دنیا کا سب سے مشکل ترین فیصلہ لوگوں کو معاف کر نا ہے، انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جو انسان معا ف کرنے کی اعلیٰ صفت اپنا لیتا ہےوہ نہ صرف خدا کی خوشنودی حاصل کرکے ذہنی سکون حاصل کرلیتاہے بلکہ مالک کے دربار میں بھی سرخرو ہوجاتاہے، دوسری طرف انتقام اور بدلے کی آگ میں جلنے والا اپنی توانائیاں منفی سرگرمیوں میں استعمال کرکے اپنے لئے مسائل پیداکرتا ہے۔ دنیا کے ہر مذہب کی تعلیمات میں معافی، عفو اور درگزر کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کے نناوے ناموں میں عفو (درگزر کرنے والا) اور غفار ( معاف کرنے والا) بھی شامل ہیں، قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اور اللہ وہی ہے جو بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اوراس کی خطاؤں کو معاف کرتا ہے۔ دنیا کے قدیم ترین ہندودھرم میں معاف کرنااہم ترین روحانی صفت ہے، ہندو دھرم کے مطابق جو انسان معاف کرنا نہیں جانتا، وہ درحقیقت ماضی کی تلخ یادوں کو دماغ میں بسائے اپنی اور دوسروں کی زندگیاں اجاڑتا ہے، بدلے کی منفی خواہش غصہ، مایوسی،حسد دیگر ذہنی امراض کا باعث بنتی ہے۔کرسچیئن کمیونٹی کی مقدس کتاب بائبل میں درج ہے کہ لوگوںکی خطاؤں کو ہر صورت معاف کیا کرو، آسمان پر موجود خدا تمہاری خطاؤں کو معاف کرے گا۔انسانی تاریخ میں سب سے عظیم ترین معافی کا عملی مظاہرہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فتح ِ مکہ کے موقع پر پیش کیا ، مسلمانوں کی جب فاتحانہ انداز میںمکہ مکرمہ واپسی ہوئی تو اللہ کے آخری نبیﷺ نے عام معافی کا اعلان کرکے سب کے دِل جیت لئے ۔ جدید تاریخ میںآج کا جنوبی افریقہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک ہے،تاہم تین دہائیاں قبل وہاں رنگ نسل کی بنیاد پر نفرتوں کا راج تھا ،ایسے کٹھن حالات میں عظیم لیڈر نیلسن مینڈیلا نے نسلی امتیاز کے خلاف اپنی پرامن طویل جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرکے عام معافی اور درگزر کا راستہ اپنایا اوراپنے عظیم کردار سے یہ درس دیا کہ زندگی میںگر کر اٹھنا عظمت کی نشانی ہے، مینڈیلا کہا کرتے تھے کہ عظیم لوگ اعلیٰ مقصد کیلئے معاف کرنے سے کبھی گھبرایا نہیں کرتے، اگر آپ اپنے دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہیں تو اس کو اپنا شراکت کار بنا لیں۔یہی بات امریکہ کے سولہویں صدر ابراہام لنکن بھی کہا کرتے تھے کہ میں اپنے دشمن کو دوست بناکر دشمنی ختم کرنے کا قائل ہوں، عظیم امریکی لیڈر ابراہام لنکن نے سیاہ فام غلامی کے خاتمے کیلئے اپنا بھرپور قائدانہ کردار ادا کیا۔ میں ہر فورم پر اپنا یہ موقف پیش کرتا ہوں کہ کامیابیوں کے حصول کیلئے ہرمذہب کی اعلیٰ تعلیمات اور تاریخ کے عظیم انسانوں کی زندگیاںہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہئے، یہی وجہ ہے کہ جب صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرک کے علاقے ٹیری میں واقع شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کو چند شدت پسند عناصر نے منہدم کیا تو اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا میں نے اپنا فریضہ سمجھا، میرے حق پر مبنی جدوجہدکی تائید سپریم کورٹ، میڈیا، سول سوسائٹی اور حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی کی گئی، آخرکار میری جدوجہدرنگ لانے لگی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی جانب سے مجھے جرگے میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا،جرگے کے موقع پر علمائے کرام کی جانب سے افسوسناک واقعہ کی مذمت کی گئی ، انہوں نے مقدس سمادھی کی بحالی کی یقین دہانی سمیت مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے تعاون کے عزم کا بھی اعادہ کیا گیا، وہ عناصر جو 1997ء میں بھی سمادھی پر ناجائز قبضے کے ذمہ دار تھے اور گزشتہ برس کے اختتام پر بھی مقدس مقام پر حملے میں ملوث تھے،جرگے میںسب کے سامنے اپنے عمل پر شرمساراور معافی کے طلبگا ر تھے،س موقع پربہت آسان تھا کہ انتقام اور بدلے کا راستہ اختیارکیا جاتا لیکن میں نے بطور سربراہ پاکستان ہندو وکونسل معاملے کو طول دینے کی بجائے معافی کا اعلان کرنا مناسب سمجھا، ویسے بھی میری نظر میں اکڑنا مردے کی پہچان ہے، جب خدا اپنے بندوں کی بڑی سے بڑی غلطی معاف کردیتا ہے تو ہمیںبھی اپنی غلطی کا اعتراف کرنے والوں کو معاف کردینا چاہئے۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی سربراہی میں تمام صوبائی حکومتی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے جنہوں نے ہمارے مذہبی جذبات کا احساس کرتے ہوئے جرگے کے بہترین انتظامات کرائے اور افہام و تفہیم کی راہ ہموار کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ معافی دینے کا اصل مقصدانہیں اچھا انسان بننے کیلئے ایک موقع فراہم کرنا ہے، تاہم معافی کے بعددوبارہ فساد پھیلانے والے شرپسند عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ معافی اور خیرسگالی کا اظہار پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دینے کا باعث بنے گا۔آج کل ہمارے سیاسی منظرنامہ پر بھی دھینگا مشتی ، الزام تراشی اور عدم برداشت کا دور دورہ ہے، ایک طرف اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے سینیٹ سمیت ہر محاذپر سرگرم ہیں تو دوسری طرف حکومت سمجھتی ہے کہ پی ڈی ایم اپنے داخلی اختلافات کے باعث انتشار کا شکار ہے۔ میری تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل ہے کہ ملک کے وسیع ترقومی مفاد میں معافی اور درگزر کا کلچر عام کریں، ایک دوسرے کو ماضی کی غلطیوں کے طعنے دینے کےبجائے ملک کے حالات سنوارنے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں، اس حوالے سے ہر سیاسی جماعت کے سینئر نمائندگان پر مشتمل ایسی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو پاکستان کی بہتری کی خاطر قومی پالیسیاں مرتب کرے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)