• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہوا یوں کہ ایک بلی چوہے کو پکڑنے کے لئے اُس کے پیچھے دوڑ رہی تھی اچانک چوہے کی دم بلی کے پنجوں میں آ کے کٹ گئی، بلی شکار کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر بولی، اِدھر آئو میں تمہاری دُم جوڑ دوں ورنہ لنڈورے بُرے لگو گے، چوہا جو درد سے کراہ رہا تھا بلی کی چال سمجھ گیا اور بولا ’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘‘۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہم 80 لاکھ اوورسیز پاکستانی جو دنیا کے تقریباً 35ممالک میں آباد ہیں یہ تو اس چوہے سے بھی کم فہم نکلے جو نئے پاکستان کی سحر انگیزی میں پرانے پاکستان میں ملنے والے کم و بیش ثمرات سے بھی محروم ہو گئے، سعودی عرب اور ’’متحدہ عرب امارات‘‘ کے بعد سب سے زیادہ پاکستانی برطانیہ میں ہیں جن کی تعداد تقریباً 12لاکھ ہے یقیناً ان میں آزاد کشمیر کے لوگ بھی شامل ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں کا ہی اگر اجمالی جائزہ لیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ 22 ارب ڈالر سالانہ زر مبادلہ کی صورت پاکستان کو دینے والے ان اوورسیز پاکستانیوں سے ہمیشہ دوسرے درجے کے شہریوں کا سا سلوک کیا گیا ہے ’انہیں ’پاکستان کے سفیر‘ تو کہا جاتا ہے لیکن ان الفاظ کی حیثیت ایک سیاسی نعرے سے زیادہ نہیں ہوتی گزشتہ تیس سال میں اوورسیز پاکستانیوں کا ایک وزیر تو مقرر کیا جاتا ہے جس کی تعیناتی صریحاً سیاسی رشوت سے زیادہ نہیں ہوتی اس وزیر یا مشیر کو اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ان سے ملاقات کر کے کوئی مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ ہوتا ہے۔ وہ صرف پاکستان کی اندرونی سیاسی موشگافیوں میں مگن رہ کر وزات انجوائے کرتا ہے۔

یوں تو وفاقی محتسب، فیڈرل کمشنر برائے اوورسیز پاکستانیز اور پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن سمیت کوئی درجن بھر ادارے اور ان کے سینکڑوں ملازموں کی تنخواہیں اوورسیز پاکستانیوں کے نام پر قومی خزانے سے ادا تو کی جاتی ہیں لیکن ان پاکستانیوں کے لئے نہ تو کوئی سہولت ہے اور نہ ہی ان کی کہیں داد رسی ہوتی ہے۔ ان کی زمینوں، جائیدادوں پر ویسے ہی قبضے ہو رہے ہیں جیسے پہلے ہوا کرتے تھے یہاں برطانیہ میں ہی ایسے ایسے کیسز موجود ہیں جن لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ مافیا نے قبضے کر رکھے ہیں اس مافیا میں حکومتی وزیر، بڑے بڑے وکیل اور با اثر افراد شامل ہیں بہت سے کیسز میں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے آرڈرز موجود ہیں کہ یہ جائیداد یا زمین واگزار کروا کے اصل مالکان کو دی جائے لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس خاموش تماشائی ہے۔ 22ارب ڈالر بھیج کر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والے تو آج ایک موبائل فون تک اپنے کسی عزیز کے لئے تحفتاً بھی نہیں لا سکتے اس ایک فون پر بھی اس حکومت نے اس قدر ٹیکس لگا دیا ہے جو فون کی قیمت جتنا ہی ہوتا ہے۔ دس پندرہ سال پہلے کی حکومتوں نے پاکستان کے تمام ہوائی اڈوں پر اوورسیز پاکستانیوں کے لئے گرین چینل کی سہولت فراہم کی تھی، گزشتہ حکومت نے تو ایئر پورٹس پر اوورسیز ڈیسک بھی متعارف کروائے تھے، اس نئے پاکستان میںیہ سب سہولتیں اوورسیز پاکستانیوں سے چھین لی گئی ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کیلئے بنائے گئے اداروں میں لوٹ کھسوٹ اور اقربا پروری کا رحجان بام عروج پر ہے، اب جو مشیر برائے اوورسیز پاکستانیز ہے سید ذوالفقار عباس بخاری ان کی کل کوالیفیکیشن وزیراعظم کا دوست ہونا ہے کئی دیگر وزارتوں کا ’بوجھ‘ بھی ان کے کندھوں پر ہے، تو کیا کوئی اوورسیز پاکستانی کہہ سکتا ہے کہ 80لاکھ پاکستانیوں کے اس مشیر نے دنیا کے 35ملکوں کا دورہ کر کے اُن کے معاملات سنے اور ان کے مسائل حل کئے یا انہیں پاکستان کے ایئر پورٹس پر کوئی سہولت بہم پہنچانے کے لئے کوئی اقدامات کئے؟

’’اوورسیز پاکستانی ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں‘‘ جیسے نام نہاد نعرے آئے روز پاکستان کے سیاستدان ہم جیسوں کے لئے لگاتے ہیں لیکن یہ سب نعروں کی حد تک ہی محدود ہیں عملاً کچھ نہیں۔ دیگر ممالک کے حالات کا تو پتا نہیں لیکن اگر برطایہ کی بات کریں تو یہاں بھی پاکستان کا ہائی کمیشن اور اس کے ذیلی ادارے گویاعضو معطل بن چکے ہیں اب حالات یوں ہیں کہ یہاں نہ تو ویزہ کی سہولت ہے نہ پاسپورٹ بنائے جاتے ہیں اور نہ ہی نیکوپ کارڈ بلکہ اگر کسی پاکستانی کو کسی قسم کی ایمرجنسی ہو جائے تو ہائی کمیشن کی طرف سے کوئی مدد بھی ’جوئے شیر لانے‘ کی سی صورتحال ہوتی ہے۔ تمام وہ کام جن کا تعلق کسٹمر سروسز سے ہوتا ہے موجودہ حکومت نے انہیں آن لائن کر دیا ہے۔ اب یہ ایک علیحدہ اور طویل موضوع ہے کہ پھر ہائی کمیشن پر اور کون سا بوجھ ہے جس کا تعلق اس ملک میں آباد پاکستانیوں سے ہے؟ یہ بات محتاج بیان تو نہیں کہ جن پاکستانیوں نے وطن کی معیشت کو 22یا 24ارب ڈالر کا سہارا دے رکھا ہے انہیں اس خدمت کے عوض کچھ نہیں ملتا، کوئی سہولت، کوئی مراعات نہیں۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے اوورسیز پاکستانیوں سے بہت سے خوش کن وعدے کئے تھے لیکن اقتدار کی غلام گردشوں میں جاتے ہی ان وعدوں کو ایفا کرنے کی بجائے اوورسیز پاکستانیوں کی مزید ’مشکیں‘ کس دی ہیں بلکہ وزیراعظم نے تو اُن برٹش پاکستانیوں سے گزشتہ اڑھائی سال میں ایک بار ملنا بھی گوارہ نہیں کیا جنہوں نے ان کے اقتدار کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیا اور جن سے سال ہا سال عمران خان ملینز پائونڈ چندہ جمع کرتے رہے، کیا وہ دن وزیراعظم کو یاد نہیں جب یہاں سے تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے لئے اپنے خرچ پر لوگ پاکستان گئے تھے؟ اب حالت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا برطانیہ میں نہ تو کوئی قابل ذکر ونگ ہے جہاں کوئی شکائت کی جا سکے اور نہ ہی سفارتخانے میں کوئی پرسان حال جہاں دادرسی ہو سکے۔ ابھی پچھلے دنوں برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی سے متعلق چند مسائل کے حل کیلئے میں نے خود بھی ایک کوشش کی اور پاکستان کے برطانیہ میں ہائی کمشنر معظم احمد خان کو ایک خط لکھا تھا لیکن دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی انہوں نے اس کا جواب تک دینا مناسب نہیں سمجھا لہٰذا اس قسم کے بیورو کریٹک رویے سفارتکاروں کے آئوٹ آف دی باکس ہونے کی بجائے غیر سنجیدہ ہونے کی طرف اشار ہ کرتے ہیں۔

یوں تو اوورسیز پاکستانیوں کو کسی دور میں بھی ان کی خدمات کے مطابق سہولیات نہیں دی گئیں لیکن 2018ء کے بعد والے نئے پاکستان میں تو اوپر دی گئی ’’بلی اور چوہے‘‘ کی مثال صادق آتی ہے چنانچہ ہماری درخواست ہے کہ ہمیں لنڈورا ہی رہنے دیں اور پرانا پاکستان لوٹا دیں کیونکہ آج تو اوورسیز پاکستانیوں کی حالت فیضؔ کی نظم کے اس آخری شعر جیسی ہے کہ؎

جاں گنوا کر تیری دلبری کا بھرم

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

تازہ ترین