• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد (تبصرہ / انصار عباسی ) وزیر اعظم عمران خان جنہوں نے سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی کلیدی نشست پر شکست کے بعد ہفتہ کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا ہے، انہیں آئندہ دنوں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی جا نب سے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہوگا ۔ 

حکومت اور اپوزیشن دونوں کی فوری توجہ چئیرمین سینیٹ کے لئے انتخاب پر ہو گا ۔ لیکن یہ بھی عین ممکن ہے کہ گجرات کے چوہدری طرفین کے لئے تمام تر اہمیت اختیار کر جائیں ۔

سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جنہوں نے اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست پر حکومتی اتحاد کے امیدوار ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو حیران کن طور پر شکست دی ،توقع ہے وہ چیئرمین سینیٹ کے لئے پی ڈی ایم کے امیدوار ہوں ۔حالیہ انتخابات کے بعد بھی ایوان بالا میں 53 سینیٹرز کے ساتھ اپوزیشن کو اکثریت حاصل ہے جبکہ حکومتی اتحاد کے سینیٹرز کی تعداد 47 ہے ۔

بظاہر چئیرمین سینیٹ کا عہدہ اپوزیشن کی دسترس میں دکھائی دیتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ چئیرمین سینیٹ کا انتخاب خفیہ بیلٹ کے ذریعہ ہوگا تاہم اگر کچھ خفیہ ہاتھوں نے اپنا کردار ادا کیا جیسا ماضی میں ہوا تھا تو صادق سنجرانی جیت جائیں گے ۔ 

صادق سنجرانی کی یہ خوش قسمتی تھی کہ انہیں گزشتہ بار ان قوتوں کی اہمیت حاصل رہی جو اس معاملے میں اہمیت رکھتے تھے لیکن اس بار اپوزیشن زیادہ فعال اور متحرک ہے ۔پی ڈی ایم کے کچھ رہنما طاقتور حلقوں کو پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ وہ معاملے سے دور اور غیر جانبدار رہیں ورنہ اپوزیشن خاموش نہیں رہے گی ۔ 

صادق سنجرانی کا رویہ گزشتہ برسوں میں متوازن اور غیر جانبدارانہ رہا ہے ۔ عزت و احترام دینے پر انہوں نے اپوزیشن ارکان کی ہمدردیاں بھی حاصل کیں ۔ انہیں اپنے اس رویہ کا فائدہ ضرور پہنچ سکتا ہے ۔ جس طرح پی ڈی ایم پر الزام ہے کہ اس نے حالیہ سینیٹ انتخابات میں ووٹ خریدنے کے لئے پیسہ استعمال کیا ۔

پی ٹی آئی کی حکومت بھی سنجرانی کے حق میں خفیہ بیلٹ سے استفادے کے لئے اپنے وسائل بروئے کار لا سکتی ہے۔ کچھ حکومتی حلقوں کی رائے میں خفیہ بیلٹ سے فائدہ اٹھانا عبدالحفیظ شیخ کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے بہترین انتقام ہو گا ۔ایسے میں غیر قانونی حربے اختیار کر نا جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے کہ مترادف ہوگا ۔

متحدہ قومی موومنٹ نے پہلے ہی ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کے عہدے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور عمران خان انہیں یہ عہدہ پیش بھی کر سکتے ہیں ورنہ پی ڈی ایم اپنے چئیرمین سینیٹ کے امیدوار کو ووٹ کے بدلے ڈپٹی چئیرمین کا عہدہ ایم کیو ایم کو دے سکتی ہے ۔ 

پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کا اعلان پہلے کر رکھا ہے لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب اور اسپیکر قومی اسمبلی بھی اس کا ہدف ہیں اور اس کے لئے مسلم لیگ (ق) کا کردار فیصلہ کن ہو گا گو کہ پی ڈی ایم کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے ق لیگ کی قیادت سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے.

تاہم عثمان بزدار کی جگہ پرویز الہیٰ کے لینے کا قوی امکان ہے ۔یہ قیاس آرائیاں پہلے ہی سے جاری ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان وزیر اعلیٰ بزدار کے خلاف پی ڈی ایم کی ممکنہ تحریک عدم اعتماد کی پیش بندی کے لئے ق لیگ کے پرویز الٰہی کی حمایت کر کے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کو درکار لائف سپورٹ حاصل کریں لیکن مرکز میں بھی عمران خان اپنے اتحادیوں کو کھودینے کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ایسی صورتحال میں پرویز الٰہی حکومت اور پی ڈی ایم دونوں کے لئے نہایت اہمیت اختیار کر جا تے ہیں ۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو اپنے ہٹائے جانے کا خطرہ لاحق ہے کیونکہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیئے خفیہ ووٹنگ ہو گی ۔ پی ڈی ایم پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ اسپیکر اسد قیصر اس کا ہدف ہیں ۔

ایسی صورتھال سے وزیر اعظم کس طرح نمٹ پائیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

اگر حکومت اور اپوزیشن سیاسی تعلقات کو ترجیح دیں تو ناگوار صورتحال سے بڑی حد تک بچا جاسکتا ہے لیکن وزیر اعظم عمران خان اس بات پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے جس کی وجہ سے ملک کا سیاسی مستقبل غیر یقینی ہے۔

تازہ ترین