• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوعمری کی یادیں اَن مِٹ ہوتی ہیں۔ درویش، مذہبی جنون سے سرشار ہو کر پوری طرح فکرِ مودودی میں ڈوب کر ہر چیز کو اسلامی و غیراسلامی کی نظر سے دیکھتا اور جھانکتا۔ مولانا صاحب نے اپنے مخصوص نظریۂ حیات کے تحت مغربی تہذیب اور اُس کی اقدار پر تابڑ توڑ حملے کر رکھے ہیں سو اِس تصور، مکمل ضابطۂ حیات کے زیر اثر مغربی جمہوری نظام ایک کافرانہ نظام لگا۔ دوسری طرف مولانا مفتی محمود تھے، جن کا تعلق ایک ایسے قافلۂ حریت سے تھا جس نے انگریزوں کے خلاف پورے متحدہ ہندوستان میں آزادی کی طویل جنگ لڑی تھی، اس حوالے سے ظاہر ہے جمعیت علمائے ہند کانگریس جیسی ٹھیٹھ سیاسی، عوامی اور جمہوری پارٹی کی اتحادی تھی، سو اس کے کارکنان کی ٹریننگ عوامی و جمہوری جدوجہد کے اسلوب میں ہوئی تھی۔جب ضیاء الحق کا مارشل لا لگا تو ناچیز اس پس منظر کی فکری کشمکش سے گزر رہا تھا۔ مودودی صاحب کا انڈیلا ہوا جنون تھا کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ جہاں بظاہر جمہوریت کا نام اور مطالبہ بھی موجود تھا ۔ دوسری طرف مفتی محمود جیسا ثقہ بند جمہوری لیڈر تھا جس نے اگر سویلین آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کی تھی تو عسکری آمریت کے خلاف بھی وہ طبلِ جنگ بجا رہے تھے اور تحریکِ بحالی جمہوریت کیلئے بےتاب تھے۔ ان حالات میں مفتی صاحب کے نام ایک بھرپور خط تحریر کیا جو آج بھی محفوظ ہے کہ مفتی صاحب آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ آپ کیوں اٹھتے بیٹھتے جمہوریت کا ورد کرتے اسے اپنی عبادت بنائے ہوئے ہیں؟ آپ فرماتے ہیں جمہوریت مشرق سے آئے یا مغرب سے، دائیں سے آئے یا بائیں سے، ہم اس کے بغیر کچھ قبول نہ کریں گے۔ آپ اسلامائزیشن کا حصہ کیوں نہیں بن جاتے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب یادیں ذہنی کینوس پر مفتی محمود کے فرزند مولانا فضل الرحمٰن کی حیدرآباد میں تقریر سنتے ہوئے ابھر رہی تھیں جو کہہ رہے تھے کہ ’’ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں، ان کو مان کر قوم سے معافی مانگنی پڑے گی۔ مجھے یہ باتیں بھلی لگتی ہیں جب ہمارے ملک کی فوج کہتی ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، ہمیں اس میں نہ گھسیٹا جائے۔ ہم کب چاہتے ہیں کہ ہماری فوج سیاست میں ملوث ہو؟ لیکن کیا کریں، غلطیاں ہم سب سے ہوئی ہیں اور یہ غلطیاں ماننا پڑیں گی اور قوم سے معافی مانگنا پڑے گی۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔

بھٹو مرحوم نے کہا تھا کہ میں تاریخ میں دھاندلی کروانے والے وزیراعظم کی حیثیت سے زندہ نہیں رہنا چاہتا، خواہشیں جیسی بھی مقدس ہوں، ان سے حقائق تو مسخ نہیں کئے جا سکتے۔ آج آپ بھی خواہش کر رہے ہیں کہ ہمیں اس دلدل میں نہ گھسیٹا جائے۔ تاریخی حقائق پر آئیں تو ایسی ایسی تلخیاں اور زیادتیاں ہیں کہ الامان والحفیظ۔ آج اگر ہمارا حال بدتر ہے تو اس کی جڑیں اسی بدنما ماضی میں پیوست ہیں یہاں عوامی یا انسانی حقوق کا احترام کب روا رکھا گیا؟ کبھی اپنے مفادات کیلئےمذہبی کارڈ استعمال کیا گیا اور کبھی دھونس، جبر اور استبداد کے ذریعے عوامی آرااور تمنائوں کا خون کیا جاتا رہا۔کیا دنیا میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ کسی ملک کی 53فیصد اکثریت نے اقلیتی جبر سے خلاصی پانے کیلئے لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کئے ہوں؟ جنہیں اپنا سمجھ کر گلے لگایا ہو انہوں نے ہی کمر میں خنجر گھونپ دیا ہو؟ کتنی تلخ یادیں ہیں اس ملک میں عوامی تمنائوں کے خون کی۔ اگر اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں اور منتخب پارلیمنٹ عوامی امنگوں کا ترجمان ادارہ ہے تو کسی بھی شخص یا محکمے کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ عوامی شعور پر دھونس جمائے۔ انسانیت کی اس سے بڑی توہین ہو ہی نہیں سکتی کہ کوئی طاقت کے زور پر عوامی تمنائوں کو کچلے۔ ایک زمانہ تھا جب دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کارفرما تھا۔ طاقت کے زور سے بڑی بڑی سلطنتیں معرضِ وجود میں آتی تھیں پھر وقت کے ساتھ ساتھ انسانی شعور ترقی کرکے اس مقام پر پہنچا جہاں ذمہ دار مہذب آئینی ریاستیں وجود پذیر آتی چلی گئیں۔ بلاشبہ جبرو استبداد پر مبنی سوچوں کی حامل کئی مملکتیں دنیا کے کئی خطوں میں آج بھی براجمان ہیں لیکن انسانیت کا سفر آمریت و جہالت کے بالمقابل تہذیب و شعور اور انسانی عظمت و وقار کی جانب جاری و ساری ہے۔

ہمارا ملک ہی آخرایسا بدنصیب کیوں رہے، دھونس اور دھاندلی جس کی پہچان ہو۔ اپنے سیاسی مخالفین پر گھٹیا ذہنیت کے الزامات عائد کئے جائیں اور اندھے احتساب کے نام پر قومی اتحاد و یکجہتی کو پارہ پارہ کر دیا جائے یوں ہم دنیا میں ڈیپ اسٹیٹ کی مثال بن جائیں، اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے سابقہ کئے پر قوم سے معافی مانگتے ہوئے آئندہ کیلئے آئین، جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی پاسداری پر ایمان لے آئیں۔

تازہ ترین