• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ کی 37نشستوں پر انتخابات کے نتائج ان سطور کی اشاعت تک امکان ہے کہ منظر عام پر آچکے ہوں گے تاہم فی الوقت اس ضمن میں اب تک جو کچھ ہوا، اسی پر بات کی جا سکتی ہے۔ اس حوالے سے یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ ہماری سیاست میں قومی مفادات پر ذاتی و گروہی مفادات بدرجہ اتم غالب ہیں اور شفافیت اور دیانت و امانت کا ہولناک فقدان ہے۔ ان رجحانات کے واضح مظاہر حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے سامنے آئے ہیں۔ ارکانِ اسمبلی کو براہِ راست ترقیاتی فنڈ دینے کی پُرزور مخالفت کرنے اور اس طریقے کو بجا طور پر سیاست میں کرپشن کے فروغ کا ذریعہ قرار دینے والے وزیراعظم کی جانب سے سینیٹ کے انتخابات سے عین پیشتر ارکانِ اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر پچاس پچاس کروڑ روپے دینے کے اعلان، سپریم کورٹ کی جانب سے اس کا ازخود نوٹس لئے جانے کے بعد اس کی تردید لیکن پھر ذاتی ملاقاتوں میں مبینہ طور پر اس یقین دہانی کے اعادے کو حکومتی امیدواروں کے لئے ووٹ یا ضمیر خریدنے کی کوشش کے سوا بھلا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ پھر یہی نہیں بلکہ وہی حکومت جس نے پچھلے سینیٹ انتخابات میں خفیہ بیلٹ میں اپوزیشن ارکانِ اسمبلی کی جانب سے اپنے امیدواروں کو ووٹ دینے کو ضمیر کی آزادی قرار دیا تھا، اس بار اس طریق کار کو ختم کرکے شو آف ہینڈز کا طریقہ رائج کرنے کے لئے سپریم کورٹ جا پہنچی اور پوری کوشش کی گئی کہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ بیلٹ کے بجائے ہاتھ کھڑے کرنے کا طریقہ رائج کرنے کے حق میں فیصلہ حاصل کرکے پارٹیوں کے ارکانِ اسمبلی کو اپنی پارٹیوں ہی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کا پابند کردیا جائے۔ پھر عدالتی رائے کا انتظار کیے بغیر اس کے حق میں صدارتی فرمان بھی جاری ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں ضمیر کی وہ آزادی کیسے برقرار رہ سکتی تھی جسے پہلے ناگزیر قرار دیا جارہا تھا۔ متعلقہ رکن کے خلاف جماعتی قیادت کی جانب سے انتقامی کارروائی کے خطرے کا ازالہ کیسے ہوتا۔ ووٹوں کی خرید و فروخت ختم کرنا یقیناً ضروری ہے اور سپریم کورٹ نے ووٹ کو پارٹی کے بجائے الیکشن کمیشن کے لئے قابلِ شناخت بنانے کی ہدایت کرکے شو آف ہینڈز کا طریقہ رائج کیے جانے کی حکومتی خواہش پوری کیے بغیر یہ مسئلہ بخوبی حل کردیا ہے۔ اس صورت میں کسی ووٹ کے متنازع ہونے پر معاملہ الیکشن کمیشن میں اٹھایا جا سکے گا۔ حکومت کی ذمہ دار شخصیات نے بھی اپوزیشن پر ووٹوں کی خریداری کا الزام لگایا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسے اپنی پارٹی اور اتحادیوں پر اعتبار نہیں جبکہ حکومت نے خود بھی کئی کھرب پتی شخصیات کو سینیٹ کے ٹکٹ دے کر ووٹوں کی خریداری کا تاثر عام کیا ہے۔ اپوزیشن کے حوالے سے ایک وڈیو اور آڈیو بھی گزشتہ روز منظر عام پر لائی گئی ہے ۔ اس کی جلداز جلد تحقیقات کرکے نتائج قوم کے سامنے ضرور لائے جانے چاہئیں تاہم پچھلے سینیٹ انتخابات کی ایک وڈیو کا معاملہ بھی اب تک معلق ہے جس میں خیبرپختون خوا میں نوٹوں کی گڈیوں کے ساتھ بظاہر ووٹوں کی خرید و فروخت کا کاروبار ہوتا نظر آتا ہے لیکن اعلانات کے باوجود ایسے معاملات بالعموم کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچتے جس سے یہ گمان قوی ہوتا ہے کہ یہ حربے محض مخصوص مفادات کے حصول کی خاطر استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ سیاست میں شفافیت اور دیانت کی باتوں کے پیچھے اصلاح کا کوئی حقیقی جذبہ نہیں ہوتا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی دُوہرے معیارات پر کاربند ہیں جس کے نتیجے میں ہماری سیاست منافقت کا دوسرا نام بن گئی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے یہ رویے اب بہرصورت ختم ہونے چاہئیں اور سیاست میں شفافیت کو رائج کرنے کی خاطر باہمی تعاون سے مخلصانہ اور مؤثر اقدامات عمل میں لائے جانے چاہئیں کیونکہ اس کے بغیر قومی ترقی و استحکام کی منزل کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔

تازہ ترین