آج نعیم ہاشمی کی چالیسویں برسی ہے۔ خطہ پنجاب کی مٹی سے جنم لینے والے نامور اداکار، ہدایتکار، نغمہ نگار اورفلمساز سید نعیم شاہ ہاشمی 28مئی 1925میں انارکلی لاہور کے قریب ایک گلی پیسہ اخبار میں پیدا ہوئے۔ آپ مولانا ابوالکلام آزاد اور سید عطا اللہ شاہ بخاری جیسی بلند پایہ شخصیات سے بڑے متاثر تھے۔ سیاست کے علاوہ ادب اور شاعری سے بھی گہرا لگائو تھا۔ ’’نعیم نعمان‘‘ کے ادبی نام سے آپ کا کلام ملک کے مختلف ادبی جرائد میں شائع ہوتا رہتا تھا۔1945میں آپ لاہور سے فلم نگر بمبئی چلے گئے۔ جہاں نامور شاعر سیف الدین سیف کے توسط سے فلمی دنیا میں داخل ہونے کا موقع ملا۔ 1947میں آپ کو ایک فلم’’دیوانے دو‘‘ میں ہیرو کا کردار ملا۔ اس فلم میں آپ کی ہیروئن اریکاتھی(جو بعدازاں رخشی کے فلمی نام سے پاکستانی فلموں کی مقبول ترین ڈانسر بنی)
اس فلم کی آئوٹ ڈور شوٹنگ کے لئے آپ اپنی فلم کی ٹیم کے ہمراہ ڈیرہ دون پہنچے ہی تھے کہ ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے۔ ڈیرہ دون ہی میں آپ کو اپنی والدہ کی شدید بیماری کی اطلاع ملی، چنانچہ فلمساز کے روکنے کی کوششوں کے باوجود لاہور روانہ ہوگئے۔ لاہور پہنچنےکے کچھ ہی دنوں بعد ملک تقسیم ہوگیا۔ ہندو فلمساز ، ہدایتکار اور ٹیکنیشنز لاہور سے بمبئی چلے گئے تھے۔ یہ 1947کا پرآشوب دور تھا۔ پاکستانی فلم انڈسٹری انتہائی کسمپرسی کے عالم میں تھی۔ آپ نے اپنے دوستوں ایم اسمٰعیل ، علائوالدین ، رفیع انور اور بیگم پروین کے اشتراک سے ایک تھیٹر یکل کمپنی قائم کی۔ 1948کے اوائل میں لاہور کے اوڈین سینما کے سٹیج پر ایک ڈرامہ’’شادی‘‘ کے نام سے پیش کیاجو بے حد کامیاب ہوا ،تاہم مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ تھیٹر زیادہ عرصہ چل نہ سکا اور بند ہوگیا ۔ 1953میں فلمساز و ہدایتکار رفیق انور نے آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں سے متاثر ہو کر اپنی فلم ’’الزام‘‘ میں ایک اہم کردار دیا۔ اس فلم میں آپ کے تین گیت بھی شامل تھے۔ یہ گیت پکھراج پپو اور عنایت بھٹی نے گائے تھے۔اس فلم کی تکمیل کے بعد آپ فلم ساز و ہدایتکار نذیر کی ٹیم میں شامل ہوگئے۔1956میں آپ نے نگار پکچرز کی فلم’’سرفروش میں صبیحہ، مینا اور سنتوش کمار اور ایس کے پکچرز کی فلم’’چھوٹی بیگم‘‘ میں صبیحہ اور سدھیر کے ساتھ کام کیا۔1957میں ہدایتکاری کے میدان میں قدم رکھا اور یونائٹیڈ فلمز کے بینر تلے ایک فلم’’نگار‘‘ کی ہدایات دیں۔ اس فلم کے موسیقار تصدق حسین تھے۔ اداکاروں میں شاہینہ، امان، ایم اسمعیل اور نعیم ہاشمی نمایاں تھے۔ یہ فلم19جولائی 1957میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے تمام گیت بھی آپ ہی نے لکھے تھے۔
1957ہی میں آپ نے پاکیزہ پروڈکشنز کی تاریخی فلم’’چنگیز خان‘‘ میں نیلو اور کامران کے ساتھ ایک اہم کردار ادا کیا۔یہ فلم 24جنوری1958میں ریلیز ہوئی لیکن ناکام ہوگئی ،تاہم اس فلم میں طفیل ہوشیار پوری کا لکھا ہوا یہ گیت اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ پاک فوج نے اس گیت کو اپنا قومی ترانہ بنالیا جو آج بھی روز اوّل کی طرح مقبول ہے۔ اس ترانے کو عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں نے اپنی آواز میں ریکارڈ کرایا تھا۔ نغمہ تھا
اللہ اکبر....اللہ اکبر
اللہ کی رحمت کا سایہ توحید کا پرچم لہرایا
اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا
اللہ اکبر....اللہ اکبر
اس کے بعد آپ نے مختلف اداروں کی فلموں کمال پکچرز کی فلم گل فروش میں نیر سلطانہ اور کمال، گمراہ میں کافرہ اوراعجاز ، فردوس فلمز کی فلم ایاز میں نیئر سلطانہ ا ور حبیب ،انیس پکچرز کی فلم شمع میں سورن لتا اور نذیر، لبرٹی فلمز کی فلم نور اسلام میں سورن لتا اور درپن ، جی اے فلمز کی فلم دروزاہ میں نیلو اور یوسف خان، ایورنیو پکچرز کی فلموں عذرا میں نیلو اور اعجاز، زرینہ میں حسنہ اور یوسف خان ، سنے ماسٹرز کی فلم نتیجہ میں شمیم آرا اور یوسف خان، فلم انٹر کانٹینٹل کی فلم صبح کہیں شام کہیں میں نیلو اور کمال، درپن پروڈکشنز کی فلم ساتھی میں نیلو اور درپن، فلمز حیات کی فلم الٰہ دین کا بیٹا میں نیلو اور رتن کمار انیس پکچرز کی فلم عظمت ا سلام میں سورن لتا اور حبیب ایمن فلمز کی فلم مادر وطن میں دیبا اور محمد علی اور رنگیلا کی فلم دیا اور طوفان میں رانی اور اعجازکے ساتھ مختلف نوعیت کے کردار ادا کئے۔ آپ نے زیادہ تر نذیر صاحب کی پروڈکشن میں کام کیا۔ فلموں کے علاوہ آپ نے ٹیلی ویژن کے بے شمار ڈراموں میں بھی اپنی شاندار اداکاری کے جوہر دکھائے۔ کئی فلمی جریدوں اور اخبارات میں بھی کام کیا اور آپ کے آرٹیکل اخبارات میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے بے شمار فلموں کے گیت بھی لکھے۔ 1965ء میں ریلیز ہونے والی انیس پکچرز کی فلم عظمت اسلام میں ان کے لکھے ہوئے گیت بے حد مقبول ہوئے تھے۔ عاشق حسین کی موسیقی میںحمدیہ یہ گیت آئرن پروین، ناہید نیازی، مسعود رانا اور سلیم رضا نے گائے تھے۔
میرے آقا میرے سلطان رسول عربی
حرم کی عظمت کے پاسبانو خدا نگہبان ہے تمہارا
صلی علیٰ صل علیٰ سیدی مکی مدنی تیرے دیوانے ہم
محمد ﷺمحمدﷺ پکارے چلا جا
آپ نے ایک فلم ’’چشم بددور‘‘ کا آغازبھی کیا تھا۔ مرکزی کرداروں کے لئے انہوں نے شمیم آرا اور یوسف خان کا انتخاب کیا تھا تاہم یہ فلم مکمل نہ ہوسکی ۔ 1973ء تک آپ فلمی دنیا سے وابستہ رہے۔ 1974ء میں آپ کی جواں سال صاحبزادی فوت ہوگئی تھی جن کی موت کا ان کے دل پر گہرا اثر ہوا اور انہوں نے اپنی تمام فلمی سرگرمیاں ترک کردی تھیں۔ چودہ برس تک شوگر کے مریض رہنے کے بعد 27اپریل 1976ءکو آپ لاہور میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔