• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موسمِ خشک میں خوشبو کے تصور کی خاطر ہم طاق میں پھول کی تصویر ہی پر گزارے کو خوش بختی سمجھنے پر مجبور ہیں! چونکہ بات اتنی آسان نہیں چنانچہ میرے جیسے درمیانے درجے شخص کی سمجھ میں آئے بھی تو کیسے کہ یوسف رضا گیلانی سینٹ الیکشن جیتے ہیں یا جمہوریت نے میدان مارا ہے۔ 

کیا ممکن ہے خواص کے سنگ سنگ عوام کو بھی سمجھ آگئی ہو کہ یاالٰہی ماجرا کیا ہے؟ اچھی طرح یاد ہے کہ گیلانی صاحب سے میرا ان دنوں رابطہ بہت تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ کی بطورِ امریکی صدر آمد آمد تھی۔ 

آخری بار میں نے یوسف رضا گیلانی سے یہ پوچھنا چاہا تھا کہ کیا امریکی دورہ پر آصف علی زرداری کی اُن کی دوست سارہ پالن کے ذریعے ری پبلکن سنیٹرز سے بات ہوئی تھی؟ اس کا جواب گیلانی صاحب نے گول مول دیا تاہم اُس سے کچھ دن قبل وہ ناروے کے اوسلو ائرپورٹ پر بلاول بھٹو کے ساتھ اپنی فلائٹ کے منتظر تھے۔

تو فون آیا (بہرحال اس سے قبل کی باتوں یا گیلانی طرزِ فکر اور طرزِ عمل کو عمومی طور پر ہم نے بہتر ہی پایا) بعد ازاں ٹرمپ جیت گئے، اب ہار بھی گئے مگر میری اُن سے بات نہیں ہوئی حتیٰ کہ سینٹ میں ان کی تاریخ ساز فتح پر بھی میں مبارکباد کا پیغام نہیں بھیج سکا تاہم تاریخ سازی سے مجھے ایک اہم بات ضرور یاد آگئی ہے کہ بحثیت قوم ہم تاریخ کے اوراق کو کم ہی مدنظر رکھتے ہیں۔ 

جذبات سے چھٹکارا حاصل ہو تو تاریخ کی حقیقت دماغ کے آنگن میں رونق افروز ہو۔ تاریخ سے محبت اسی صورت میں مستحکم ہوتی ہے جب اس کے پس منظر کی تحریک سے کوئی بالواسطہ یا بلاواسطہ ناتا ہو، کچھ نہ ہو تو مطالعاتی رشتہ ہی ہو۔ 

شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں جتنی اُلفت اپنے جذبات سے ہے اُتنی تاریخی حقائق سے نہیں۔ سو ہم اور ہمارے سیاست دانوں کی جمہوریت سے محبت قبل از نسبت (منگنی) کی سی ہے جو شادی کے بعد بے رنگ و بے بو و بےذائقہ ہو جایا کرتی ہے۔

سینٹ کے حالیہ الیکشن میں ہم نے اپنے سمیت سبھی پرستاروں کو فنکاروں پر فریفتہ پایا۔ کسی کو حفیظ شیخ آئی ایم ایف لگے، کسی نے یاد کرایا وہ سندھ کے وزیر خزانہ اور مشرف کی آنکھ کا تارہ رہے، کسی نے کہا زرداری نے شیخ صاحب کو ری ڈِسکَوَر کیا تھا، کوئی بولا لاڈلے کی دلبری کا نتیجہ ہے کہ وہ وزیر خزانہ ہیں۔ 

اِسی طرح کسی نے مُرشد پاک کو ضیائی شوریٰ والا تو کسی نے مسلم لیگی ڈی این اے والا کہا۔ گویا جتنے منہ اُتنی باتیں تھیں یا اسٹیبلشمنٹ اور انٹی اسٹیبلشمنٹ مسلک نظر آرہے تھے۔

معذرت کے ساتھ گیلانی فتح کے بعد، محترم وزیراعظم پاکستان کی تقریر میں بھی وزارتِ عظمی کا جمال کم اور پی ٹی آئی چیئرمین کا کمال زیادہ تھا۔ 

پرویز رشید کا الیکشن نہ لڑ سکنا، فرحت ﷲ بابر کا ہار جانا، پیر صدرالدین راشدی کے ساتھ ہاتھ ہوجانا، بلوچستان سے عبدالقادر کے انتخاب پر سابق لیجنڈ عبدالقادر کی گُُگلی یاد آنا، جمہوری لیجنڈ میاں رضا ربانی کا کوئی مثالی بیان سامنے نہ آنا اور متعدد ممبرانِ قومی اسمبلی کے ووٹ خراب ہو جانا بہرحال جمہوریت کیلئے نیک شگون نہیں۔ 

اہلِ نظر کا دھیان نہ صرف صاحبزادے علی گیلانی کی وڈیو لیکس کی بدشگونی پر ہے بلکہ کے پی کے سے سیاسی جمہوریت پسندوں کے بجائے ممتاز صاحبانِ ثروت نومنتخب سینیٹرز محسن عزیز ،لیاقت ترکئی، ذیشان خانزادہ، فیصل سلیم، اور تاج آفریدی بھی ہے، بہرحال یہ نومنتخب سینیٹرز اس خطے کے ہیں یعنی ’’پختونخوا جہاں تبدیلی ساڑھے سات سال پہلے آئی‘‘۔ ﷲ کرے یہ مستقبل میں ثروت پسندی کے سنگ سنگ جمہوریت پسند بھی ہوں۔ 

جمہوریت وہ سماجی و معاشی راحت ہے کہ اس کے لئے جو دل سے کام کرے وہ اسمبلی کے اندر ہو یا باہر اس سے بڑا سکندر کوئی نہیں۔ کیونکہ جمہوریت انسانی حقوق کے احساس کا دوسرا نام ہے!

آہ! اپنے 9 اگست 2020 کے کالم پر جب میں نے’’ اب بلاول آخری جمہوری امید؟ ‘‘ کی سرخی جمائی تو میرے پیاروں نے آخر پر سوالیہ نشان (؟) دیکھے بغیر وہ وہ سنائیں کہ جن کی گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا تاہم رقیب کے وہ شیریں لب میرے نزدیک قابلِ تحسین ضرور قرار پائے۔ 

اب بھی کوئی بلاول بھٹو زرداری ہو یا محترم عمران خان، عرض یہی ہے :حقیقی جمہوریت کی طلب کو زندہ رکھنا بھی بہت بڑا کام ہے ورنہ مصلحتوں کی راہ اور اقتدار کی چاہ سچا نعرہ اور پکی سوچ بھی چھین لیتی ہے۔ 

اقتدار کی کشتی ہچکولے کھانے لگے تو نیم جمہوری فکر کو بھی مکمل جمہوری نظریات کا خیال آنے لگتا ہے، اور مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق کچھ ' مہربان، کوئی نعرہ مستانہ لبوں پر سجا کر عوام کو سرِ بازار لے آتے ہیں جسے اہل نظر سیاسی جادوگری تو مان لیتے ہیں تاہم حقیقی جمہوری نقش و نگار نہیں مانتے۔

امید تو تھی اور ہے کہ، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف شفاف جمہوریت کو تقویت بخشیں گے کیونکہ ان کی دو دو نسلیں سیکھ چکیں کہ سیدھا راستہ کون سا ہے اور جمہوری منزل کی طرف جاتی غیر جمہوری بل کھاتی ناہموار راہ کون سی۔ 

مگر اس حالیہ الیکشن میں بھی بدقسمتی تبدیلی والوں یا بلاول و مریم کی پولیٹیکل سائنس نظر نہیں آئی کچھ نظر آیا تو وہی عمرانی و زرداری و شریف مطالعہ پاکستان! بقول احمدندیم قاسمیؔ، اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے۔ مگر جونہی خیال مقتدر کے بڑے تکلم اور حسن کردار کی جانب جاتا ہے، تو زبان پر یہی آتا ہے کہ، مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟

المختصر، ابھی سب سیاسی دھڑے کمزور دل ہیں، جمہوریت کو پورا دل کسی نے نہیں دیا مگر دعوے عشق کے ہیں۔ سیدھے جمہوری راستے پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ابھی باقی ہے، دیکھنا ہو گا کہ کل کے سنجرانی انتخاب اور اب کے گیلانی سینٹ چیئرمین خواب میں فرق کیا ہے؟ اور ذرا سوچئے گا دوستوں کا ’’ففٹی ففٹی‘‘ ہونا منزل پانا ہے یا کھونا؟ جمہوریت کیلئے عاشقی درکار ہے یا دل لگی؟ یا پھر موسمِ خشک میں خوشبو کا تصور اور طاق میں پھول کی تصویر کافی ہے؟

تازہ ترین