• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ووٹوں کی خرید و فروخت کے اسکینڈل نے بھارت کا سیاسی نظام ہلا ڈالا تھا

لاہور (صابر شاہ) انتخابی بدعنوانیوں اور دھاندلی کے واقعات دنیا میں عام ہیں بلکہ تقریباً اس وقت سے ہی چلے آرہے ہیں جب سے انتخابات شروع ہوئے ہیں اور ختم ہوتے نظر نہیں آتے. ارکان پارلیمنٹ کی ووٹ فروشی کے واقعات بھی کچھ کم سہی لیکن سامنے آتے رہے ہیں. بھارت جیسے ملکوں میں ایسے واقعات سامنے آنے پر قانون نے گرفت کی اور سنگین نتائج برآمد ہوئے لیکن پاکستان میں اب تک معاملہ کبھی استعفوں سے آگے نہیں بڑھا. جنگ گروپ اور جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی تحقیق کے مطابق جولائی 2008میں ووٹوں کی خریدوفروخت کے ایک سکینڈل نے بھارت کے سیاسی نظام کو ہلا ڈالا تھا. اس کے نتیجے میں کم از کم چھ ارکان پارلیمنٹ گرفتار ہوئے تھے اور بی جے پی اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں نے کانگریس کے وزیراعظم منموہن سنگھ کی گرفتاری کا مطالبہ کر دیا تھا. ان پر الزام تھا کہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد سے محفوظ رہنے کے لئے ارکان کی ہتھیلیاں گرم کیں. بی جے پی ہی کے ایک رکن سدھیندرا کلکرنی اس معاملے کے ماسٹر مائنڈ تھے، جنہوں نے اپنی پارٹی کے ارکان کو نقد وصول کرکے سونیا گاندھی کی قیادت میں حکمران یونائیٹڈ پروگریسو الائنس کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے خلاف 22 جولائی 2008 کو تحریک عدم اعتماد کے موقع پر انہیں ووٹ دینے کیلئے آمادہ کیا. کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ کی قیادت میں ایک گروپ نے امریکہ سے ایٹمی معاہدے کی وجہ سے حکمران اتحاد کا ساتھ چھوڑ دیا تھا جس پر بی جے پی نے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا. ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس مطالبے پر بحث جاری تھی کہ بی جے پی کے کچھ ارکان نے کھڑے ہوکر نوٹوں کی گڈیاں لہرانا شروع کردیں اور الزام لگایا کہ یہ انہیں رشوت دی گئی ہے. سپیکر سوم ناتھ چٹرجی نے دہلی پولیس کے سربراہ کو بلا لیا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں. بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ تین چار دن سے کانگریس اور اس کے سپورٹ ہمارے ارکان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ رقم لیں اور تحریک پر رائے شماری میں غیر حاضر رہیں یا حکومت کے حق میں کو ووٹ دیں.اب یہ بات کھل گئی ہے. اس سے پارلیمنٹ کا وقار مجروح ہوا ہے. ہماری پارلیمنٹ کی تاریخ میں ایسے شرمناک سکینڈل کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی. اسی دوران بی جے پی کے رکن اشوک ارگل نے نوٹوں سے بھرے کچھ بیگ دکھائے جن میں تین کروڑروپے تھے. انہوں نے کہا یہ رقم انہیں رائے شماری میں حصہ نہ لینے کیلئے دی گئی ہے . دو اور ارکان نے بھی ایسی ہی بات کی. اس دوران پارلیمنٹ ٹیلی ویژن پر لوک سبھا کی کارروائی بند کرکے مدر ٹریسا کی تصاویر دکھائی جانے لگیں. حکمران جماعت کے ترجمان راجیو شکلا نے کہا اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ رقم کانگریس نے دی؟ ارگل نے رقم وصول کی ہے تو اسے کارروائی کا سامنا کرنا ہو گا. بی بی سی نیوز کے مطابق یہ سکینڈل مارچ 2011 میں پھر سامنے آیا جب وکی لیکس میں ایک امریکی سفارتی کیبل سامنے آئی جس میں کہا گیا تھا کہ کانگریس پارٹی نےایٹمی معاہدے پر حمایت حاصل کرنے کے لیے ارکان کو پچیس پچیس لاکھ ڈالر رشوت دی. اسی سال جولائی میں سپریم کورٹ نے اس معاملے میں پولیس کی تحقیقات کو ناقص قرار دیا. اس کے نتیجے میں ستمبر 2011 میں ایل کے ایڈوانی کے ایک قریبی ساتھی سدھیندرا کلکرنی کو ووٹوں کی خریدو فروخت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا. اس نے عدالت کو بتایا کہ وہ تو خود کرپشن کو بے نقاب کرنا چاہتا تھا. پولیس کا کہنا تھا کہ اس نے تحریک عدم اعتماد کے موقع پر کانگریس کی اتحادی سماج وادی پارٹی کے امرسنگھ سے رابطہ کیا تھا کہ وہ رقم کے بدلے بی جے پی کے ارکان کے ووٹ دلواسکتا ہے. پولیس نے الزام لگایا کہ اس کے بعد کلکرنی نے ایک ٹیلی ویژن چینل کے ذریعے رشوت کی وصولی کی ویڈیو بنوائی تاکہ حکومت کو ذلیل کرسکے. گرفتار ہونے والا چھٹا شخص وہی تھا. لیکن کوئی غلط کام کرنے کی تردید کرتا ہے. سب سے اہم. گرفتاری رکن پارلیمنٹ امر سنگھ کی تھی جس پر دوسرے ارکان کو رشوت کی پیشکش کا الزام تھا. اس کے ایک ساتھی سنجیو سکسینہ کو سپریم کورٹ کی تنقید کے دو دن بعد ہی گرفتار کر لیا گیا تھا. 20 جولائی کو پولیس نے بی جے پی کے سہیل ہندوستانی کو بھی گرفتار کیا تھا. اس پر بھی الزام تھا کہ وہ حکومت کو پھنسانے کی کوشش کررہا تھا. اس کے وکیل نے بھی کہا کہ وہ تو وسل بلوور تھا. سماج وادی پارٹی کے سیکرٹری جنرل امر سنگھ کو بھی 6 ستمبر 2011 کو کچھ دیر کیلئے گرفتار کیا گیا. اس کی بیماری کے باعث حاضری سے استثنیٰ کی درخواست درخواست عدالت نے مسترد کردی. اس پر بی جے پی کے تین ارکان کو رشوت دینے کی فرد جرم عائد کی گئی. لیکن اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے.2016 میں پارٹی کے اندر مخالفت کے باوجود وہ راجیہ سبھا کا رکن منتخب ہوگیا. (حوالہ جات: ٹائمز آف انڈیا، گلف نیوز، اے ایف پی، این ڈی ٹی وی، زی نیوز، دی ہندو)امریکہ میں بھی 19 ویں صدی کے اواخر میں پارٹیاں کھلے عام یا خفیہ طور پر عام لوگوں کے ووٹ خریدتی رہی ہیں. ووٹر کو نقد رقم دی جاتی یا اس کا ٹیکس یا مکان کی قسط ادا کردی جاتی. ووٹر سے رابطے کیلئے دکانیں کھولی جاتیں اور ہرکارے رکھے جاتے جو لوگوں کے پاس جاکر بات کرتے. (بحوالہ : Mark Wahlgren Summer: "Games: Getting, Keeping, and Using Power in Gilded Age Politics,", Joseph Grego: "A history of Parliamentary elections and electioneering in the old days" انگلستان میں بھی ووٹوں کی خریدوفروخت کی کہانیاں عام ہیں. سب سے مشہور نارتھمپٹن شائر کے 1768 کے Spendthrift election کی ہے جب تین امراء نے الیکشن جیتنے کیلئے اپنا سب کچھ لٹادینے کا تہیہ کرلیا تھا. کہاجاتا ہے ان تینوں نے اپنے امیدواروں کو جتوانے کے لیے ایک ایک لاکھ پونڈ سے زیادہ خرچ کیا۔

تازہ ترین