کئی دن سے طبیعت خراب چلی جا رہی ہے۔
کل رات اظفر رضوی قتل کر دیئے گئے۔ تفصیل مجھے ابھی تک معلوم نہیں ہوئی۔ اظفر رضوی انجمن ترقی اردو کے اعزازی نائب معتمد تھے۔ انہوں نے اپنے ہی قائم کردہ ادارہ فن و ثقافت کے ذریعے بے شمار ادبی اور علمی اجلاس منعقد کئے۔ ایک پوری کتاب مجھ نا چیز پر بھی تصنیف کی (میرے عالی جی)۔ وہ ڈھاکہ گروپ آف ایجوکیشن کے بانی تھے جس نے بہت سے مدارس کھولے۔ انجمن ترقی اردو کے اعزازی مشیر مالیات بھی اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں سینیٹ کے سابق اور ہر حیثیت میں نہایت فعال۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کہ معاشرے کے لئے اتنے کارآمد انسان کو بے وقت اٹھا لے۔ ہم تو اسے بے وقت کی موت کہیں گے۔ ہم بہت جلد ان کے بیان محاسن کے لئے ایک خاص پروگرام منعقد کریں گے۔ اس وقت تو میں بستر پر پڑا ہوا ہوں۔ (ہفتہ، پہلی جون دو ہزار تیرہ) اظفر رضوی واقعی معاشرے کیلئے ایک بہت مفید آدمی تھے۔ آگے نہیں لکھا جا رہا۔
حلف ہے
پچھلے ہفتے نئی اسمبلیوں کے اراکین نے حلف اٹھایا ہے۔ مبارک۔ مگر میں ناچیز ان حلف یافتہ یا حلف بردار محترمین کی توجہ اسی حلف کی طرف دلاتا رہوں گا جو انہیں ان کے تازہ فرائض کی یاد دلاتا رہے گا۔ یہ حلف کوئی رسمی پیش پا افتادہ دستاویز نہیں۔ ایک مسلسل یاد دہانی ہے ان فرائض کی جو انہیں انجام دیتے ہیں اور جیسا کہ برسوں سے مشاہدے میں آ رہا ہے، انجام نہیں دیئے جاتے۔ اس طرح کوئی سرکاری طور پر (یا محکماتی طور پر) پوچھتا بھی نہیں کہ بھائی صاحب/بہن صاحبہ آج آپ نے ان فرائض میں سے کون سا فرض انجام دیا یا اسے کام کے لئے اٹھایا۔ اگر یوں نہیں ہے تو ہر بار ان میں سے خاصی تعداد میں افراد کیوں بدل دیئے جاتے ہیں۔ ووٹنگ کے لئے بہت سے مراحل ہیں مگر یہ مرحلہ بہت بڑی حد تک دیکھا جاتا ہے کہ موصوف/موصوفہ جن کاموں کے لئے حلف لے کر اسمبلی کے رکن بنے تھے ان کا انہوں نے کیا حشر کیا ہے۔
اس بارے میں ایک مختصر سا نیا محکمہ قائم کر دیا جائے جو مسلسل صرف یہ دیکھے کہ رکن صاحب یا رکن صاحبہ اپنے ایام رکنیت میں اپنی رضا و رغبت اٹھاتے ہوئے حلف کی کس حد تک پاسداری کر رہے ہیں۔ کیوں کیا یہ ممکن نہیں؟ ہم تو سمجھتے ہیں کہ حلف حلف ہے۔
طبقاتی جدوجہد
ہر معاشرے کی طرح ہمارے معاشرے میں طبقاتی جدوجہد ہونی چاہئے۔ مگر کیا ہو رہی ہے،ہو رہی ہے تو اس کی خبریں کیوں نہیں چھپتیں۔ اس کے نتائج کیوں سامنے نہیں آتے؟ میں سمجھتا ہی نہیں یہاں دیکھتا بھی ہوں کہ طبقاتی جدوجہد پاکستان میں بھی ہو رہی ہے مگر وہ مطلوبہ انداز میں ظاہر نہیں ہوتی۔ استحصالیوں نے بھی بڑے بڑے خرچوں سے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ طبقاتی جدوجہد کے اغراض عام آدمی پر ظاہر نہ ہو پائیں ورنہ وہ اس جدوجہد کو پوری دانستگی کے ساتھ اور بڑھائے گا۔ تو آخر یہ ”افشائے نتائج“ کا سلسلہ کب تک چلے گا۔ عام آدمی کو کب اور کیسے کھل کر، صاف صاف معلوم ہو گا کہ اس کی محنتوں کے نتائج آخر کیا نکلے ہیں یعنی ان کی تفصیل۔ Item by Itemتاحال مجھے تو ایسا کوئی سرکاری یا غیر سرکاری نظام بروئے کار نظر نہیں آتا۔ کبھی کچھ بڑے صنعتی اداروں کی ٹریڈ یونینز کبھی کبھی اپنے جرائد شائع کرتی ہیں تو ان کا ذکر اب جرائد میں ہو جاتا ہے اور بس۔
کیا محنت کشوں کی اکثریت اب بھی اس ”اطلاع“ سے محروم رہے گی کہ اس کے استحصال کی تفصیلات کیا ہیں۔ بے شک ہوشیار مالکان ایسی رپورٹیں بنائیں گے بھی (کچھ تو بناتے ہی ہیں) تو اس میں ایسے ایسے کمال کی تحریریں شامل کریں گے جن سے صرف روشنیاں ہی روشنیاں ابھریں۔ مگر تاکے۔ اب زمانہ اس نہج، اس طریقے کو قبول کرنے کا نہیں ہے۔ ”معلومات“ کا معلومات ہونا ضروری ہے صرف پبلسٹی نہیں۔ ہمارا مقصد اس گزارش کا یہ ہے کہ عام آدمی کو اپنی محنت کے نتیجے کی سچی اور کھلی تفصیلات ملنی چاہئیں۔ اس کے نتائج، فوائد بدیہی ہیں۔ میں اس وقت انہیں بیان کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔