خیال تازہ … شہزادعلی امریکہ کے سبکدوش ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ مواخذے سے تو بچ گئے مگر وہ سیاسی طور پر ایک غیر یقینی مستقبل کا شکار ہو گئے ہیں۔ مواخذہ کیوں کامیاب نہیں ہو پایا؟ اور اس کے آئندہ امریکی سیاست پر ممکنہ طور کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ موضوعات آج، امریکی حوالوں سے موضوع بحث ہیں _ ۔"ٹرمپ مواخذہ" نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ 6 جنوری کو صدارتی انتخابات کی سرٹیفکیشن کے دوران ایک ہجوم نے کیپٹل کی عمارت پر دھاوا بول دیا بعدازاں صدر ٹرمپ پر ہنگامہ آرائی پر اکسانے کا الزام لگایا گیا تھا _ 13 جنوری کو ایوان نمائندگان نے ان کے مواخذے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ صدر منتخب ہونے والے جوبائیڈین کو اقتدار کی منتقلی کا عمل بدستور جاری رہا۔ مواخذے کے ووٹ نے مسٹر ٹرمپ کے دوسرے سینیٹ ٹرائیل کا سٹیج سیٹ کیا جو منگل 9 فروری کو شروع ہوا۔ مگر صرف 4 دن بعد ہی ہفتہ 13 فروری کو بری کر دیا گیا، 57 ووٹ ان کی مخالفت اور 43 حمایت میں ڈالے گئے تاہم جرم ثابت کرنے کے لئے 67 ووٹوں کی ضرورت تھی یہ تعداد پوری نہیں کی جاسکی۔ ٹائم میگزین نے اسے دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہے کہ سینیٹ کے مواخذے کا ووٹ سابق صدر کو سزا سنانے اور انہیں آئندہ کے عہدے سے روکنے کے لئے ضروری دہلیز سے 10 مختصر ووٹ کی کمی کا شکار ہوگیا۔ سینیٹ ایک سو نشستوں پر مشتمل ہے اور ہر چند کہ 7 ری پبلکن اراکین نے بھی سزا کے حق میں ووٹ دیے جن میں سینیٹرز مِٹ رومنی، رچرڈ بر، بل کیسڈی، سوسن کولنز، لیزا مرکووسکی، بین سسی اور پیٹ ٹومی شامل ہیں لیکن ریپبلکنز کی اکثریت نے ایسا نہیں کیا جبکہ صدر کے مواخذے کی کامیابی کے لیے ایوان کے دو تہائی ارکان کی حمایت درکار تھی جو 67 ووٹ ہیں _ ووٹوں کی اس عددی کمی کے باعث امریکی سینیٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی مسترد کرتے ہوئے انہیں الزام سے بری کر دیا۔ اس متعلق ڈیمو کریٹ کی جو پراسیکیوشن ٹیم تھی اس کا موقف تھا کہ سابق صدر ٹرمپ نے 6 جنوری کو کیپٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کے لیے اپنے حامیوں کو اکسایا تھا جس کے بعد پی ایک بڑے اور مشتعل ہجوم نے نہ صرف کانگریس کی عمارت پر حملہ کیا، حملہ آوروں نے عمارت کی کھڑکیوں کو بھی توڑا، افسران کو یرغمال بنایا اور محافظوں سے ہاتھا پائی بھی کی اور اس واقعہ سے امریکہ کے جمہوری نظام کی جگ ہنسائی ہوئی۔یہ لوگ ریاستہائے متحدہ کے صدر جیسے عہدہ جلیلہ کے لئے طرز عمل کے معیارات اور ضابطہ اخلاق طے کرانا چاہتے تھے تاکہ جمہوریت کے نام پر ان کے ساتھ ایسا کھلواڑ دوبارہ کبھی نہ ہو پائے۔ جبکہ سابق صدر کے وکلاء کا مؤقف تھا کہ کیپٹل ہل پر حملے کی ذمہ داری ٹرمپ پر عائد نہیں کی جا سکتی دوسری جانب یہ دلائل پیش کیے گئے کہ سابق صدر کو 6 جنوری کے واقعات کے لیے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد موردِ الزام ٹھہرانا غیر قانونی فعل ہے اور یہ کہ اس مواخذے کی کارروائی فقط سیاسی مقاصد کے لیے کی جا رہی ہے۔ امریکی تاریخ کے اس متنازعہ ترین سبکدوش ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ مواخذہ انتقامی کارروائی ہے جس کی وہ شدید مذمت کرتے ہیں اور اپنے غیر جمہوری رویوں اور متشددانہ افعال پر کسی ندامت یا پشیمانی کے اظہار کے بجائے بلکہ یہ کہا کہ یہ تاریخ کی سب سے بڑی الزام تراشی ہے۔ اور وہ امریکی برتری کے حصول کے لیے مل کر اپنا ناقابل یقین سفر جاری رکھنے کے منتظر ہیں _ ٹرمپ کے ایک وکیل مائیکل وین ڈیر وین نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ پورا تماشا حزب اختلاف کی پارٹی کے ذریعہ مسٹر ٹرمپ کے خلاف دیرینہ سیاسی انتقامی جدوجہد کے سوا کچھ نہیں رہا۔اکثر مبصرین اور ماہرین نے یہ پیشگوئی کہ تھی کہ یہ فیصلہ سابق صدر ٹرمپ کے حق میں آئے گا اور ان کے خلاف مظاہرین کو تشدد پر اکسا کر کیپیٹل ہل پر حملہ کرانے کا الزام ثابت نہیں ہوسکے گا واقعی، ایسے ماہرین کی آراء درست نکلیں یہاں بعض لوگ شاید یہ سوچ رہے ہوں کہ پھر آخر اس ساری مشق کا مقصد کیا تھا کہ بالآخر جس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلنے کا پہلے سے علم ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والے لوگ ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی تحریک لا کر اپنے حصے کا کردار ادا کر گئے ہیں جیسا کہ مواخذہ کے بعد ٹائم کو اپنے پہلے انٹرویو میں تاریخ کے کم عمر مواخذہ مینیجر جو نیگیوسکا کہنا تھا کہ ان پر یہ بات واضح ہےکہ تاریخ ٹرمپ کے کنڈکٹ پر نرم خوہی سے نگاہ نہیں ڈالے گی اس لئے ہم نے اپنا پارٹ پلے کیا۔انہوں نے ٹرمپ کے وکلاء کے ان دعوؤں کی تردید کی کہ مواخذہ کا محرک سیادی نفرت کی بنیاد ہے _ان کا استدلال تھا کہ یہ ٹرائیل نفرت کی بنا پر نہیں تخلیق کیا گیا بلکہ مارٹن لوتھر کنگ کے مشہور زمانہ اقوال کو پیش کیا کہ یہ ہماری ملک کے لئے الفت کی بناء پر ہے امریکہ سے محبت کی بنیاد پر ہے اپنا ملک _ ہماری اس ملک کو قائم دائم رکھنے کی خواہش _ ہماری امریکہ کو بہترین دیکھنے کی تمنا اس کی وجہ ہے۔ یہاں یہ خیال رہے کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کا دوسرا مقدمہ تھا اوراگر ان کا مواخذہ کامیابی سے ہمکنار ہو جاتا تو امریکی سینیٹ انھیں دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنے سے روکنے کے لیے ووٹ دے سکتی تھی۔ باالفاظ دیگر مواخذہ یہ ٹرمپ کیلئے اس اعتبار سے طمانیت بخش رہا ہے کہ وہ اگر خواہشمند ہوں تو 2024 میں دوبارہ صدارتی امیدوار بن سکتے ہیں، یہ بھی واضح ہوگیا ہےکہ وہ بدستور اپنی پارٹی کے اندر حمایت رکھتے ہیں اکثر ری پلکنز ان کے ساتھ ہیں جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ان کی پارٹی کے جن سیاست دانوں نے ان کے خلاف مواخذہ کے اس پراسیس میں ووٹ دیے اب انہیں اپنی جماعت کے اندر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ بھی خیال رہے کہ امریکی تاریخ میں چار مرتبہ مواخذے کی کارروائی ہوئی ہے اور یہ ان میں سے سب سے مختصر کارروائی رہی ہے تاہم اس کے امریکی سوسائیٹی پر اثرات تا دیر رہیں گے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ مواخذہ کی تحریک اور اس دوران 6 جنوری کو لوگوں کو اکسانے والا جو مواد پیش کیا گیا اس سے ٹرمپ کی اخلاقی سبکی ہوئی ہے۔ وقتی طور پر پر تو جماعتی وابستگیوں کی کمٹمنٹ سے وہ مواخذہ سے بچ گئے مگر بتدریج جمہور پسند عوام میں کیپیٹل ہل فسادات کے واقعات اور ٹرمپ کے عمومی منفی طرز عمل، امریکہ کے عالمی وقار اور عزت کو خاک میں ملانے والے اقدامات ضرور اثرات مرتب کریں گے۔ اور یہ بات بھی ٹرمپ کے سیاسی مستقبل کو گہنا رہی ہے کہ ان کو دو بار مواخذہ کا سامنا کرنا پڑا اور پھر پچھلی بار جہاں ان کی اپنی جماعت کی طرف سے ان کی مخالفت کی صرف ایک ووٹ ڈالا گیا تھا اب یہ تعداد بڑھ گئی ہے۔دی ٹائم میگزین میں نینسی گبز کا ایک مضمون شائع ہوا ہے: In the Wake of the Capitol Riots, We Need to Restore Moral Leadership جس کے ذریعے کیپیٹل فسادات کے تناظر میں امریکہ میں اخلاقی قیادت کو بحال کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ نینسی گِبز، جو TIME میں ایک سابق مصنفہ، چیف ایڈیٹر اور ہارورڈ کینیڈی اسکول میں وزیٹنگ پروفیسر کے علاوہ بہترین فروخت ہونے والی صدارتی تاریخ پر دو کتابوں کی شریکِ مصنفہ بھی ہیں _ (The President’s Club: Inside the World’s Most Exclusive Fraternity and The Preacher and the Presidents: Billy Graham in the White House) وہ اپنے تازہ آرٹیکل میں یہ واضح کرتی ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ 6 جنوری اخلاقی تخیل کی زیادہ ناکامی ہو اور یہ ناکامی اخلاقی قیادت کے خاتمے کی عکاسی کرتی ہے جو ہم نے پچھلے سال میں نہ صرف اپنی سیاست میں دیکھی ہے بلکہ اس وباء سے لڑنے کا مشترکہ قومی مقصد کیا ہونا چاہئے تھا جس نے ہم سب کو خطرات سے دوچار کر دیا اس متعلق خاص طور پر صدر کا جو رول یعنی قائدانہ صلاحیتوں کے فقدان کا مظہر رہا، ایک سال میں کرونا وائرس سے جو نقصانات ہوئے اور لوگوں کو سیلف آیسولیشن اپنانا پڑی مگر بجائے سخاوت، فیاضی اور ایک دوسرے کی دیکھ بھال یعنی کئیرنگ کے رویوں کا اظہار کیا جاتا جن سے کہ تناؤ کم ہوسکتا ہے، افسردگی میں کمی آسکتی ہے، خود قابل قدر ہونے کا احساس بحال ہوسکتا ہے اور جسمانی صحت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے لیکن بہت سارے رہنماؤں نے وحدت اور حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اپنی سیاسی برتری کے لئے وبائی مرض کا استعمال کیا۔ پھر سخت موسم خزاں کے انتخابات کے بعد، شکست کی معمولی مایوسی کا مقابلہ کرنے کے بجائے لاکھوں لوگوں نے قائدین سے سنا کہ ان کا ووٹ چوری ہوگیا ہے، ان کی آواز خاموش کر دی گئی ہے اس بار صدر اور ان کے اہل کاروں نے اپنے سب سے زیادہ عقیدت مند پیروکاروں کو اس مقام تک پہنچادیا کہ کسی بھی قیمت پر، کسی بھی طرح سے اقتدار میں رہنے کے اپنے حق کا دفاع کیا جائے انہوں نے ایک خوبصورت حقیقت کا ادراک کرانے کی سعی کی ہے کہ اخلاقی تصورات کی کمی قومی سلامتی کے لئے خطرہ بنی رہے گی اور یہ کہ اخلاقی قیادت کا فقدان ایسے ہی ایک لمحے میں جیسا کہ اس وقت ہے بذات خود جمہوریت کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔