• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اور اپوزیشن نے گزشتہ ڈھائی تین سال میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور توہین و تضحیک کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دونوں نے اپنی خوبیاں اور دوسرے کی خامیاں پوری شرح و بسط کے ساتھ اجاگر کردی ہیں اور حیران و پریشان عوام ان سے اچھی طرح واقف ہو گئے ہیں لیکن سینیٹ کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی اور وزیراعظم عمران خان کے قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی اور اتحادی جماعتوں سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد ملکی سیاست نے جو رخ اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ اختلاف رائے سے پیدا ہونے والی روایتی محاذ آرائی سے زیادہ تصادم اور مارکٹائی کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر مسلم لیگ ن پر پی ٹی آئی کے ورکروں کے دھاوے کی شکل میں سامنے آچکا ہے جس کا قومی اسمبلی کے سپیکر نے نوٹس لے لیا ہے اور تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے اختلاف رائے کو جمہوریت کا حسن کہا گیا ہے جس میں خیرکے بہت سے پہلو ہیں کیونکہ ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والے فریق دلائل سے دوسرے کو اپنی رائے کی اصابت سے قائل کرتے ہیں یا خود قائل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کسی بھی متنازعہ مسئلے کا اتفاق رائے سے بہتر حل نکل آتا ہے مگر ہمارے ہاں اس وقت جو صورتحال نظر آتی ہے اس میں قومی معاملات کو دلائل و براہین سے حل کرنے کی جگہ سارا زور اپنے کہے ہوئے کو مستند منوانے کے لئے دوسرے کی پگڑی اچھالنے ، کج بحثی، گالی گلوچ اور طعنہ بازی پر لگایا جارہا ہے ۔ ایک فریق کہتا ہے آپ دھاندلی سے اقتدار میں آئے۔ قوم کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ کشمیر کو بیچ دیا ہے ۔ آپ دو تھپڑ ماریں گے تو ہم دس ماریں گے۔ دوسرا فریق جواب دیتا ہے، آپ جھوٹے ہیں۔ شکل سے ہی غدار لگتے ہیں۔ بدیانت اور خائن ہیں۔ سیاسی یتیم ہیں وغیرہ۔ ایسی باتیں سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں۔ اپوزیشن کا تو خیر کام ہی حکومت کے کاموں میں کیڑے نکالنا ہوتا ہے۔ آج کا برسراقتدار طبقہ کل جب اپوزیشن میں تھا تو وہ بھی یہی کام کررہا تھا مگر حکومت جب باقی معاملات کو چھوڑ کر اپوزیشن کے پیچھے پڑ جائے تو سرکاری کام ٹھپ ہونے لگتے ہیں۔ کارکردگی ماند پڑنے لگتی ہے اور عوام میں مایوسی بڑھنے لگتی ہے۔ حکومتوں کی خواہش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ ملک میں ہرطرح کا امن و استحکام ہو تاکہ عوام کے کام سکون سے ہوسکیں۔ یہاں حکومت کی زیادہ توجہ سیاسی مخالفین سے نمٹنے اور اپوزیشن کی کوشش حکومت کو چلتا کرنے کی طرف ہے۔ ایسے میں عام آدمی روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور دوسرے پریشان کن مسائل کی وجہ سے فکر مند ہے۔ حکومت کا اصل ایجنڈا کرپشن کا خاتمہ بتایا جاتا ہے ۔بہتر ہوتا کہ حکومت یہ کام نیب پر چھوڑ کر آگے بڑھتی مگر وہ کرپشن کے کیسز کا کریڈٹ لینے کی کوشش میں ہے جس سے نیب کی غلطیاں بھی اسی کے کھاتے میں آجاتی ہیں اور اپوزیشن کے اشتعال میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس سے حکومت اپوزیشن محاذ آرائی میں شدت آرہی ہے۔آئندہ چند روز میں چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہونا ہے۔ اس کے لئے دونوں طرف سے تیاریاں زوروں پر ہیں اور ووٹوں کی خریداری کا بھی چرچا ہے۔ اس سے کشیدگی مزید بڑھے گی جسے روکنے کے لئے جانبین کی صاحب فہم وفراست شخصیات نے کوشش نہ کی تو صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے جو قومی مفاد میں نہیں۔ اس وقت جو اندرونی و بیرونی چیلنجز درپیش ہیں ان کا تقاضا ہے کہ ضد کی سیاست چھوڑ کر حکومت اور اپوزیشن مذاکرات کی راہ اختیار کریں اور سیاسی استحکام کی فضا پیدا کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں ورنہ خدشہ ہے کہ دشمن قوتیں جو موقع کی تاک میں رہتی ہیں قوم میں انتشار پھیلانے میں کامیاب ہوسکتی ہیں جس سے ملک کو نقصان پہنچےگا۔

تازہ ترین