• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سیّد اقبال ؔحیدر۔۔۔فرینکفرٹ
عالمی ادارہ صحت کے باربار خبردار کرنے کے باوجوددنیا بھر میں حکومتوں کی لاپروا ئی سےکورونا کی تیسری لہر نہایت آب و تاب سے نمودار ہوئی اور دنیا بھر میں ہلاکتوں کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہےجن میں امریکہ اور برازیل سرِ فہرست ہیں۔ دنیا میں جن ممالک نے اس وبا کو سنجیدگی سے لیا وہ جنوبی کوریا،نیوزی لینڈ اور جاپان ہیںجو اس وبا کی تباہ کاریوں سے نسبتا محفوظ رہے ہیں مغرب جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ تعمیر وترقی کے لحاظ سے پسماندہ ممالک سے 100سال آگےہیں آج وہی مغربی ممالک بے چارگی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں جرمنی کے تازہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 24 گھنٹوں میں12.834 نئے افراد کرونا کا شکار ہوئے ا س طرح گزشتہ روز تک 2.559,296افراد کرونا کا شکار ہوئے ان میں سے2,352,600 شفایاب ہوئے 73,790 کورونا کے ہاتھوں موت کی آغوش میں چلے گئے۔ہسپتالوں میں 132,906 کورونامرض میں مبتلا زیر علاج ہیں جن میں130,058 معمولی متاثر ہیں2,484 کی حالت خطرے میں ہے ۔یورپ میںجرمنی جسے اپنے نظام صحت پر بہت ناز تھا اور جس نے کوروناوبا کی ابتدائی دنوں میں پڑوسی ممالک فرانس،اٹلی،اسپین سےکورونا مریضوں کو جرمنی لا کر ان کا علاج کیا آج خود اپنی ناکام ’’ کورونا‘‘ حکمت عملی کے سبب پریشان ہے جرمن حکومت مخالفین کا حدف بنی ہوئی ہے۔آج جرمنی کے وزیر صحت نے اپنی پریس کانفرنس میں جرمنی میں کورونا کی تیسری خطرناک لہر کی موجودگی اور اس کے اثرات کا اعتراف کرتے ہوئے جرمنی میں حالیہ لاک ڈائون میں ہونے والی نرمی پر عوام کو سوچنے اور تعاون کی درخواست کرنے کی ہے۔جرمن حکومت نے عوام کو مالی سہولتیں ضرور دیں جن میں عوام کو فری حساس ماسک،کاروبای طبقے کو بروقت مدد جس کا کچھ لوگوں نے غلط فائدہ بھی اٹھا یا اورجن کے خلاف تحقیقات ٹیکس آفس کر رہا ہے،مگر مجموعی طور پر چانسلر انجیلامرکل حکومت کی’’ کورونا‘‘ روک تھام حکمت عملی ناکام اور بے سود نظر آئی ہے۔پچھلے برس جب کورونا کی تباہ کاریاں عروج پر تھیں تواٹلی کی سٹرکوں پر لاشیں پڑی تھیں۔ دنیا بھر کے ایئرپورٹس پر آنے والے مسافروں کا ٹمپریچر چیک کیا جا رہا تھا انھیں دنوں جرمنی کے ا یئرپورٹس پر دوسرے ممالک سے آنے والوں پر حکومت کی کوئی نظر نہ تھی کہ کون کہاں سے جرمنی میں ’’ کورونا وائرس‘‘ ہمراہ لے کر آرہا ہے۔انھیں دنوں PIA کی خصوصی فلائٹس پر ہمارے کئی جاننے والے آئے اور ان سے امیگریشن یا محکمہ صحت نے کوئی سوال نہیں پوچھااسی طرح جرمنی میں’’ سستے مزدور‘‘ پڑوسی ممالک پولینڈ،رومانیہ اور ملکوں سے آتے رہے سرحدوں پر انھیں چیک نہیں کیا گیا،جبکہ جرمنی کے کچھ سلاٹر ہائوس میں سینکڑوں کی تعداد میںکورونامتاثرین کا انکشاف بھی ہوا۔انھی ناقص پالیسیوں کے باعث’’ کورونا وبا‘‘ نے جرمنوں کا غرور خاک میں ملا دیا۔آج یورپ کے دیگر ممالک کی طرح جرمنی بھی پریشانی میں ہاتھ مل رہا ہے،جرمن حکومت کی دوسری ناقص حکمت عملی بروقت ’’ویکسین‘‘ کا انتظام نہ کرنا ہے آج یورپ کے سب سے زیادہ متاثر ملک انگلینڈ میں 60 فیصد عوام کو کورونا کی احتیاتی ویکسین مل گئی ہے اور وہ خود کو محفوظ محسوس کر رہے ہیںجبکہ جرمنی میں آج کے دن تک ویکسین ملنے والوں کی تعدا بمشکل 5 فیصد تک پہنچی ہے اور 95فیصد لوگ ویکسین کی امید پر ڈیپریشن اور پریشانی کا شکار ہیں۔جرمن چانسلر ا نجیلامرکل نے نہایت کامیاب حکمت عملی سے برسوں حکومت کی،اسلام مخالف انتہا پسندوں کے خلاف اور دنیا بھر کے سیاسی متاثرین خصوصا سیریا کے مہاجرین کی مدد کے لئے’’ ڈٹ‘‘ گئیں لیکن کورونا وبا کے خلاف ان کی حکمت عملی ناکامی کا شکار ہوئی ہےجس کی وجہ سے اب ان کے سیاسی کیر یئر پر ایک سوالیہ نشان نظر آ رہا ہے۔حکومت کے ساتھ ساتھ جرمنی کے عوامی حلقے بھی کورونا کی تباہ کاریوں کے برابر ذمہ دار ہیں ابھی پچھلے ہفتہ فرینکفرٹ کے درمیان سے گذرتے ہوئے ’’دریامائینز‘‘ کے کنار ے لگ بھک 200 افراد کو پولیس نے منتشر کیا جو ماسک اور حفاظتی تدابیر سے بے نیاز ’’ مئے نوشی اور گب شپ‘‘ میں مشغول تھے۔اسی طرح کورونا وبا کے دوران لوگوں کے ملنے جلنے اور بے احتیاتی نے آج جرمنی میں کورونا کی تیسری لہر آنے میں مدد کی ہے،پہلی کورونا لہر کا الزام’’ٹرمپ میاں‘‘ نے چین کو دیا تھا نئی خطرناک لہر کو بظاہر انگلینڈ اور افریقہ سے جوڑا گیا مگر حقیت یہ ہے کہ ہر 100 سال بعد ایسی وبائیں آتی ہیںاور دنیا میں تباہ کاریاں پھیلاتے ہوئے رخصت ہو جاتی ہیں،جو محفوظ رہتے ہیں ان کے لئے وبا صرف ایک ’’خبر‘‘ ہے جن کے پیارے اس کے سبب دنیا سے چلے جاتے ان کے گھروں میں صفِ ماتم بچھ جاتی ہے ایسی ہی پاکستان میں کراچی سے ایک خبر نے مجھے پریشان و بے قر ار کردیا کہ میں جس بڑے ’’ اخبار‘‘ سے منسلک ہوں اس کے ڈائریکٹر ایڈمن ڈاکٹر ضیاء صاحب اس دنیائے فانی کے کوچ کرگئے ہیں۔ ڈاکٹر ضیا سے میری کئی برس پہلے اتفاقاً ملاقات ہوئی جو دوستی میں بدل گئی ڈاکٹر ضیاء صاحب کے اخلاق اور حسن سلوک نےمجھے ان کا گرویدہ بنا دیا ۔ ڈاکٹر ضیا کی یہ شفقت تھی کہ انھوں نے مجھے اپنے دوستوں میں شمار کر رکھا تھا،کراچی جائوں اور ان سے ملاقات نہ ہو یہ ممکن نہ تھا۔ ڈاکٹر ضیاء70 کی دھائی میں اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں جرمنی آئے تھے۔وہ اکثر میرے ساتھ فرینکفرٹ کے گلی کوچوں کا ذکر اور ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی باتیں کرتے کرتے یادوں میں گم ہوجاتے تھے،اس کے علاوہ وہ واٹس اَپ پر مسلسل میرے ساتھ رابطے میں رہتے تھے،16 روز پہلے ان کا مسیج آیا ،اقبال صاحب۔۔ میں اور میری بیوی ’’ کورونا‘‘ کا شکار ہو گئے ہیں، دعا کیجیے گا۔ میں نے اپنی ہر نماز اور تمام عبادات میں ڈاکٹر صاحب کی صحت یابی کی دعائیں کیں مگر میری دعائوں کو شرف قبولیت نہ ملا،آج ڈاکٹر ضیاء کا مسکراتا چہرہ میری نظروں کے سامنے بابار آ رہا ہے اور انھیں مرحوم لکھتے ہوئے میری انگلیاں لرز رہی ہیں،موت کتنی بے رحم ہے جو پیاروں کو ’’ہیں‘‘ سے ’’تھے‘‘ کر جاتی ہے ان سطور کے ساتھ میں اپنے تمام قارئین سے دردمندانہ التجا کر رہا ہوں کہ ’’کورونا وبا‘‘مذاق یا کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے اسے سنجیدگی سے لیں اور اس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔
تازہ ترین