• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بس ذرا آپ کو یہ بتانا تھا کہ میں دوبارہ خوش خوراکی کی طرف آنے والا ہوں۔ بچپن کی خوراکیں ابھی تک کام آ رہی تھیں۔ بہرحال بات یہ ہے کہ میں ڈرائی فروٹ کا بچپن ہی سے شوقین رہا ہوں۔ کیسا کیسا اعلیٰ درجے کا ڈرائی فروٹ ہوتا تھا۔ مثلاً ’’ملوک‘‘ مگر مجھے لگتا ہے کہ اسے ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف نام دیے گئے ہوں گے۔ کیا خوبصورت شکل، صورت اور جسامت کا مالک ہے۔ کالا سیاہ رنگ، مکھی جتنی جسامت اور شباہت اب یاد نہیں، لذت میں بھی ممکن ہے ایک جیسی ہوں۔ آج خریدنے جائوں گا، اگر اس پر مکھیاں بیٹھی ہوئی نظر آئیں تو محدب شیشے سے مکھیوں کو پہچان کر انہیں الگ کر دوں گا۔ اور ہاں اس میں فروٹ بقدر اشکِ بلبل، مگر بیج کافی بڑا ہوتا تھا، مبالغہ آرائی کی معذرت، لذت میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا مگر میں آج اپنی جسمانی کمزوری کی وجہ سے خریدنے نہیں جا سکا، ایک دوست کو بھیجا، اسے یہ گوہر نایاب کہیں سے دستیاب نہیں ہو سکا۔

بچپن میں غذائیت سے بھرپور اور بھی بہت سے پھل اور مشروبات ہوتے تھے۔ مشروبات میں کانجی کا شربت سرفہرست تھا جو کالے رنگ کی گاجروں سے تیار ہوتا تھا اور جامنی رنگ کا ہوتا تھا۔ سڑکوں پر ریڑھیوں میں دکانداروں نے اسے مٹی کے مٹکے میں بھرا ہوتا اور مٹکے کو سرخ رنگ کے کپڑے سے لپیٹا گیا ہوتا تھا۔ اس کی کڑواہٹ کا مزا کسی رند سے پوچھیں۔ گرمی کے ستائے ہوئے راہگیر ادھر سے گزرتے تو ’’ڈرنک‘‘ ہو کر جاتے۔ ان دنوں بھی میکلوڈ روڈ کی ایک ریڑھی سے یہ نایاب ہوتا مشروب دستیاب ہے۔ پھلوں میں ’’گرنیڈے‘‘ بھی ہوتے تھے، مگر میں بدقسمتی سے چکھنے سے محروم رہا۔ پھر ایک پھل خربوزے کی بگڑی ہوئی شکل میں آج بھی عوام الناس کی پھلوں سے رغبت کا سامان مہیا کرتا ہے۔ اسے ’’پھُٹاں‘‘ کہتے تھے۔ آپ نے پنجابی کا روزمرہ ’’چل پھٹاں کھا‘‘ یعنی دفع ہو تو سنا ہی ہو گا۔ یہ پھل خربوزوں کا موسم ختم ہونے کے بعد جانوروں کو ڈال دیا جاتا تھا یا مجھ ایسے کفایت شعار اس کے فوائد کی بنا پر شوق سے کھاتے تھے۔ یہ رج کے پھیکا ہوتا ہے اور اس پر شکر ڈال کر کھایا جاتا تھا اور کھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچی کھجوریں جنہیں ’’ڈوکے‘‘ کہا جاتا ہے، کیا بات ہے ان کی لذت ٹھیک ٹھاک مگر خشک ہونے کی وجہ سے اکثر گلے کو بھی اتنا خشک کر دیتے ہیں کہ نگلنا مشکل ہو جائے۔

چلیں یہ تو وہ نعمتیں ہوئیں ﷲ نے امراء کو جن سے محروم رکھا، تاہم اب بھی کچھ ایسی عوامی خوراک موجود ہے اگرچہ اب انہیں بھی مجھ ایسے دھرتی کے بیٹوں سے محروم رکھنے کی حتیٰ المقدور کوشش کی جا رہی ہے۔ مثلاً سنگاڑے ہیں۔ باہر سے کالے اندر سے گورے، سڑکوں پر بھنے ہوئے ملتے ہیں۔ نہ میٹھے نہ پھیکے، نہ کٹھے، مگر مزیدار! سبحان ﷲ بیر ہیں مگر سیب کی قیمت پر فروخت کئے جا رہے ہیں۔ گچک، چنے کی دال میں گڑ پگھلا کر بنائی جاتی ہے۔ شہتوت پہلے ہم کسی بھی جگہ اگے پودے سے بیروں ہی کی طرح توڑ کر کھا لیا کرتے تھے اب آپ ہاتھ تو لگا کر دیکھیں! سبحان ﷲ گنے کا رس! جسے پنجابی میں ’’رو‘‘ کہتے ہیں، گنے سے تازہ تازہ کشید کیا جاتا ہے اور ہیپاٹائٹس کے مریض اور صحت مند گاہک ایک ہی گلاس میں استعمال کرکے غٹاغٹ پیتے ہیں اور ہاں شکر قندی تو میں بھول ہی چلا تھا، مگر لگتا ہے اس کی بڑھتی ہوئی قیمت بھی اس کے عشاق کو ہجر کے گیت گانے پر مجبور نہ کر دے۔

میں نے یہ سارا کالم محض چلغوزوں، کاجو، پستہ، بادام اور اخروٹ وغیرہ کا یہ غرور ختم کرنے کے لئے لکھا ہےکہ ’’ ارے میاں تم کیا بیچتے ہو؟‘‘ پھل اور ڈرائی فروٹ تو وہ تھے جو میری عمر کے لوگ کھاتے رہے ہیں اور ہاں ثابت اخروٹ تو ہم کھیلنے کے لئے لیا کرتے تھے۔ باقی رہے یہ سیب، آم، خربوزے، انگور، کینو اور اس طرح کے دوسرے پھل، میں بازار سے گزرتے ہوئے ان پر ایک نظرِ حقارت ڈال کر آگے نکل جاتا ہوں۔ ہونہہ!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین