لاہور (آصف محمود) سابق سنیئر سفارتکار ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ جوبائیڈن کی افغان پالیسی پاک امریکہ تعلقات کی سمت مقرر کریگی،سی این این صحافی فریدزکریا نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ چین اور یورپی یونین پوری دنیا کو فری ویکسین دیں، لاہور لٹریری فیسٹیول کے چوتھے اور آخری روز،فرانس اور جرمنی کے سفیروں،صدر پنجاب بنک ظفر مسعود ، بی گل ،ایلف شفق ڈاکٹر عذرا رضا، ، ہانس الرچ اوبرسٹ ،مصنف امیتوگھوش ، منیزہ شمسی ، سٹیون ڈیل اور لیسا سمیت دیگر مقررین نے بھی اظہار خیال کیا،سی این این کے مایہ ناز صحافی فریدزکریا کی کتاب وباء کے بعد دنیا کے لیے دس سبق پر پروگرام کے ماڈریٹر رضی احمد کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے فریدزکریا نے کہا کہ چین اور امریکہ کے درمیان جاری تنائو میں پاکستان ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ اس کے دونوں ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ امریکہ کو چین جیسے خطرات لاحق نہیں اور نہ ہی اس کی جیو سٹرٹیجک پوزیشن چین جیسی ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ چین کی طرح امریکہ کو طاقتور ہمسایوں کا سامنا نہیں۔ چین سخت جیو سٹرٹیجک پوزیشن میں پنپ رہا ہے کیونکہ اس کے فلپائن، آسٹریلیا، بھارت اور ویت نام سمیت 16پڑوسی ملکوں کے ساتھ ایشوز چل رہےہیں۔ فرید زکریا نے کہا کہ صدر شی پنگ کا چین اب پھیلنا چاہتا ہے۔ چین اور امریکہ کیلئے معیشت میں Win Win صورتحال ہے۔ سی این این کے مایہ ناز اینکر فرید زکریا نے کہا کہ چین نے گوگل، ایمزون اور فیس بک کو سیکورٹی رسک سمجھتے ہوئے اپنے ملک میں پنپنے نہیں دیا۔ چین نے بھارت، آسٹریلیا اور دیگر حریفوں نے کہا ہے کہ معاشی ترقی ضرور کرو لیکن اس کے لیے خطرہ بننے کی کوشش نہ کرنا۔ فرید زکریا نے کہا کہ کورونا وباء نے دنیا کو سکھایا ہے کہ غربت ختم کرنے کے لئے غریب کو پیسہ دینا ہو گا اور اس حوالے سے نہ صرف حکومتیں غریب کی مدد کر سکتی ہیں بلکہ پوری قوم کو معاشی طور پر فائدے پہنچا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں ایک بہت بڑی رقم زرعی سبسڈی کے طور پر دی جاتی ہے۔ غیر ضروری سبسڈیز ختم کرکے اس پیسے سے غریبوں کی مدد کرنی چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں فرید زکریا نے کہا کہ تجارت معیشت کو مضبوط کرتی ہے، نوکریاں پیدا ہوتی ہیں لیکن اس میں جیتنے اور ہارنے والے دونوں ہوتے ہیں ہمیں ہارنے والوں کی بھرپور مدد کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وباء کے بعد کے حالات سے نمٹنے کے لئے بڑا عالمی تعاون چاہئے۔ اقوام متحدہ چین اور یورپی یونین کو کہنا چاہئے کہ وہ پوری دنیا کو فری ویکسین فراہم کریں گےاور کوئی پیسہ نہیں لیں گے۔ فرید زکریا نے کہا کہ کینیڈا کے پاس اپنی آبادی سے 20گنا زیادہ ویکسین موجود ہے۔ ویکسین کے لیے فنڈز پہلے ہی مختص کئے جا چکے ہیں صرف لیڈر شپ، وژن اور آرگنائزیشن کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر اقوام متحدہ، امریکہ اور برطانیہ میں پاکستان کی سابق سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہاکہ ٹرمپ کی پالیسیوں سے (بونی لیٹرل ازم) یک طرفہ نظام بڑھا اور کثیر الجہتی نظام کو نقصان پہنچا۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا کہ مودی کی طرف سے کشمیر میں کئے گئے اقدامات میں یک طرفہ نظام دیکھا جا سکتا ہے۔ ملیحہ لودھی نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ملکوں میں کلاسک لبرل جمہوریت نہیں۔ سابق سنیئر سفارتکار ملیحہ لودھی نے کہاکہ پاکستان نے چین کو اب اپنی سٹرٹیجک چوائس بنا لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے امریکی صدر بائیڈن کو چین کے حوالے سے ایک میچور رسپانس دینا ہو گا۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ اوپر نیچے ہوتے رہے ہیں لیکن پھر بھی پاکستان امریکہ سے مستحکم تعلقات چاہے گا۔ ملیحہ لودھی نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کی اگر امریکہ افغان امن عمل کی حمایت جاری رکھتا ہے جس میں پیش رفت ہوتی ہے تب ہی دونوں ملکوں میں تعاون مضبوط ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ افغان پالیسی ہی مستقبل کے پاک امریکہ تعلقات کی سمت بتائے گی۔لاہور لٹریری فیسٹیول میں پاکستان ثقافت پر پروگرام میں جرمنی کے معروف انتھروپالوجسٹ ڈاکٹر شف لشنر کے آغاز سے قبل جرمن سفیر برن ہارڈ شینگ نے کہا کہ لاہور لٹریری فیسٹیول کلچرل کیلنڈر پر ایک بڑا تہوار ہے ۔ ہم شاعری اور ادب کے فروغ کے لیے ہمیشہ سپورٹ کرتے رہے ہیں۔ جرمن سفیر نے کہا کہ ڈاکٹر شف لشنر بھی جرمنی کی اسی یونیورسٹی سے پڑھے جہاں سے ڈاکٹر علامہ اقبال نے تعلیم حاصل کی۔ جرمن سفیر نے کہا کہ رواں سال اکتوبر میں جرمنی اور پاکستان کے سفارتی و ثقافتی تعلقات کو قائم ہوئے 70سال مکمل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر میری این شمل اور روتھ فائو سمیت دیگر کئی شخصیات نے پاک جرمن ادبی و ثقافتی تعلقات میں اہم کردار ادا کیا۔ جرمن سفیر نے کہا کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی طرف سے اقلیتوں کیلئے کہے گئے الفاظ پاکستانی پولٹیکل سسٹم کیلئے ایک امتحان ہیں۔ جرمن انتھرو پالوجسٹ ڈاکٹر شف لشنر نے کہاکہ دوسروں کے مذاہب اور ثقافت کو دیکھنا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ پروگرام کے ماڈریٹر سکندر بزنجو کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان میں خاص طور پر 9/11کے بعد سے سکیورٹی خدشات بڑھ گئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں ہندو ازم پر لوگوں نے زیادہ سٹڈی کی اور معلومات حاصل کیں۔ ڈاکٹر لف کشنر نے کہا کہ بلوچستان میں واقع نانی مندر ہندوستانی ریاستوں گجرات، بنگال اور راجستھان کے لوگوں کے لئے انتہائی اہم جگہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ راجستھان میں دیویوں کے پجاری انسان کو بھی دیوتا کا تحفہ سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر لف کشنر نے کہا کہ بہت سے لوگ مذاہب سے منقطع ہوگئے ہیں۔ جرمن اینتھرویالوجسٹ نے کہا کہ پاکستان مذہب کے لحاظ سے ایک متنوع ملک ہے۔ یہ صرف ایک مذہب کا گھر نہیں یہاں دیگر مذاہب بھی اپنے ریت و رواج کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بیشمار چیزیں انتہائی دلچسپ ہیں۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کا ایک حصہ بنک آف پنجاب کے صدر اور 22مئی 2020ء کو کراچی میں پی آئی اے جہاز حادثے میں بچنے والے دو افراد میں سے ایک ظفر مسعود کی آپ بیتی پر مشتمل تھا۔ سی این این کی سابق صحافی صائمہ محسن سے بات کرتے ہوئے ظفر مسعود نے کہا کہ میرا اس حادثے کے ساتھ ایک عجیب رشتہ ہے۔ آج بھی اس حادثے میں شہید ہونے والوں کی بات کرتے ہوئے جذباتی ہو جاتا ہوں۔ صائمہ محسن نے کہا کہ صحافتی زندگی میں انہوں نے کئی اہم اسائنمنٹس کیں لیکن کبھی فضائی حادثے میں بچ جانے والے کا انٹرویو نہیں کیا۔ حادثے کے روز (22مئی) کا بتاتے ہوئے ظفر مسعود نے کہا کہ اس دن ہر چیز جلدی جلدی ہو رہی تھی۔ میں عام دنوں کی نسبت جلدی اٹھا اور جلدی ایئرپورٹ پہنچا۔ پی آئی اے کی فلائٹ پی کے 8303نے بھی وقت سے پہلے اڑان بھری۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کچھ ہونے والا ہے اور اس کے لئے سب کچھ جلد ہو رہا ہے۔ حادثے کی تفصیل بتاتے ہوئے ظفر مسعود نے کہا کہ لینڈنگ سے 18منٹ قبل ایک جھٹکا لگا اور کاک پٹ کا دروازہ کھل گیا۔ میں چونکہ کاک پٹ کے سامنے والی سیٹ پر تھا تو کیا دیکھا کہ جہاز غوطے کھا رہا ہے۔ ظفر مسعود نے کہا کہ جہاز گرنے سے قبل وہ بے ہوش ہوگئے جب ہوش آیا تو لوگ انہیں ریسکیو کر رہے تھے جو بہت ہی اچھے تھے۔ پنجاب بنک کے صدر نے کہا کہ اس حادثے کے بعد میرے لوگوں کے متعلق نظریات ہی بدل گئے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کے متعلق رائے قائم کرنے سے پہلے بہت سوچنا چاہئے کیونکہ ماسوائے چند کے لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں۔ ظفر مسعود نے کہا کہ سب سے پہلے انہیں علاج کے لئے ملٹری ہسپتال لے جایا گیا جہاں ہوش میں آتے ہی پہلا سوال پوچھا کہ جہاز اور مسافروں کا کیا ہوا۔ ظفر مسعود نے کہا کہ اتنے بڑے حادثے سے گزرنے کے باوجود میڈیا رپورٹرز کی طرف سے ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا۔ میری فیملی کو صحافیوں نے بہت تنگ کیا۔ آئی سی یو میں تھا تو ٹی وی کا ایک صحافی اندر آنے میں کامیاب ہوگیا اور میرے منہ کے آگے مائیک رکھ کر بولا کہ کیا ہوا تھا۔ پنجاب بنک کے صدر نے کہا کہ ان باتوں سے انتہائی تکلیف ہوئی۔ ایسے سانحے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ 2ماہ بستر پر گزارنے کے بعد حادثے کی جگہ گیا اور ریسکیو کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔ یہ بڑا مشکل فیصلہ تھا لیکن اس پر فخر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مسافروں کی سیفٹی اور سہولیات کے لئے ظفر مسعود فائونڈیشن بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جو ہر قسم کے مسافروں خواہ وہ جہاز، ٹرین یا کسی بھی ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہیں، کی سیفٹی اور سہولیات کے لئے کام کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ایئرپورٹس پر طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ ظفر مسعود نے کہا کہ بین الاقوامی مصنفوں کی طرف سے ساتھی مصنف کے طور پر اس حادثے پر کتاب لکھنے کی آفرز ہوئیں لیکن ایسا نہیں کیا۔ ظفر مسعود نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ تمام لوگ ادھار لی گئی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کے ایک اور پروگرام The Past is Another Country معروف مصنف احمد رشید نے فراسیسی مصنف امین مالوف سے ان کی ادبی زندگی کے بارے میں سوالات کئے۔ پاکستان میں فرانس کے سفیر مارک بیریٹی نے امین مالوف کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک انتہائی معتبر فراسیسی مصنف ہیں اور بڑے موثر طریقے سے چیزوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ امین مالوف 1949ء میں لبنان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے شعبہ صحافت اختیار کیا اور انقلاب ایران پر رپورٹنگ کی۔ امین مالوف 1976ء میں اپنی فیملی کے ساتھ فرانس آ کر آباد ہوگئے۔ 1984ء سے لے کر اب تک 40ناول اور مضامین لکھ چکے ہیں جن کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ امین مالوف نے نان فکشن کتابیں بھی لکھیں اور عرب دنیا میں بہت موثر سمجھے جاتے ہیں۔ انہیں 1993ء میں فرانس کا اعلیٰ ادبی ایوارڈ بھی ملا۔ فرانسیسی سفیر نے کہا کہ امین مالوف کلچر کے ذریعے لوگوں کو قریب لے کر آئے۔ مصنف احمد رشید نے پروگرام میں امین مالوف سے پوچھا کہ وہ ایک صحافی تھے کس چیز نے انہیں لکھاری بنایا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ صحافت کی دنیا سے لٹریچر کی دنیا میں جا رہا ہوں۔ میرا مائنڈ سیٹ تھا کہ جو میرے اردگرد ہو رہا ہے اس کو دیکھوں اور حالات نے مجبور کیا کہ اسے ناول کی شکل دوں۔ امین مالوف نے کہا کہ 1976ء میں لبنان میں ہونے والی خانہ جنگی میں ملک چھوڑا لیکن میرے نزدیک یہ سب ایک سال قبل 1975ء میں ہی ٹوٹ چکا تھا۔ میں ایسی چیزوں کا عینی شاہد ہوں جنہوں نے میرے ملک لبنان کو بدل کر رکھ دیا۔ میں جس طرح کام کرتا تھا وہ ہر چیز تبدیل ہوگئی۔ امین مالوف نے کہا کہ لبنان چھوڑ کر پیرس آیا تو دو دنیائوں کے درمیان خلا دیکھا۔ ہر ایک کے وژن میں فرق ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی ایک کا وژن غلط ہوتا ہے۔ امین مالوف نے کہا کہ عمر خیام کی رباعیات پڑھیں تو سوچا ایک دن اس شخصیت پر لکھوں گا۔ 1979ء میں بطور صحافی ایران گیا۔ اس جہاز میں آیت اللہ خمینی کو لے جایا گیا۔ میرے علاوہ 200صحافی تھے۔ اس وقت ایران کی ہسٹری جاننے کا شوق پیدا ہوا۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کے آخری روز مغل بادشاہوں بابر، اکبر اور جہانگیر کے ادوار اور مغلیہ تاریخ پر معروف تاریخ دانوں سٹیون ڈیل اور لیسا جو کہ حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب بادشاہ جہانگیر کے مصنف بھی ہیں، نے ماڈریٹر مہرین چیڈا رضوی کے خلیلی کولیکشن آف اسلامک آرٹ پر روشنی ڈالی۔ ایک اور پروگرام ہائی ڈرامہ میں مصنف امیتوگھوش نے منیزہ شمسی سے گفتگو کی۔ سندھی ڈرامہ نگار کی پاکستانی ڈرامہ نگاری پر بی گل سے گفتگو بھی انتہائی اہم تھی۔ بی گل سکرپٹ رائٹر ہیں جنہوں نے ڈرامہ سیریل تلخیاں میں بھارتی مصنف ارون دتی رائے کی کتاب چھوٹی چیزوں کے خدا کو ڈرامائی شکل دی ہے۔ ایلف شفق جو بیسٹ سیلر کتاب (The 40 Rules of Love) کی مصنفہ بھی ہیں، سے صحافی اور مصنف ماہا خان فلپس نے اظہار خیال کیا۔ اسی طرح پاکستانی امریکن اونکالوجسٹ ڈاکٹر عذرا رضا سے اقوام متحدہ کے سفارت کار قاضی شوکت فرید نے ان کی کینسر ریسرچ جو انہوں نے شاعری اور ادب سے متاثر ہو کر کی، بارے بات چیت کی۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کا آخری پروگرام آرٹسٹک ڈائریکٹر اور آرٹ ہسٹورین ہانس الرچ اوبرسٹ تھا جنہوں نے دبئی میں موجود کیوریٹر زین مسعود کے ساتھ اظہار خیال کیا۔ چار روزہ لاہور لٹریری فیسٹیول 18فروری سے لے کر 21فروری تک جاری رہا۔ جس میں شمیم ضفی، سیدہ حمید، ناصر عباس نیئر، عثمان حنیف، سروپ اعجاز، صبا کریم خان، وجیہہ حیدر، احمد رشید، کیتھی گینن، زاہد حسین، کلیئر چمبرز، مرینہ ویلر، نیلوفر بختیار، جھمپا لاہیری، رضیہ، سلیمہ ہاشمی، کویتا سنگھ، وینڈی ڈونیگر، عدیلہ سلمان، روسا ماریا فیلو، نازش عطاء اللہ، شاہد حامد، ایف ایس اعجاز الدین، یاسمین حمید، مہر افشاں فاروقی، فرخ ڈھونڈی، باری میاں، احمد میاں، نسرین رحمان، کورٹیا نیولینڈ، وردہ ڈار، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر فاطمہ حسن، ناصر عباس نیئر، سیچٹین فالکس، حشام ستار کاملہ شمسی، افشاں شفیع، لیونا یوسف، حسن طاہر لطیف، عثمان ٹیک ملک، نور نسرین ابراہیم، صدیق عالم، کم گھٹاس، خالد، ڈیانا ڈارک، تنویر حسن، مشال ہچنسن، جوہانا مک کالمنٹ، ماریک لوکس، ریحان عمر، رچرڈ اووینڈن، شرابانی باسو، عاصمہ رشید خان، سنیتا کوہلی، عائشہ جلال، سوگاتا بوس، پراگ کھنہ، ین مارٹل اور فصیح احمد جیسے عالمی شہرت یافتہ ادیب، شاعروں، صحافیوں، تاریخ دانوں اور مصنفوں نے حصہ لیا۔