عالمی استعمار نے مذموم مقاصد کی خاطر ہم پر جمہوریت مسلط تو کردی مگر بادشاہ گروں کے علم و عرفان کے باعث اس سازش کو پنپنے نہیں دیا اور جمہوریت کی زیاں کاریوں اور تباہ کاریوں کے آگے سیاسی بندوبست کا مضبوط بند باندھ دیا گیا۔
وہ کافرانہ نظام جس کا ذکر شاعر مشرق اور پاکستان کے خواب گر حضرت علامہ اقبال نے بالِ جبریل میں جلالِ پادشاہی کے ساتھ کرتے ہوئے اسے جمہوری تماشا قرار دیا، وہ بھلا کیسے مفید ہو سکتا ہے؟ علامہ اقبال نے ایک اور موقع پر جمہوریت کی حقیقت مترشح کرتے ہوئے بجا طور پر فرمایا:
جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
حالیہ سینیٹ انتخابات کے بعد جب صادق سنجرانی دوسری مرتبہ چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے تو مجھے نہ صرف بادشاہ گروں کے علم و عرفان پر ناز ہوا بلکہ دل چاہا کہ بادشاہی مسجد کے سائے میں ابدی نیند سو رہے قومی شاعر علامہ اقبال کے دربار پر حاضری دوں اور انہیں اس ولولہ انگیز پیشرفت سے آگاہ کروں کہ جمہوریت کو ہم نے اس قدر کنفیوژ کردیا ہے کہ اب وہ بندے گننے کے قابل بھی نہیں رہی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اب اکثریت کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے، وہ زمانہ گزر گیا جب ہر ایرے، غیرے، نتھو خیرے کا ووٹ برابر شمار ہوتا تھا، اب ووٹوں کو حب الوطنی کے میزان میں تولا جاتا ہے، وہی پلڑا بھاری رہتا ہے جس میں ڈالے گئے ووٹوں کا عرفان سے گہرا رشتہ ہو، بےفیض لوگوں کے ووٹ نہیں گنے جاتے، غداروں کے ووٹ مسترد کر دیے جاتے ہیں اور نام نہاد جمہوریت کا دم بھرنے والے تماشہ گر سمجھ ہی نہیں پاتے کہ انہیں کہاں سے ’’ہِٹ‘‘ کیا گیا ہے۔
امریکی مصنفہ ایما گولڈ مین نے کہا تھا کہ اگر ووٹنگ سے تبدیلی لائی جا سکتی تو اسے بھی غیرقانونی قرار دیدیا گیا ہوتا مگر ہمارے ہاں ووٹنگ کو غیرقانونی قرار دینے کے بجائے سیاسی بندوبست کی نکیل ڈال دی گئی ہے اور جمہوریت کا تختہ اُلٹنے کے بجائے اسے موم کی ناک بنا کر اپنی مرضی سے ڈھال لیا جاتا ہے۔
گاہے گاہے خیال آتا ہے کہ آج اگر آپ ہمارے درمیان موجود ہوتے تو جمہوری تماشے کو یوں رسوا ہوتا دیکھ کر کس قدر راحت محسوس کرتے۔ بہرحال جمہوریت کی زجر و توبیخ کے قومی فریضے میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے میں نے جمہوریت مخالف چند اقوال زریں منتخب کئے ہیں تاکہ علم و عرفان کی منزلیں طے کرتے ہوئے میں بھی سرخرو ہو سکوں۔ ایک اور امریکی مصنف چارلس بکوسکی کہتا ہے، جمہوریت اور آمریت میں فرق یہ ہے کہ جمہوریت میں پہلے آپ ووٹ لیتے ہیں پھر ڈکٹیشن لیتے ہیں جبکہ آمریت میں ووٹنگ کیلئے وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستانی آمریت کو دل و جان سے چاہتے ہیں۔ برطانوی مزاح نگار الن کورن نے اس حقیقت کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا ہے، اپنے ڈکٹیٹرز خود منتخب کرنے کو جمہوریت کہتے ہیں۔
اسی طرح امریکی مصنف، گورے وائیڈل نے کس خوبصورتی سے جمہوریت کا نقاب نوچ کر اس کا بدصورت چہرہ دکھایا ہے، جمہوریت میں عوام کو انتخاب کا حق تو حاصل ہوتا ہے مگر اس حقِ انتخاب کی مثال ایسے ہی ہے جیسے دوپین کلرز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا جائے اور بعد میں پتہ چلے کہ دونوں پیکنگ میں تھی تو اسپرین ہی۔
ایک اور امریکی مفکر جیمز بوورڈ نے تو گویا دریا کو کوزے میں ہی بند کردیا ہے، بھیڑیے اور بھیڑ سے یہ رائے لی جائے کہ وہ شام کے کھانے میں کیا کھانا پسند کریں گے، جمہوریت یقیناً اس سے کچھ مختلف ہونی چاہئے۔
ونسٹن چرچل نے کیا خوب کہا ہے، کہا جاتا ہے کہ جمہوریت ماسوائے ان کے بدتر طرزِ حکومت ہے جنہیں اب تک آزمایا جا چکا ہے۔ ایک اور جگہ چرچل کہتے ہیں، اگر آپ جمہوریت کے خلاف بہترین رائے لینے کے خواہاں ہیں تو محض پانچ منٹ ایک عام ووٹر سے بات کرکے دیکھ لیں۔
روسی نژاد امریکی لکھاری Simeon Strunskyبھی انہی خیالات کے حامل ہیں۔ کہتے ہیں، جو لوگ جمہوریت کو سمجھنا چاہتے ہیں، وہ لائبریری میں ارسطو کی کتابوں کو پڑھنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے بسوں اور بس اسٹیشنوں پر وقت گزاریں۔
جن لوگوں کو کپتان کی چوروں اور ڈاکوئوں کے خلاف مہم جوئی ایک آنکھ نہیں بھاتی، وہ انگریز اداکار، ہدایت کار اور لکھاری پیٹر استینوف کے اس جملے پر غور کریں کہ بدعنوانی، جمہوریت پر اعتقاد بنائے رکھنے کا قدرتی طریقہ ہے۔
مہاتما گاندھی کی پہچان ایک جمہوریت پسند سیاستدان کی سی ہے مگر انہوں نے بھی جمہوریت کو کھری کھری سنانے میں تردد نہیں کیا، مرنے والوں، یتیموں اور بےگھروں کو اس بات سے کیا غرض کہ مجنونانہ تباہی جابرانہ نظام کے تحت آتی ہے یا آزادی اور جمہوریت کے مقدس نام پر برپا کی جاتی ہے۔ ارسطو کی خوش فہمی ملاحظہ فرمائیں، کہتے ہیں، جمہوری نظام میں امرا کے بجائے غربا کو زیادہ اختیارات حاصل ہونگے کیونکہ وہ تعداد میں زیادہ ہونگے اور جمہوریت میں اکثریت کی رائے مسلمہ ہوتی ہے۔
ارے بھائی کہاں کی اکثریت لگتا ہے آپ نے ہمارے ہاں سینیٹ کے الیکشن نہیں دیکھے، نہ ہی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام ہوتے دیکھا ہے۔
امریکی سینیٹر کلائوڈ پیپر کے مطابق جمہوریت میں غلط ہونا بھی آپ کا استحقاق ہے۔ امریکی مصنف اور سفارتکار، ولیم بلم کی بات جانے جمہوریت کے حق میں ہے یا خلاف، کہتے ہیں، جمہوریت کے لئے پروپیگنڈا اتنا ہی ضروری ہے جتنا آمریت کے لئے تشدد۔