• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف و حکایت … ظفر تنویر
بوائے جارج ایک معروف برطانوی گلوکار ہیں، انہوں نے بہت سے گیت گائے اور ان کے گائے ہوئے بعض گیتوں کو غیر معمولی شہرت ملی، اس خوبرو نوجوان نے ستمبر 1983ء میں ایک ایسا گیت گایا جس نے راتوں رات برطانیہ میں اس گیت کو پہلے نمبر پر لاکھڑا کیا اور ہر ریڈیو، پب اور کلب میں صرف یہی گیت سنائے جانے لگا، برطانیہ سے گیت کی شہرت امریکہ اور کینیڈا سے ہوتی ہوئی دنیا میں پھیلی تو گویا سبھی اس کے گیت کی گرفت میں آگئے ’’گرگٹ‘‘ کے بدلتے رنگوں کے پس منظر میں جارج نے لوگوں سے ان کے تضادات کے حوالے سے کچھ سوال کئے ہیں، اسے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ لوگ کس طرح گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں اور اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کے متضاد گفتگو شروع کردیتے ہیں۔ جارج اپنے ہی لکھے ہوئے اس گیت میں یہ بھی کہتا ہے کہ ویسے تو تمہاری آنکھوں سے ہمارے لئے پیار جھلکتا ہے لیکن تم آتے ہو اور پھر چلے جاتے ہو یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم سزا یافتہ نہیں لیکن پھر بھی ہمیں متضاد دعوئوں میں الجھاتے ہو، 38 برس قبل بوائے جارج کا گایا ہوا یہ گیت اس وقت سے مسلسل میرے ذہن پر ایک ہتھوڑے کی طرح پڑ رہا ہے جب سے میں نے آزاد کشمیر کے ایک بزرگ سیاستدان اور آزاد کشمیر کے سابق صدر اور وزیراعظم کا وہ انٹرویو سنا ہے جس میں وہ ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہونے کی کہانی سنا رہے ہیں۔ انہوں نے چھوڑے جانے والی جماعت کے مرکزی قائد پر طرح طرح کے الزامات لگائے اور حتیٰ کہ یہ بھی کہہ گئے کہ ان کی جماعت کے قائد نے ایک موقع پر ان کی گاڑی بھی ہتھیا لی تھی یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے کہ وہ آج جس جماعت میں شامل ہو رہے ہیں جب انہوں نے کچھ برس قبل اس جماعت کو چھوڑا تھا تو انہوں نے اس وقت جماعت کے صدر پر بھی اسی طرح کے الزامات لگائے تھے اور یہ تک کہا تھا کہ وہ رشوت بھی لیتے رہے ہیں، میں زندگی میں گرگٹ کو تو رنگ بدلتے نہیں دیکھ سکا اتفاق ہی نہیں ہو الیکن اقتدار کیلئے کرسی کیلئے اور اپنے حاشیہ برداروں کے مفادات کیلئے سیاستدانوں کو کئی بار رنگ بدلتے دیکھا ہے۔ میں ذاتی طور پر ان بزرگ سیاستدان کو 1971ء سے اس وقت سے جانتا ہوں جب آزاد کشمیر کی پہلی منتخب حکومت میں انہیں تین رکنی کابینہ میں وزیر خوراک بنایا گیا تھا ،یہ پہلے سیاستدان نہیں جنہوں نے اس طرح گرگٹ کی طرح رنگ بدلا آزاد کشمیر کیا اور پاکستان کیا، ایسے سیاستدان تھوک کے بھائو دستیاب ہیں، دور کیوں جائیں وفاقی حکومت کی کابینہ پر ایک نظر ڈالئے آپ کو ایسے چہرے اکثریت میں نظر آئیں گے جو کل تک دوسروں کا پانی بھرتے آئے ہیں اگر ایک لمحہ کیلئے یہ مان بھی لیا جائے کہ سیاسی سوچ اور نظریہ کبھی بھی تبدیل ہوسکتا ہے لیکن اپنی کہی ہوئی باتوں پر شرمسار ہونے کی بجائے اپنی آنکھوں میں پیار بھر کر چرب زبانی سے لوگوں سے کچھ بھی منوالیں یہ کس طرح ہوتا ہے ایک واقعہ سنئے، ضلع میرپور کے ایک اسٹیٹ کونسلر (آزاد کشمیر اسمبلی سے قبل وہاں اسٹیٹ کونسل ہوتی تھی) نے جب اپنی بڑھتی ہوئی عمر کے باعث ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا تو ان کے صاحبزادے نے اسی حلقہ سے اسمبلی کے امیدوار کے طور پر خود کو پیش کیا، شاید عام حالات میں صاحبزادے کا انتخاب کچھ اتنا کھٹن نہ ہوتا لیکن مشکل یہ پڑی کہ ان کے یہ صاحبزادے علاقہ میں کچھ زیادہ اچھی شہرت نہیں رکھتے تھے اور اس کا علم ان کے والد محترم کو بھی تھا چنانچہ جب وہ کسی جگہ بیٹے کیلئے ووٹ مانگنے جاتے اور وہاں بیٹے کی شہرت ان سے پہلے پہنچ چکی ہوتی تو وہ بجائے اس پر کہ شرمندگی ظاہر کریں الٹا اپنے میزبان کو کہتے کہ ’’میں بھی تو یہ کہتا ہوں کہ ایسے شخص کو ہمارے درمیان نہیں رہنا چاہئے ہم عزت دار لوگ ہیں اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ ووٹ اس کےمنہ پر ماریں اور اسے یہاں سے نکال کر مظفرآباد بھیج دیں‘‘ یہ چرب زبانی ہے یا گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا یہ تو میں نہیں جانتا لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ یہ ایک ایسی نحوست ہے جس کی پرچھائیاں آزاد کشمیر کے بہت سے انتخابی حلقوں میں دیکھی جاسکتی ہیں لیکن نحوست کو تحفظ دینے اور اس کی ترویج میں لگے لوگوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اپنے کرموں کی سزا بھی خود ہی بھگتنا پڑتی ہے عام لوگ تو سیدھے سادھے ہوتے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ آپ کے تمام رنگ بھی ان کے خوابوں کی طرح سچے ہوں گے، آج نہیں تو کل جو ضرور سچے ہوں گے۔
تازہ ترین