوفی ہی ہوتے ہیں جو دوسروں کو بھی واحدنیت کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ کہہ کر کہ ’’اک نقطے وچ گل مکدی اے‘‘ یہاں مراد یہ ہے کہ بے خودی کو پھیلا لو مگر بات تصوف ہی پر جاکر ختم ہوتی ہے۔ امیر خسرو کی بے خودی کی لے یہ کہ ’’چھاپ تلک سب چھین لی اس سے لو لگا کے‘‘، نہایت ہی تصوف کے نسوں میں کھو جانے والا معاملہ ہر صوفی منش صوفیاء اور بزرگوں سے علاوہ جو بھی مراقبہ اور وجد اپنے پر طاری کریں تو بے خود ہوکر خدا اور خدا کی بنائی کائنات میں محو ہوجاتے ہیں۔ اسی سلسلے میں بلے شاہ ہی نے تصوف میں علمیت پھیلا کر عام لوگوں کو آگہی دی ہے کہ تیرے عشق نے ڈیرے میرے اندر کیتا بھر کے زہر دا پیالہ، میں ناں آپے پیتا جھب دے بوہریں وے طبیبا، نہیں تے میں مر گئیا تیرے عشق نچائیاں کرکے تھیا تھیا ایک بات جو ضرور کہنا چاہیں گے کہ صوفیاء کرام تو بہت پہلے سے آکر اپنی درویشانہ زندگی سے عام خلقت کو متاثر کرتے رہے ان کے لباس اور رہن سہن کے طریقے بھی بہت سادہ مزاجوں کو بھاتے رہے مگر آج بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ بہت سے لوگ فیشن کے طور پر خود کو بے خودی کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ یورپ میں رہنے والے ہبی بن کر زندگی گزارتے ہیں یہ ہپی لوگ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرکے ذرا سنسان سی جگہ پر بسیرا کرلیتے ہیں۔ اپنے تئیں یہ خود کو بے ضرر خیال کرتے ہیں ۔ کسی انسان تو کیا معمولی پرندے تک کی جان کو قیمتی جانتے ہیں۔ جیو اور جینے دو کے علاوہ بھی ان کی سوچ صرف اور صرف دنیاوی امن تک ہی گھومتی ہے۔ بڑے بڑے بالوں اور گندے سے حلئے ہی کو ہپی ہونا کہا جاتا ہے۔ مگر ایک بات اہم یوں کہ یہ کسی مذہبی پابندی کے قائل نہیں ہوتے اسی لئے تصوف یا بے خودی ان سے مشروط نہیں ہوتی ان میں بے خودی نشے میں بلکہ مختلف نشوں میں محو ہو کر حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں بعض امراء نے فیشن کے طور پر خود کو صوفی یا درویش بنا رکھا ہے یہ لوگ مراقبہ میں نہیں جاتے کوئی صوفیانہ پیغام دنیا تک نہیں پہنچاتے بلکہ صوفیوں کے کلام پر حالت مستی میں رہتے ہیں وجد میں بھی، عبادت سے دور رہتے ہیں فیشن کے طور لباس ڈیزائن کراتے ہیں۔ یورپ والے ہپی اپنے ہی ماحول کو روحانی رنگ دیتے جبکہ روحانیت سے ان کا دور دار کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کے فیشن ایبل صوفیانہ روش پر چلنے کی کوشش میں مہنگے صوفیانہ درویشانہ لباس اور موتی مالے پہن کر دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عموماً قوالی اور صوفیانہ کلام پر جھومنا ہی ان کا کمال ہوتا ہے وہ جو امیر خسرو کا وجد ہے ’’چھاپ تلک سب چھین لی رے اور بلے شاہ کی بے خودی و مستی سے یہ ظاہر ہونا کہ ’’کی جانا میں کون‘‘ ، تو ایسا کچھ حالیہ صوفیاء میں نظر نہیں آتا۔